23. باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے بارے میں بدلہ لینا فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام“ آخر آیت «عذاب أليم» تک۔
(23) Chapter. “O you who believe! Al-Qisas (the Law of Equality in punishment) is prescribed for you...” (V.2:178)
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔
القصاص القصاص فقالت أم الربيع يا رسول الله أيقتص من فلانة والله لا يقتص منها فقال النبي سبحان الله يا أم الربيع القصاص كتاب الله قالت لا والله لا يقتص منها أبدا قال فما زالت حتى قبلوا الدية فقال رسول الله إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4499
حدیث حاشیہ: یہ روایت انتہائی مختصر ہے۔ اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ ”کتاب اللہ کا حکم تو قصاص ہی ہے۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء دیت لینے پر راضی ہوجائیں تو بہتر صورت دیگرکتاب اللہ کا فیصلہ ہے کہ قاتل سے قصاص ہی لیا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4499
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4756
´دانت کے قصاص کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت میں قصاص کا فیصلہ فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4756]
اردو حاشہ: دانت مکمل اکھڑ جائے تو توڑنے والے کا دانت قصاصاً توڑا جا سکتا ہے، البتہ ایسے طریقے سے کہ دوسرے دانتوں کو ضعف نہ پہنچے۔ اور جو دانت اکھڑا ہو، فریق ثانی کا بھی وہی دانت اکھاڑا جائے گا۔ اور اگر مکمل نہ اکھڑے بلکہ اوپر سے ٹوٹ جائے تو فریق ثانی مناسب معاوضہ دے گا۔ اس میں قصاص نہیں ہوگا کیونکہ اتنا ہی دانت توڑنا ممکن نہیں ہوگا اور زیادہ توڑنا جائز نہیں، لہٰذا معاوضہ دیا جائے گا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4756
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4374
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ربیع کی بہن، حارثہ کی ماں نے ایک انسان کو زخمی کر ڈالا، تو فریقین مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصاص، قصاص، یعنی بدلہ دینا ہو گا۔“ تو ربیع کی ماں کہنے لگی، اے اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہیں لیا جائے گا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (استعجاب و حیرت سے) فرمایا: ”سبحان اللہ! ربیع کی ماں!... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4374]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) ربیع سے مراد، ربیع بنت نضر بن ضمضم ہیں، جو حضرت انس بن مالک بن نضر کی پھوپھی ہیں، اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں، اور حارثہ سے مراد، حارثہ بن سراقہ ہے، جو غزوہ بدر میں شہید ہو گیا تھا، اور ام الربیع نے، جبﷺ آپ نے قصاص کا فیصلہ سنایا کہ اللہ کا قانون، اگر ولی معاف نہ کریں، تو قصاص ہے، جواباً کہا، اللہ کی قسم، مجھے اللہ تعالیٰ پر اعتماد و بھروسہ ہے، کہ فریق مخالف معافی یا دیت پر راضی ہو جائے گا، اس لیے عملاً قصاص کا واقعہ پیش نہیں آئے گا، اسی بناء پر آپﷺ نے آخر میں فرمایا: ”اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں، اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اللہ کی قسم اٹھائیں، تو ان کی قسم پوری کر دیتا ہے“ اس لیے یہ اعتراض پیدا نہیں ہو سکتا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصاص کے فیصلہ کا ام ربیع نے انکار کیا، اگر اس نے انکار کیا ہوتا، تو آپﷺ اس کی تعریف نہ فرماتے، بلکہ غصہ اور ناراضی کا اظہار فرماتے، اس لیے ہر متکلم کے الفاظ کے ظاہری معنی پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، یا کسی نیک سیرت اور باکردار، صاحب تقویٰ کے ظاہری قول و فعل پر فورا، کفر یا گناہ گار ہونے کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے، بلکہ اس کا مقصد اور مراد معلوم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، اور اس کے احوال و ظروف کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ کہیں جذباتی طور پر، فرح یا حزن کی شدت کی بناء پر غیر شعوری طور پر یا تعبیر کی کوتاہی کی بناء پر، تو اس سے یہ حرکت سرزد نہیں ہو گی، کیونکہ انسان کے ہر فعل و قول کو اس کی سیرت و کردار اور عمومی رویہ کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ (2) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مردوں اور عورتوں کا باہمی قصاص اور بدلہ جس طرح جان و نفس میں ہے، اس طرح اطراف اور اعضاء و جوارح میں بھی ہے، جان و نفس میں مرد اور عورت کے درمیان قصاص ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور جمہور کا اتفاق ہے۔ (المغني، ج 11، ص 500 مسئلہ نمبر 1432) اطراف و اعضاء میں قصاص کے بارے میں اختلاف ہے، ائمہ حجاز مالک، شافعی، اور احمد کے نزدیک یہاں بھی مرد اور عورت میں قصاص جاری ہو گا، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اطراف میں مرد اور عورت میں قصاص نہیں ہے، ایسی صورت میں دیت ہو گی۔ (3) صحیح مسلم کی مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے، جنایت یا جرم کا ارتکاب ربیع کی بہن نے کیا تھا، جبکہ بخاری شریف کی روایات سے معلوم ہوتا ہے، زیادتی کا ارتکاب خود ربیع نے کیا تھا، اس طرح صحیح مسلم کی روایت میں زخمی کرنے کا تذکرہ ہے، جبکہ بخاری میں، ثنیہ دانت توڑنے کا ذکر ہے، تیسرا اختلاف یہ ہے، صحیح مسلم کی روایت کی رو سے، قسم ربیع کی ماں نے اٹھائی ہے، اور بخاری کی اکثر روایات کی رو سے، ربیع کے بھائی، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چچا، انس بن نضر نے اٹھائی تھی، اس لیے اس تعارض کو دور کرنے میں شارحین میں اختلاف ہے، بعض حضرات کا خیال ہے، یہ دو واقعات ہیں، ایک واقعہ میں ربیع کی بہن نے کسی انسان کو زخمی کیا تھا، اور قسم اس کی ماں نے اٹھائی، دوسرے میں ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑا، اور قسم اس کے بھائی انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے اٹھائی، اور بعض حضرات کے نزدیک واقعہ ایک ہی ہے، زخمی کرنا اور دانت توڑنا، اس میں کوئی تعارض نہیں ہے، اور جرم کا ارتکاب، انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن، ربیع نے کیا تھا۔ راوی کا یہ وہم کہ اس نے اس کو اخت الربيع بنا دیا، اس لیے امام بیہقی نے کہا ہے، اگر یہ واقعات نہیں ہیں، تو پھر ثابت کی روایت کو ترجیح ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر کا میلان اس طرف ہے کہ واقعات دو ہیں، اور واقعہ ایک ہونے کی صورت میں قسم اٹھانے والے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ ہیں، صحیح بات یہی ہے کہ صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح حاصل ہے اور وہ حمید سے ہے، ثابت سے نہیں ہے۔ اس لیے امام بیہقی کا ثابت کی روایت کو ترجیح دینا جو مسلم کی روایت ہے، درست نہیں ہے، اور دو واقعات بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے، کیونکہ دونوں واقعات کا راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہے، جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہے، اور اس سے بیان کرنے والے دونوں شاگرد ثابت اور حمید بھی ان سے طویل ملازمت رکھنے والے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4374
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6894
6894. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نضر ؓ کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا اور اس کے دانت توڑ دیے، وہ نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لائے تو آپ نے قصاص کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6894]
حدیث حاشیہ: (1) ایک دوسرے مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ ربیع کے رشتے داروں نے اس سے معافی مانگی تو انھوں نے انکار کر دیا، پھر انھوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تو انھوں نے اسے بھی رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے علاوہ کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر اس کے بھائی انس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میری بہن ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انس! اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔ “ اتنے میں وہ لوگ دیت لینے پر رضامند ہو گئے اور انھوں نے معافی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔ “(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4500)(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔ “ اس سے آپ نے درج ذیل آیات کی طرف اشارہ فرمایا: ”زخموں میں بھی قصاص ہے۔ “(المائدة: 5: 45) ”سزا دو تم جس قدر تمھیں سزا دی گئی ہو۔ “(النحل16: 126) بلکہ قرآن میں واضح نص ہے کہ دانت کے بدلے دانت ہے۔ (3) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے قصاص کا فیصلہ سن کر جو کچھ کہا وہ اس فیصلے کو رد کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین کے پیش نظر اس کے وقوع کی نفی کی، چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق کام ہوا۔ (فتح الباري: 280/12) واضح رہے کہ حدیث میں توڑنے سے مراد اکھاڑنا نہیں، چنانچہ امام ابوداودر حمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: دانت میں قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: اتنی مقدار میں ریتی سے رگڑ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4595)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6894