5. باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلانے میں لگے رہتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی دیئے جائیں“ آخر آیت «أو ينفوا من الأرض» تک یعنی یا وہ جلا وطن کر دیئے جائیں۔
(5) Chapter. “The recompense of those who wage war against Allah and His Messenger, and do mischief in the land is only that they shall be killed or crucified or their hands and feed be cut off from opposite sides...” (V.5:33)
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، حدثنا ابن عون، قال: حدثني سلمان ابو رجاء مولى ابي قلابة، عن ابي قلابة: انه كان جالسا خلف عمر بن عبد العزيز، فذكروا، وذكروا، فقالوا: وقالوا: قد اقادت بها الخلفاء فالتفت إلى ابي قلابة وهو خلف ظهره، فقال: ما تقول يا عبد الله بن زيد؟ او قال: ما تقول يا ابا قلابة؟ قلت: ما علمت نفسا حل قتلها في الإسلام إلا رجل زنى بعد إحصان، او قتل نفسا بغير نفس، او حارب الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، فقال عنبسة: حدثنا انس بكذا، وكذا، قلت: إياي حدث انس، قال: قدم قوم على النبي صلى الله عليه وسلم فكلموه، فقالوا: قد استوخمنا هذه الارض، فقال:" هذه نعم لنا تخرج فاخرجوا فيها فاشربوا من البانها، وابوالها"، فخرجوا فيها فشربوا من ابوالها، والبانها، واستصحوا ومالوا على الراعي، فقتلوه، واطردوا النعم، فما يستبطا من هؤلاء، قتلوا النفس، وحاربوا الله ورسوله، وخوفوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: سبحان الله، فقلت: تتهمني، قال: حدثنا بهذا انس، قال: وقال:" يا اهل كذا، إنكم لن تزالوا بخير ما ابقي هذا فيكم، او مثل هذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ: أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَذَكَرُوا، وَذَكَرُوا، فَقَالُوا: وَقَالُوا: قَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ وَهْوَ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ؟ أَوْ قَالَ: مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ؟ قُلْتُ: مَا عَلِمْتُ نَفْسًا حَلَّ قَتْلُهَا فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ بِكَذَا، وَكَذَا، قُلْتُ: إِيَّايَ حَدَّثَ أَنَسٌ، قَالَ: قَدِمَ قَوْمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمُوهُ، فَقَالُوا: قَدِ اسْتَوْخَمْنَا هَذِهِ الْأَرْضَ، فَقَالَ:" هَذِهِ نَعَمٌ لَنَا تَخْرُجُ فَاخْرُجُوا فِيهَا فَاشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا، وَأَبْوَالِهَا"، فَخَرَجُوا فِيهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا، وَأَلْبَانِهَا، وَاسْتَصَحُّوا وَمَالُوا عَلَى الرَّاعِي، فَقَتَلُوهُ، وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ، فَمَا يُسْتَبْطَأُ مِنْ هَؤُلَاءِ، قَتَلُوا النَّفْسَ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَخَوَّفُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: تَتَّهِمُنِي، قَالَ: حَدَّثَنَا بِهَذَا أَنَسٌ، قَالَ: وَقَالَ:" يَا أَهْلَ كَذَا، إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا أُبْقِيَ هَذَا فِيكُمْ، أَوْ مِثْلُ هَذَا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلمان ابورجاء، ابوقلابہ کے غلام نے بیان کیا اور ان سے ابوقلابہ نے کہ وہ (امیرالمؤمنین) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے (مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا) لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا: عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا (پھر) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو (مرتد ہو گیا ہو)۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو (کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا) چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے) کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ (نہیں) یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔
