رجع بعيد: رد، فروج: فتوق واحدها فرج من حبل الوريد وريداه في حلقه، والحبل حبل العاتق، وقال مجاهد: ما تنقص الارض: من عظامهم، تبصرة: بصيرة، حب الحصيد: الحنطة، باسقات: الطوال، افعيينا: افاعيا علينا حين انشاكم وانشا خلقكم، وقال قرينه: الشيطان الذي قيض له، فنقبوا: ضربوا، او القى السمع، لا يحدث نفسه بغيره: رقيب عتيد، رصد: سائق وشهيد، الملكان كاتب وشهيد، شهيد: شاهد بالغيب من لغوب: النصب، وقال غيره: نضيد: الكفرى ما دام في اكمامه ومعناه منضود بعضه على بعض، فإذا خرج من اكمامه، فليس بنضيد، وإدبار النجوم، وادبار السجود، كان عاصم يفتح التي في ق ويكسر التي في الطور ويكسران جميعا وينصبان، وقال ابن عباس: يوم الخروج يوم يخرجون إلى البعث من القبور.رَجْعٌ بَعِيدٌ: رَدٌّ، فُرُوجٍ: فُتُوقٍ وَاحِدُهَا فَرْجٌ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ وَرِيدَاهُ فِي حَلْقِهِ، وَالْحَبْلُ حَبْلُ الْعَاتِقِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ: مِنْ عِظَامِهِمْ، تَبْصِرَةً: بَصِيرَةً، حَبَّ الْحَصِيدِ: الْحِنْطَةُ، بَاسِقَاتٍ: الطِّوَالُ، أَفَعَيِينَا: أَفَأَعْيَا عَلَيْنَا حِينَ أَنْشَأَكُمْ وَأَنْشَأَ خَلْقَكُمْ، وَقَالَ قَرِينُهُ: الشَّيْطَانُ الَّذِي قُيِّضَ لَهُ، فَنَقَّبُوا: ضَرَبُوا، أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ، لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ بِغَيْرِهِ: رَقِيبٌ عَتِيدٌ، رَصَدٌ: سَائِقٌ وَشَهِيدٌ، الْمَلَكَانِ كَاتِبٌ وَشَهِيدٌ، شَهِيدٌ: شَاهِدٌ بِالْغَيْبِ مِنْ لُغُوبٍ: النَّصَبُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: نَضِيدٌ: الْكُفُرَّى مَا دَامَ فِي أَكْمَامِهِ وَمَعْنَاهُ مَنْضُودٌ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ، فَإِذَا خَرَجَ مِنْ أَكْمَامِهِ، فَلَيْسَ بِنَضِيدٍ، وَإِدْبَارِ النُّجُومِ، وَأَدْبَارِ السُّجُودِ، كَانَ عَاصِمٌ يَفْتَحُ الَّتِي فِي ق وَيَكْسِرُ الَّتِي فِي الطُّورِ وَيُكْسَرَانِ جَمِيعًا وَيُنْصَبَانِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمَ الْخُرُوجِ يَوْمَ يَخْرُجُونَ إِلَى الْبَعْثِ مِنَ الْقُبُورِ.
«رجع بعيد» یعنی دنیا کی طرف پھر جانا دور از قیاس ہے۔ «فروج» کے معنی سوراخ روزن، «فرج» کی جمع ہے۔ «وريد» حلق کی رگ۔ اور «جمل» مونڈھے کی رگ۔ مجاہد نے کہا «ما تنقص الأرض» سے ان کی ہڈیاں مراد ہیں جن کو زمین کھا جاتی ہے۔ «تبصرة» کے معنی راہ دکھانا۔ «حب الحصيد» گیہوں کے دانے۔ «باسقات» لمبی لمبی بال۔ «أفعيينا» کیا ہم اس سے عاجز ہو گئے ہیں۔ «قال قرينه» میں «قرين» سے شیطان (ہمزاد) مراد ہے جو ہر آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ «فنقبوا فى البلاد» یعنی شہروں میں پھرے، دورہ کیا۔ «أو ألقى السمع» کا یہ مطلب ہے کہ دل میں دوسرا کچھ خیال نہ کرے، کان لگا کر سنے۔ «افعيينا بالخلق الاول» یعنی جب تم کو شروع میں پیدا کیا تو کیا اس کے بعد ہم عاجز بن گئے اب دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے؟ «سائق» اور «شهيد» دو فرشتے ہیں ایک لکھنے والا دوسرا گواہ۔ «شهيد» سے مراد یہ ہے کہ دل لگا کر سنے۔ «لغوب» تھکن۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «نضيد» وہ گابھا ہے، جب تک وہ پتوں کے غلاف میں چھپا رہے۔ «نضيد» اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ تہ بہ تہ ہوتا ہے جب درخت کا گابھا غلاف سے نکل آئے تو پھر اس کو «نضيد» نہیں کہیں گے۔ «أدبار النجوم»(جو سورۃ الطور میں ہے) اور «أدبار السجود» جو اس سورت میں ہے۔ تو عاصم سورۃ ق میں ( «أدبار» کو) برفتحہ الف اور سورۃ الطور میں بہ کسرہ الف پڑھتے ہیں۔ بعضوں نے دونوں جگہ بہ کسرہ الف پڑھا ہے بعضوں نے دونوں جگہ برفتحہ الف پڑھا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يوم الخروج» سے وہ دن مراد ہے جس دن قبروں سے نکلیں گے۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم میں دوزخیوں کو ڈالا جائے گا اور وہ کہے گی «هل من مزيد.» کہ کچھ اور بھی ہے؟ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر رکھے گا اور وہ کہے گی کہ بس بس۔
Narrated Anas: The Prophet said, "The people will be thrown into the (Hell) Fire and it will say: "Are there any more (to come)?' (50.30) till Allah puts His Foot over it and it will say, 'Qati! Qati! (Enough Enough!)'"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 371
لا يزال يلقى فيها وتقول هل من مزيد حتى يضع فيها رب العالمين قدمه فينزوي بعضها إلى بعض ثم تقول قد قد بعزتك وكرمك لا تزال الجنة تفضل حتى ينشئ الله لها خلقا فيسكنهم فضل الجنة
لا تزال جهنم يلقى فيها وتقول هل من مزيد حتى يضع رب العزة فيها قدمه فينزوي بعضها إلى بعض وتقول قط قط بعزتك وكرمك لا يزال في الجنة فضل حتى ينشئ الله لها خلقا فيسكنهم فضل الجنة