صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ} إِلَى: {لَكَاذِبُونَ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”جب منافق آپ کے پاس آتے تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں“ «لَكَاذِبُونَ» تک۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “When the hypocrites come to you (O Muhammad ) they say: ’We bear witness that you are indeed the Messenger of Allah...’ ” (V.63:1)
حدیث نمبر: Q4900
Save to word اعراب English
nn
‏‏‏‏ .

حدیث نمبر: 4900
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن زيد بن ارقم، قال: كنت في غزاة، فسمعت عبد الله بن ابي، يقول: لا تنفقوا على من عند رسول الله، حتى ينفضوا من حوله ولئن رجعنا من عنده ليخرجن الاعز منها الاذل، فذكرت ذلك لعمي او لعمر، فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم، فدعاني، فحدثته، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عبد الله بن ابي واصحابه، فحلفوا ما قالوا، فكذبني رسول الله صلى الله عليه وسلم وصدقه، فاصابني هم لم يصبني مثله قط، فجلست في البيت، فقال لي عمي: ما اردت إلى ان كذبك رسول الله صلى الله عليه وسلم ومقتك، فانزل الله تعالى إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1، فبعث إلي النبي صلى الله عليه وسلم فقرا، فقال:" إن الله قد صدقك يا زيد".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ فِي غَزَاةٍ، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ وَلَئِنْ رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِهِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي أَوْ لِعُمَرَ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ، فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ لِي عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، فَبَعَثَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ".
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، ان سے اسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھا اور میں نے (منافقوں کے سردار) عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ (مہاجرین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا (سعد بن عبادہ انصاری) سے کیا یا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ (راوی کو شک تھا) انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھا لی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی «إذا جاءك المنافقون‏» جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Zaid bin Arqam: While I was taking part in a Ghazwa. I heard `Abdullah bin Ubai (bin Abi Salul) saying. "Don't spend on those who are with Allah's Messenger , that they may disperse and go away from him. If we return (to Medina), surely, the more honorable will expel the meaner amongst them." I reported that (saying) to my uncle or to `Umar who, in his turn, informed the Prophet of it. The Prophet called me and I narrated to him the whole story. Then Allah's Messenger sent for `Abdullah bin Ubai and his companions, and they took an oath that they did not say that. So Allah's Messenger disbelieved my saying and believed his. I was distressed as I never was before. I stayed at home and my uncle said to me. "You just wanted Allah's Messenger to disbelieve your statement and hate you." So Allah revealed (the Sura beginning with) 'When the hypocrites come to you.' (63.1) The Prophet then sent for me and recited it and said, "O Zaid! Allah confirmed your statement."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 423


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4904زيد بن أرقمالله قد صدقك
   صحيح البخاري4901زيد بن أرقمالله قد صدقك
   صحيح البخاري4900زيد بن أرقمالله قد صدقك يا زيد
   صحيح البخاري4902زيد بن أرقمالله قد صدقك ونزل هم الذين يقولون لا تنفقوا
   صحيح مسلم7024زيد بن أرقمأنزل الله تصديقي إذا جاءك المنافقون
   جامع الترمذي3312زيد بن أرقملئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل
   جامع الترمذي3313زيد بن أرقملئن رجعتم إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل
   جامع الترمذي3314زيد بن أرقملئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4900 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4900  
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک سے واپسی پر پیش آیا۔
(السنن الکبری للنسائي: 492/6/8۔
رقم: 11597)

لیکن اہل مغازی کا رجحان ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی مصطلق میں ہوا، اس کی تائید آئندہ آنے والی حدیث جابر سے بھی ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 821/8)

