(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، قال: قدم اصحاب عبد الله على ابي الدرداء، فطلبهم، فوجدهم، فقال: ايكم يقرا على قراءة عبد الله؟ قال: كلنا، قال: فايكم احفظ؟ فاشاروا إلى علقمة، قال: كيف سمعته يقرا والليل إذا يغشى سورة الليل آية 1؟ قال علقمة: 0 والذكر والانثى 0، قال: اشهد اني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا هكذا، وهؤلاء يريدوني على ان اقرا وما خلق الذكر والانثى سورة الليل آية 3 والله لا اتابعهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَدِمَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَطَلَبَهُمْ، فَوَجَدَهُمْ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: كُلُّنَا، قَالَ: فَأَيُّكُمْ أَحْفَظُ؟ فَأَشَارُوا إِلَى عَلْقَمَةَ، قَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَهُ يَقْرَأُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1؟ قَالَ عَلْقَمَةُ: 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0، قَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ هَكَذَا، وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونِي عَلَى أَنْ أَقْرَأَ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى سورة الليل آية 3 وَاللَّهِ لَا أُتَابِعُهُمْ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کچھ شاگرد ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) آئے انہوں نے انہیں تلاش کیا اور پا لیا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت کے مطابق قرآت کر سکتا ہے؟ شاگروں نے کہا کہ ہم سب کر سکتے ہیں۔ پھر پوچھا کسے ان کی قرآت زیادہ محفوظ ہے؟ سب نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا انہیں سورۃ «والليل إذا يغشى» کی قرآت کرتے کس طرح سنا ہے؟ علقمہ نے کہا کہ «والذكر والأنثى»(بغیر خلق کے) کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح قرآت کرتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن یہ لوگ (یعنی شام والے) چاہتے ہیں کہ «وما خلق الذكر والأنثى» پڑھوں۔ اللہ کی قسم میں ان کی پیروی نہیں کروں گا۔
Narrated Ibrahim: The companions of `Abdullah (bin Mas`ud) came to Abu Darda', (and before they arrived at his home), he looked for them and found them. Then he asked them,: 'Who among you can recite (Qur'an) as `Abdullah recites it?" They replied, "All of us." He asked, "Who among you knows it by heart?" They pointed at 'Alqama. Then he asked Alqama. "How did you hear `Abdullah bin Mas`ud reciting Surat Al-Lail (The Night)?" Alqama recited: 'By the male and the female.' Abu Ad-Darda said, "I testify that I heard me Prophet reciting it likewise, but these people want me to recite it:-- 'And by Him Who created male and female.' but by Allah, I will not follow them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 468
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4944
حدیث حاشیہ: کیونکہ ابو درداء رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یوں سن چکے تھے (وَ الذکَرِ و الأُنثی) وہ اس کا خلاف کیوں کر کرسکتے تھے۔ علماء نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر جہاں اور کئی باتیں مخفی رہ گئیں، ان میں سے یہ قراءت بھی تھی۔ ان کو دوسری قراءت کی خبر نہیں ہوئی۔ یعنی (وَ مَا خَلَقَ الذکَرَ و الأُنثٰی) کی جو اخیر قراءت اور متواتر تھی اور اسی لئے مصحف عثمانی میں قائم کی گئی۔ (وحیدی) قراءت متواتر یہی ہے جو مصحف عثمانی میں درج ہے۔ حضرت ابو درداء کا نام عویمر ہے۔ یہ عامر انصاری خزرجی کے بیٹے ہیں۔ اپنی کنیت کے ساتھ مشہور ہیں درداء ان کی بیٹی کا نام ہے اپنے خاندان میں سب سے آخر میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ بڑے صالح، سمجھدار عالم اور صاحب حکمت تھے۔ شام میں قیام کیا اور 32ھ میں دمشق میں وفات پائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4944
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4944
حدیث حاشیہ: 1۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل شام (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) پڑھتے ہیں لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) سنا ہے،لہذا میں تو اسی طرح پڑھوں گا۔ 2۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرحضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت یقینی ہے تو اہل شام نے ان کی مخالفت کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل شام کی قراءت بھی یقینی ہے کیونکہ ان کی قراءت کا ثبوت تواتر پرہے، نیز یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا ہے کہ مصحف عثمانی جس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور امت کا اجماع ہے، اس میں یہ آیت اس طرح ہے (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) لہذا یہ واجب الاتباع ہے۔ 3۔ ممکن ہے کہ (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا علم نہ ہوا ہو۔ مصاحف عثمانی کی جب اشاعت ہوئی تو ان میں ہرمنسوخ قراءت کو ختم کردیا گیا تھا لیکن شاید انھیں اس کا علم نہ ہوا ہو۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ شام میں فن قراءت کے امام حضرت ابوعمران عبداللہ بن عامر جب قراءت بیان کرتے ہیں تو ان کی سند میں حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر بھی آتا ہے۔ ان کی قراءت بھی جمہور کی قراءت کے مطابق ہے۔ اسی طرح جب کوفے کے ائمہ قراءت حضرت عاصم، حضرت حمزہ اور امام کسائی قراءت نقل کرتے ہیں توان کی سند میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واسطہ بھی آتا ہے۔ ان کی قراءت بھی جمہور کی قراءت کے مطابق ہے، یعنی یہ سب حضرات (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جب انھیں تسلی ہوگئی تو انھوں نے اپنی قراءت سے رجوع کر کے جمہور کی قراءت کے مطابق پڑھنا شروع کر دیا ہو۔ 4۔ بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) بھی حروف سبعہ سے تھی جسے عرض اخیرہ میں منسوخ کردیاگیا اور(وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) پر اتفاق ہو گیا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4944