(مرفوع) حدثنا الحسن بن الصباح، سمع جعفر بن عون، حدثنا ابو العميس، اخبرنا قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عمر بن الخطاب،" ان رجلا من اليهود، قال له: يا امير المؤمنين، آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال: اي آية؟ قال: اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا سورة المائدة آية 3، قال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم جمعة".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، سَمِعَ جَعْفَرَ بْنَ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْيَهُودِ، قَالَ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟ قَالَ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ".
ہم سے اس حدیث کو حسن بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے جعفر بن عون سے سنا، وہ ابوالعمیس سے بیان کرتے ہیں، انہیں قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب کے واسطے سے خبر دی۔ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس (کے نزول کے) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا (سورۃ المائدہ کی یہ آیت کہ)” آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو (خوب) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔
Hum se is Hadees ko Hasan bin Sabbaah ne bayan kiya, unhon ne Ja’far bin Aaun se suna, woh Abul Umais se bayan karte hain, unhein Qais bin Muslim ne Tariq bin Shihaab ke waaste se khabar di. Woh Umar bin Khattaab Radhiallahu Anhu se riwayat karte hain ke ek yahoodi ne un se kaha ke aye Ameer-ul-momineen! Tumhaari kitaab (Quran) mein ek Aayat hai jise tum padhte ho. Agar woh hum yahoodiyon par naazil hoti to hum us (ke nuzool ke) din ko yaum-e-eid bana lete. Aap ne poocha woh kaun si Aayat hai? Us ne jawaab diya (Surah Al-Maidah ki yeh Aayat ke) "Aaj main ne tumhaare deen ko mukammal kar diya aur apni ne’mat tum par tamaam kar di aur tumhaare liye deen Islam pasand kiya" Umar Radhiallahu Anhu ne farmaaya ke hum us din aur us maqam ko (khoob) jaante hain jab yeh Aayat Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam par naazil hue (us waqt) Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Arafaat mein Juma’ ke din khade huwe the.
Narrated 'Umar bin Al-Khattab: Once a Jew said to me, "O the chief of believers! There is a verse in your Holy Book Which is read by all of you (Muslims), and had it been revealed to us, we would have taken that day (on which it was revealed as a day of celebration." 'Umar bin Al-Khattab asked, "Which is that verse?" The Jew replied, "This day I have perfected your religion For you, completed My favor upon you, And have chosen for you Islam as your religion." (5:3) 'Umar replied,"No doubt, we know when and where this verse was revealed to the Prophet. It was Friday and the Prophet was standing at 'Arafat (i.e. the Day of Hajj)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 44
آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا قال أي آية قال اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا قال عمر قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي وهو قائم بعرفة يوم جمعة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 45
� تشریح: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدر خوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہو و لعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہر عید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔
آیت کریمہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ»[5-المائدة:3] میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہو چکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چار صدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی کہے گا۔ مگر صد افسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس قدر پختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ»[5-المائدة:3] میں بتایا گیا ہے۔ تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے: دین حق را چار مذہب ساختد رخنہ در دین نبی اند اختد یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چار مذہب بنا ڈالے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 45
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 45
حدیث حاشیہ: حضرت عمر ؓ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحیٰ ہے، اس لیے جس قدرخوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہوولعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہرعید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔ آیت کریمہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾(المائدة: 3) میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہوچکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چارصدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی کہے گا۔ مگرصد افسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس قدر پختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾(المائدة: 3) میں بتایا گیا ہے۔ تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے دین حق را چار مذہب ساختد رخنہ در دین نبی اند اختد یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چارمذہب بنا ڈالے، اس طرح نبی کریم ﷺ کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 45
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:45