واضح رہے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے:
ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے، دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے کا عقیدہ ہے۔
اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو شہادت دینے والا کا عقیدہ بھی وہی ہو جسے زبان سے بیان کررہا ہے تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہوگا جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبداللہ بن ابی کے متعلق شہادت تھی اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو لیکن شہادت دینے والا اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو ہم ایک لحاظ سے اسے سچا کہیں گے کیونکہ وہ اپنا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے اور دوسرے لحاظ سے اسے جھوٹا کہیں گے کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہاہے وہ بجائے خود غلط ہے۔
اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کےخلاف ہو جیسا کہ منافقین کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان ہوئی ہے تو اس لحاظ سے اسے جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں جس کا وہ زبان سے اظہار کررہا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4900   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3314  
´سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔`
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،
جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: 7)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3314   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7024  
حضرت زید بن راقم بیان کرتے ہیں ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر اس وقت تک کچھ خرچ نہ کرے۔ جب تک وہ اس سے الگ نہ ہو جائیں زہیر کہتے ہیں جو لوگ "حَوَلَه"پر زیرپڑھتے ہیں وہ اس سے پہلے من کا اضافہ کرتے ہیں اور اس (عبد اللہ بن ابی)نے کہا اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو عزت والے اس سے ذلت والوں کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7024]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ غزوہ مصطلق کا واقعہ ہے،
جس میں ایک مہاجر اور ایک انصاری کا واقعہ پیش آیا تھا،
اس موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے انتہائی قبیح اور نازیبا باتیں کی تھیں اور پھر قسمیں اٹھا کر ان سے مکرگیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7024   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4901  
4901. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، میں نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں ان پر تم خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ اور یہ بھی کہا: یقینا اگر ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے ان باتوں کا ذکر کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو انہوں نے قسم اٹھا کر کہہ دیا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا خیال کیا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہو گا۔ میں تو اپنے گھر میں بیٹھ گیا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ۔۔۔ لَيُخْرِجَنَّ ٱلْأَعَزُّ مِنْهَا ٱلْأَذَلَّ﴾ اس کے بعد رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4901]
حدیث حاشیہ:
آیات مذکورہ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک سفر میں دو شخص لڑ پڑے ایک مہاجرین سے اور ایک انصار کا۔
دونوں نے اپنی حمایت کے لیے اپنی جماعت کو پکارا جس پر خاصہ ہنگامہ ہوگیا۔
یہ خبر رئیس منافقین عبداللہ بن ابی کو پہنچی کہنے لگا اگر ہم ان مہا جرین کو اپنے شہر میں جگہ نہ دیتے تو ہم سے مقابلہ کیوں کرتے، تم ہی خبر گیری کرتے ہو تو یہ لوگ رسول اللہ کے ساتھ جمع رہتے ہیں خبر گیری چھوڑ دو ابھی خرچ سے تنگ آکر متفرق ہی ہو جائیں گے اور سب مجمع بچھڑ جائے گا یہ بھی کہا کہ اس سفر سے واپس ہو کر ہم مدینہ پہنچیں تو جس کا اس شہر میں زور و اقتدار ہے چاہئے کہ ذلیل بے قدروں کو نکال دے (یعنی ہم جو معزز لوگ ہیں ذلیل مسلمانوں کو نکال دیں گے)
ایک صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں سن کر حضرت کے پاس نقل کرا دیں۔
آپ نے عبداللہ بن ابی وغیرہ سے تحقیق کی تو قسمیں کھانے لگے کہ زید بن ارقم (رضی اللہ عنہما)
نے ہماری دشمنی سے جھوٹ بولا ہے۔
لوگ زید پر آوازیں کسنے لگے وہ بےچارے سخت نادم تھے اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے سچا کر دیا۔
روایات میں ہے کہ عبداللہ بن ابی کے وہ الفاظ کہ عزت والا ذلیل کو ذلت کے ساتھ نکال دے گا جب اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کو پہنچے، جو مخلص مسلمان تھے تو باپ کے سامنے تلوار لے کر کھڑے ہو گئے بولے جب تک اقرار نہ کرے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے ہیں اور تو ذلیل ہے زندہ نہ چھوڑوں گا اور نہ مدینہ میں گھسنے دوں گا آخر اقرار کرا کر چھوڑا۔
عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو ذلیل اور اپنے آپ کو اور دیگر منافقین کو عزت دار سمجھا حالانکہ یہ کم بخت عزت اور عزت داری کا اصول بھی نہیں سمجھتے، اصل عزت وہ ہے جو زوال پذیر نہ ہو۔
مال سرکاری نوکری تجارت وغیرہ یہ سب زوال پذیر ہیں آج کوئی شخص مالدار ہے تو کل نہیں آج کوئی سرکاری عہدہ پر ہے تو کل معزول ہے اس لئے ان لوگوں کی عزت اصل نہیں۔
اصل عزت الله کی ہے اور رسول کی ہے اور صالحین کی ہے جو شخص ایمان کی وجہ سے معزز ہیں چاہے۔
امیر ہوں یا غریب اس میں کچھ فرق نہیں، ان کے علماء فقراءعزت کے مستحق ہیں، وہ سب مومنین میں داخل ہیں مگر منافق لوگ جانتے نہیں ہیں کہ عزت کیا شے ہے، مسلمانو! تم جانتے ہو کہ ان منافقوں کا یہ گھمنڈ دو وجہ سے ہے ایک قوت بازو سے یعنی یہ جانتے ہیں کہ ہم مالدار ہیں۔
دوم یہ ہے کہ ہم اولاد والے بھی ہیں ہم جہاں کھڑے ہو جائیں ہماری قوت ہمارے ساتھ ہے یہ باتیں غرور کی ہیں پس تم مال اور اولاد کا گھمنڈ نہ کرنا کیونکہ یہ چیزیں آنے اور جانے والی ہیں، ان پر گھمنڈ کرنا اور اترانا نہ چاہئے بلکہ شکر کرنا چاہئے پس تم مسلمان ایسے افعال مکروہ سے بچتے رہا کرو اور منافقوں کی طرح بخل نہ کیا کرو۔
(ثنائی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4901   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4904  
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے، دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھا کھا کر اپنی برات ظاہر کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا بعد وحی الٰہی نے عبداللہ بن ابی کا جھوٹ ظاہر فرمایا اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے بیان کی تصدیق فرمائی جس سے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کا دل مطمئن ہو گیا اور منافقین کا سورۃ منافقین میں سارا پول کھول دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4904   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4901  
4901. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، میں نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں ان پر تم خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ اور یہ بھی کہا: یقینا اگر ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے ان باتوں کا ذکر کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو انہوں نے قسم اٹھا کر کہہ دیا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا خیال کیا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہو گا۔ میں تو اپنے گھر میں بیٹھ گیا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ۔۔۔ لَيُخْرِجَنَّ ٱلْأَعَزُّ مِنْهَا ٱلْأَذَلَّ﴾ اس کے بعد رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4901]
حدیث حاشیہ:

