13. باب: آیت کی تفسیر ”مسلمانوں سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں نے تمہارے خلاف بہت سامان جنگ جمع کیا ہے، پس ان سے ڈرو تو مسلمانوں نے جواب میں حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا“۔
(13) Chapter. His Statement: “Those (i.e., believers) unto whom the people (hypocrites) said, ’Verily the people (Mushrikun) have gathered against you (a great army), therefore, fear them...’ ” (V.3:173)
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا «حسبي الله ونعم الوكيل.» تھا یعنی میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: The last statement of Abraham when he was thrown into the fire was:--"Allah is Sufficient for us and He is the Best Disposer (of affairs for us)." (3.173)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 87
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4564
حدیث حاشیہ: اس مبارک کلمہ میں توحید وتوکل کا بھر پور اظہار ہے۔ اسی لیے یہ ایک بہترین کلمہ ہے۔ جس سے مصائب کے وقت عزم و حوصلہ میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ بطور وظیفہ اسے بلا ناغہ پڑھنے سے نصرت الٰہی حاصل ہوتی ہے اور اس کی برکت سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول کو خود تلقین فرمایا ہے جیسا کہ آیت ﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾(التوبة: 129) میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4564