حدیث حاشیہ: 1۔ یہودی دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ مسلمان اس آیت کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ اگر ہم پر یہ آیت نازل ہوتی تو ہم مارے خوشی کے اس کے یوم نزول کو عید کے طور پر مناتے اور ہرسال اس دن خوشی کا اظہار کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کامطلب یہ ہے کہ تمہاری عید توخود ساختہ ہوتی لیکن ہمارے نزدیک تو اس کا نزول ہی عید کے دن ہوا اور ایسی جگہ پر نزول ہوا جو بہت تاریخی اور انتہائی تقدیس کا حامل ہے۔ یعنی جمعے کا دن، ذوالحجہ کی نویں تاریخ اور میدان عرفات، اب فیصلہ کیا جائے کہ کون سی خوشی، درحقیقت خوشی کہلانے کا حق رکھتی ہے؟ ایک وہ خوشی ہے جسےخود انسان مقرر کرتا ہے اور ایک وہ جس کی تعیین اللہ کی طرف سے ہو، جبکہ اصل خوشی تو وہی ہے جو اللہ کی مقررکردہ ہو۔ طبرانی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ اس طرح منقول ہیں کہ یہ آیت جمعے اور عرفے کے دن نازل ہوئی اور یہ دونوں دن ہمارے لیے عید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (المعجم الأوسط للطبراني: 460/1۔ حدیث: 834 وفتح الباري 142/1) غرض یہ دونوں عیدیں وقتی نہیں بلکہ دائمی ہیں۔ 2۔ آیت کریمہ میں دین کے متعلق لفظ اکمال استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دین کمال کو قبول کرتا ہے اور جوچیز کمال کو قبول کرتی ہے وہ نقصان کو بھی قبول کرسکتی ہے۔ اس سے دین میں کمی بیشی کا اثبات ہوا، یعنی عمل کے اعتبار سے، نہ کہ انسانوں کو دین میں کمی بیشی کا اختیار ہے جیسے اہل بدعت کا شیوہ ہے۔ وہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ جس دین کو اللہ نے مکمل کردیا، اس میں اضافے کی گنجائش کس طرح ہوسکتی ہے یا اس کا مجاز کون ہو سکتا ہے؟ ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکمال سے پہلے کمی کا تصور لازم آتا ہے تو کیا شروع میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان اوردین کامل نہیں تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کمی صرف مومن بہ (امورایمان) کے اعتبار سے ہے ورنہ جس زمانے میں اسلام کے جتنے احکام نازل شدہ تھے ان کو ماننا ہی کامل ایمان تھا۔ شریعت کے دور اول اور دور کمال کا اعتبار کر کے کسی کے دین کو ناقص نہیں کہا جاسکتا ہے۔ 3۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ساختہ عیدوں کی بھی تردید کرتے ہیں کہ ہم ایسے نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے جو دن چاہیں عید کے لیے مقرر کرلیں بلکہ ہم تو اس سلسلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے محتاج ہیں۔ ہمارے نزدیک جمعہ تو عید المومنین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطورعید مقررکیا ہے نہ کہ ہم نے اپنی طرف سے یوم عید قراردیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 45
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3005
´یوم عرفہ کی فضیلت کا بیان۔` طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر یہ آیت: «اليوم أكملت لكم دينكم» ہمارے یہاں اتری ہوتی تو جس دن یہ اتری اس دن کو ہم عید (تہوار) کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن اتری ہے، جس رات ۱؎ یہ آیت نازل ہوئی وہ جمعہ کی رات تھی، اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3005]
اردو حاشہ: (1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے تو یہ دن پہلے ہی سے عید تھا بلکہ دو وجوہ سے کیونکہ اس دن جمعہ بھی تھا اور حج بھی۔ جمعہ تو ہر ہفتہ کی عید ہے اور یوم عرفہ سالانہ، یعنی ہم اس تاریخ کو بھی عید مناتے ہیں (یعنی 9 ذوالحجہ کو) اور اس دن کو بھی، یعنی جمعہ المبارک کو، لہٰذا ہمیں الگ طور پر اس آیت کے نزول کا جشن منانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اسلام کا مزاج جشن منانے والا نہیں بلکہ عبادت کا ہے اور وہ پہلے سے ہو رہی ہے۔ (2)”جمعے کی رات“ ممکن ہے آنے والی رات کو قرب کی بنا پر جمعے کی رات کہہ دیا ہو ورنہ یہ آیت تو جمعے کے دن اتری ہے، ہاں رات قریب تھی، اس لیے نسبت کر دی۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3005
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7526
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،: یہود نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:اگر یہ آیت ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی؛"آج میں نے تمہارا لیےتمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔"ہمیں پتہ ہوتا کہ وہ کس دن نازل ہوئی ہےتو ہم اس دن کوعید قرار دیتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں وہ دن اور وہ گھڑی جس میں یہ آیت اتر ی تھی،اور اس کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7526]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عرفہ کے دن شام کا وقت ہوگا، اس لیے اس کو ليلة مزدلفه سے تعبیر کردیا، وگرنہ سورج کے غروب ہوجانے کے بعد عرفات سے کوچ شروع ہو جاتا ہے اور مغرب کی نماز مزدلفہ میں آکر پڑھی جاتی ہے اور یہ بات کہنے والے کعب احبار اور ان کے ساتھی تھے، کعب احبار بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7526
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7526
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،: یہود نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:اگر یہ آیت ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی؛"آج میں نے تمہارا لیےتمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔"ہمیں پتہ ہوتا کہ وہ کس دن نازل ہوئی ہےتو ہم اس دن کوعید قرار دیتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں وہ دن اور وہ گھڑی جس میں یہ آیت اتر ی تھی،اور اس کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7526]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عرفہ کے دن شام کا وقت ہوگا، اس لیے اس کو ليلة مزدلفه سے تعبیر کردیا، وگرنہ سورج کے غروب ہوجانے کے بعد عرفات سے کوچ شروع ہو جاتا ہے اور مغرب کی نماز مزدلفہ میں آکر پڑھی جاتی ہے اور یہ بات کہنے والے کعب احبار اور ان کے ساتھی تھے، کعب احبار بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7526