جن قسموں کو منافقین بطورڈھال استعمال کرتے تھے وہ کئی طرح کی ہوسکتی ہیں، مثلاً:
۔
وہ قسمیں جو عام طور پر منافق اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے۔
۔
وہ قسمیں جو منافق اپنی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر کھایا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یقین دلائیں کہ وہ حرکت انھوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی۔
۔
وہ قسمیں بھی ہوسکتی ہیں جورئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت یہ واقعہ بیان کر کے اپنا رجحان بیان کیا ہے کہ ان قسموں سے مراد قسمیں وہ ہیں جو منافقوں نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جھوٹا قرار دینے کے لیے اٹھائی تھیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4901   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4902  
4902. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبداللہ بن ابی نے کہا: جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس ہیں، ان پر خرچ نہ کرو۔ اور یہ بھی کہا: اب اگر ہم مدینے واپس گئے (تو ہم میں سے عزت والا ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا۔) میں نے یہ باتیں نبی ﷺ کو پہنچا دیں، اس پر انصار نے مجھے ملامت کی اور عبداللہ بن ابی نے تو قسم کھا لی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی، تاہم میں گھر واپس آ گیا اور سو گیا۔ اس کے بعد مجھے رسول اللہ ﷺ نے طلب فرمایا، میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے تمہاری تصدیق کر دی ہے۔ اور یہ آیات نازل ہوئیں: ﴿هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا﴾ ابن ابی زائدہ نے اعمش سے بیان کیا، انہوں نے عمرو سے انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے، انہوں نے حضرت زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4902]
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں ہے کہ انھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع دی تھی جبکہ پہلی روایات میں ہے کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچے کو بتایا انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔
ان روایات میں کوئی تضادنہیں کیونکہ پہلے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچے سے واقعہ بیان کیا، پھر جب منافقوں نے اس کا انکار کیا تو آپ نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے۔
دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
عبداللہ بن ابی ملعون نے قسمیں اٹھا کر اپنی براءت کو ظاہر کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اس کے جھوٹ کا پول کھول دیا اورسیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق فرمائی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4902   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4904  
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:

عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اعتقادی نفاق کا شکار تھے جس کی درج ذیل چھ قسمیں ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھیں انتہائی بغض تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بھی وہ خوش نہیں تھے۔
۔
وہ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔
۔
ان تعلیمات کی بھی تکذیب کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرآئے تھے۔
۔
دین اسلام کی مدد کو انتہائی ناپسند خیال کرتے تھے۔
۔
دین اسلام کو نیچا دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے:
اورجب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی واپس چلے گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپارہے ہیں اسے اللہ خوب جانتاہے۔
(المائدة: 61/5)
ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا مقصد حصول ہدایت نہیں بلکہ دھوکا دہی ہوتا تھا ایسی حاضری سے انھیں فائدہ بھی کیا ہو سکتا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4904   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.