Narrated Abu Qilaba: That he was sitting behind `Umar bin `Abdul `Aziz and the people mentioned and mentioned (about at-Qasama) and they said (various things), and said that the Caliphs had permitted it. `Umar bin `Abdul `Aziz turned towards Abu Qilaba who was behind him and said. "What do you say, O `Abdullah bin Zaid?" or said, "What do you say, O Abu Qilaba?" Abu Qilaba said, "I do not know that killing a person is lawful in Islam except in three cases: a married person committing illegal sexual intercourse, one who has murdered somebody unlawfully, or one who wages war against Allah and His Apostle." 'Anbasa said, "Anas narrated to us such-and-such." Abu Qilaba said, "Anas narrated to me in this concern, saying, some people came to the Prophet and they spoke to him saying, 'The climate of this land does not suit us.' The Prophet said, 'These are camels belonging to us, and they are to be taken out to the pasture. So take them out and drink of their milk and urine.' So they took them and set out and drank of their urine and milk, and having recovered, they attacked the shepherd, killed him and drove away the camels.' Why should there be any delay in punishing them as they murdered (a person) and waged war against Allah and His Apostle and frightened Allah's Messenger ?" Anbasa said, "I testify the uniqueness of Allah!" Abu Qilaba said, "Do you suspect me?" 'Anbasa said, "No, Anas narrated that (Hadith) to us." Then 'Anbasa added, "O the people of such-and-such (country), you will remain in good state as long as Allah keeps this (man) and the like of this (man) amongst you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 134
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4610
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں یوں ہے کہ ابو قلابہ نے کہا امیر المؤمنین آپ کے پاس اتنی بڑی فوج کے سردار اور عرب کے اشراف لوگ ہیں۔ بھلا اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک ایسے شادی شدہ مرد پر گواہی دیں جو دمشق کے قلعہ میں ہو کہ اس نے زنا کیا ہے مگر ان لوگوں نے آنکھ سے نہ دیکھا ہو تو کیا آپ اس کو سنگسار کریں گے؟ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک شخص پر جو حمص میں ہو، انہوں نے اس کو نہ دیکھا ہو یہ گواہی دیں کہ اس نے چوری کی ہے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کٹوادیں گے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ مطلب ابوقلابہ کا یہ تھا کہ قسامت میں قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ دیت دلائی جائے گی، کسی نامعلوم قتل پر اس محلہ کے پچاس آدمی حلف اٹھائیں کہ وہ اس سے بری ہیں اسے قسامت کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4610
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4610
حدیث حاشیہ: 1۔ کسی نامعلوم قتل پر اس محلے کے پچاس آدمی حلف اٹھائیں کہ ہم اس سے بری الذمہ ہیں قسامت کہلاتا ہے، قسامت میں قصاص ہے یا دیت؟ اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابو قلابہ کا مطلب یہ تھا کہ قسامت میں قصاص نہیں بلکہ دیت دلائی جائے جبکہ دوسرے اہل مجلس کا موقف تھا کہ اس میں قصاص ہے ایک دوسری روایت میں حضرت قلابہ نے اپنے موقف کی ان الفاظ میں وضاحت کی ہے فرماتے ہیں اے امیر المومنین! آپ کے پاس فوج کے سردار اور عرب کے اشراف ہیں اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک ایسے شادی شدہ مرد پر گواہی دیں جو دمشق کا رہنے والا ہو کہ اس نے زنا کیا اور انھوں نے اسے آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو کیا آپ اسے ان کی گواہی سے رجم کریں گے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، ابو قلابہ نے کہا: اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک شخص کے خلاف چوری کی گواہی دیں جو حمص میں ہو اور انھوں نے اسے دیکھا نہ ہو تو کیا آپ ان کی گواہی سے اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ انھوں نے کہا: نہیں پھر انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے تین قسم کے لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان میں قسامت کی بنا پر قتل کرنا نہیں ہے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6898) 2۔ حضرت قلابہ نے موجبات قتل کو صرف تین اسباب میں بند کر دیا جن میں قسامہ نہیں ہے پھر حضرت عنبسہ نے حدیث عرنیین بیان کر کے قتل کو ڈاکا زنی میں بند کر دیا کہ محاربین کو قتل کیا جائے ان کا مطلب تھا کہ جواز قتل ان تین اسباب میں منحصر نہیں ہے ابو قلابہ نے جواب دیا کہ عرنیین کا قصہ ان تینوں امور سے خارج نہیں ہے۔ 3۔ بہر حال امام بخاریؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قسامہ میں قصاص نہیں ہے بلکہ اس میں صرف دیت دلائی جائے گی جیسا کہ انھوں نے کتاب الدیات کے باب القسامۃ میں اشارہ کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ۔ 4۔ آیت مذکورہ کو صرف ڈکیتی کی واردات پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے وسیع مفہوم میں لینا چاہیے کہ اسلام کے خلاف گمراہ کن پرو پیگنڈا مجرمانہ سازشیں اسلامی حکومت سے غداری اور مسلح بغاوت یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ اور فساد فی الارض میں شامل ہے، چنانچہ یہ حدیث بیان کے بعد ابو قلابہ کہنے ہیں کہ انھوں نے چوری کی خون کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے، اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کیا اس لیے انھیں سنگین سزا سے دو چار کیا گیا۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 233)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4610
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6899
6899. حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ایک دن دربار عام منعقد کیا۔ سب لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت دی۔ لوگ آئے تو انہوں نے پوچھا: قسامت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے کہا: قسامت کے ذریعے سے قصاص لیا ہے۔ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا: اے قلابہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ مجھے انہوں نے عوام کے سامنے لا کھڑا کیا۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کے پاس عرب کے بڑے بڑے لوگ اور سردار موجود ہیں آپ ہی بتائیں اگر ان میں سے پچاس آدمی دمشق میں رہنے والے کسی شادی شدہ شخص کے متعلق گواہی دیں کہ اس نے زنا کیا ہے جبکہ ان لوگوں نے اس دیکھا ہی نہیں تو کیا ان کی گواہی پر آپ اس شخص کو سنگسار کر دیں گے؟ امیر المومنین نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ ہی بتائیں اگر ان میں سے پچاس آدمی حمص میں رہنے والے کسی شخص گواہی دیں کہ اس نے چوری کی ہے، حالانکہ انہوں نے اسے چوری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6899]
حدیث حاشیہ: (1) اس طویل حدیث میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی موجودگی میں ایک مناظرے کی روداد بیان کی گئی ہے جو ابو قلابہ اور حاضرین کے درمیان ہوا۔ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قسامہ کے عمل کو کن وجوہات کی بنا پر ترک کر دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس پر عمل ہوا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اسے اختیار کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات ملتی ہیں کہ انھوں نے قسامت کی بنیاد پر قصاص لیا تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے مطابق عمل کیا۔ خود حضرت عمر بن عبداعزیز رحمہ اللہ جب مدینہ طیبہ کے گورنر تھے انھوں نے قسامت کی بنیاد پر قصاص لیا تھا۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قسامت کے متعلق اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ یہ قابل عمل ہے یا نہیں؟ اگر قابل عمل ہے تو کیا اس کی بنیاد پر دیت پڑے گی یا قصاص بھی لیا جا سکتا ہے؟ پھر قسم اٹھانے کا آغاز مدعی حضرات سے ہوگا یا مدعی علیہم سے پہلے قسم لی جائے گی، پھر اس کی شروط میں بھی اختلاف ہے۔ (فتح الباري: 289/12)(3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود قسامت کا انکار نہیں جیسا کہ بعض شارحین نے یہ بات کہی ہے، تاہم انھوں نے اس سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے کہ اس کی بنیاد پر قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جا سکتی ہے، البتہ ان کا امام شافعی رحمہ اللہ سے اس امر میں اختلاف ہے کہ قسم مدعی پر نہیں بلکہ مدعیٰ علیہ پر ہے جیسا کہ انھوں نے آغاز میں سعید بن عبید کا حوالہ دیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قسامت سے انکار امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6899