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4407
4407. حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ چند یہودیوں نے کہا: اگر یہ آیت کریمہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: وہ کون سی آیت کریمہ ہے؟ انہوں نے کہا: ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا۔“ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں یہ آیت کس مقام پر نازل ہوئی! یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ عرفہ میں تشریف فرما تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4407]
حدیث حاشیہ: ترمذی کی روایت میں حضرت ابن عبا س ؓ سے یوں مروی ہے کہ اس دن تو دوہری عید تھی۔ ایک تو جمعہ کا دن تھا جو اسلام کی ہفتہ واری عید ہے۔ دوسرے یوم عرفات تھا جو عید سے بھی بڑھ کر فضیلت رکھتا ہے۔ حجۃ الوداع کا ذکر ہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4407
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4606
4606. طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں اگر وہ ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو جشن کا دن مقرر کر لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ آیت ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ کہاں اور کب نازل ہوئی اور جب یہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اس وقت کہاں تشریف فرما تھے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔ سفیان نے کہا: مجھے شک ہے کہ اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4606]
حدیث حاشیہ: قیس بن مسلم کی دوسری روایت میں بالیقین مذکور ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی جو پیغمبر ﷺ کا آخری حج تھا جس کے تین ماہ بعد آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عرفہ کی شام کوجمعہ کے روز اتری تھی۔ اس کے بعد حلال حرام کا کوئی حکم نہیں اترا۔ آپ ﷺ کی وفات سے نو رات پہلے آخری ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ﴾ نازل ہوئی جس دن یہ آیت اتری اس دن پانچ عیدیں جمع تھیں۔ جمعہ کا دن، عرفہ کا دن، یہود کی عید، نصاریٰ کی عید، مجوس کی عید۔ اس آیت سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیئے جو رائے اور قیاس پر چلتے ہیں اور نص کو چھوڑتے ہیں گویا ان کے نزدیک دین کامل نہیں ہوا۔ نعوذ باللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4606
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4407
4407. حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ چند یہودیوں نے کہا: اگر یہ آیت کریمہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: وہ کون سی آیت کریمہ ہے؟ انہوں نے کہا: ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا۔“ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں یہ آیت کس مقام پر نازل ہوئی! یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ عرفہ میں تشریف فرما تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4407]
حدیث حاشیہ: 1۔ جامع ترمذی میں ہے کہ یہودیوں کے ایک آدمی نے حضرت عمر ؓ سے سوال کیا تھا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3043) چونکہ قوم یہود کے سردار کعب احبار تھے بطورنمائندہ انھوں نے ہی سوال کیا تھا، اس لیے جامع ترمذی کی روایت کے مطابق ہے۔ چونکہ جماعت ان کے ہمراہ تھی، اس لیے صحیح بخاری کی روایت میں سوال کی نسبت متعدد آدمیوں کی طرف کی گئی ہے۔ (فتح الباري: 136/8) 2۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس دن دوہری عید تھی: ایک توجمعہ کا دن تھا جو اسلام کی ہفتہ وار عید ہے، دوسرے یوم عرفہ تھا جو عید سے بڑھ کرفضیلت رکھتا ہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3044) چونکہ اس میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4407
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4606
4606. طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں اگر وہ ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو جشن کا دن مقرر کر لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ آیت ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ کہاں اور کب نازل ہوئی اور جب یہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اس وقت کہاں تشریف فرما تھے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔ سفیان نے کہا: مجھے شک ہے کہ اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4606]
حدیث حاشیہ: 1۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے جس دن یہ آیت کریمہ نازل ہوئی وہ جمعے کا دن تھا۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 45) سفیان ثوری کے شک کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سوموار کے دن ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی جیسا کہ مشہور ہے اگر یوم عرفہ جمعے کا دن تھا تو پھر کسی صورت میں بارہ ربیع الاول کو سوموار کا دن نہیں پڑتا، بہر حال اس بات پر اتفاق ہے کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی وہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جمعہ اور عرفہ دونوں دن ہمارے لیے عید ہیں طبرانی کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ (فتح الباري: 142/1، والمعجم الأوسط للطبراني: 202/1) 2۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمعہ کا دن تو واقعی ہمارے لیے عید ہے لیکن عرفہ کے دن کو عید کس بنا پر کہا گیا ہے؟ اس کےدو جواب دیے گئے ہیں۔
۔ حج کرنے والوں کی اصل عید تو یوم عرفہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس دن حج کار کن اعظم یعنی وقوف عرفہ ادا ہوتا ہے۔
۔ اصل عید تو دسویں تاریخ یوم النحر کو ہوتی ہے چونکہ یہ دن یوم عرفہ کے متصل ہوتا ہے اور کسی شے کے قرب کو بھی وہی حکم دیا جاتا ہے جو اصل چیز کا ہوتا ہے، اس لیے یوم عرفہ کو عید کہا ہے کیونکہ اس کے متصل لیلۃ العید شروع ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4606