(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال:" جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت، فقال: اين ابن عمك؟ قالت: كان بيني وبينه شيء فغاضبني فخرج فلم يقل عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان: انظر اين هو، فجاء فقال: يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه واصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه، ويقول: قم ابا تراب، قم ابا تراب".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ قَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: انْظُرْ أَيْنَ هُوَ، فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ وَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔
Narrated Sahl bin Sa`d: Allah's Apostle went to Fatima's house but did not find `Ali there. So he asked, "Where is your cousin?" She replied, "There was something between us and he got angry with me and went out. He did not sleep (midday nap) in the house." Allah's Apostle asked a person to look for him. That person came and said, "O Allah's Apostle! He (Ali) is sleeping in the mosque." Allah's Apostle went there and `Ali was lying. His upper body cover had fallen down to one side of his body and he was covered with dust. Allah's Apostle started cleaning the dust from him saying: "Get up! O Aba Turab. Get up! O Aba Turab (literally means: O father of dust).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 432
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 441
حدیث حاشیہ: تراب عربی میں مٹی کو کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ازراہِ محبت لفظ ابوتراب سے بلایا بعد میں یہی حضرت علی ؓ کی کنیت ہوگئی اورآپ اپنے لیے اسے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی تھے، مگرعرب کے محاورہ میں باپ کے عزیزوں کو بھی چچا کا بیٹا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے دل میں حضرت علی ؓ کی محبت پیدا کرنے کے خیال سے اس طرز سے گفتگو فرمائی۔ میاں بیوی میں گاہے گاہے باہمی ناراضگی ہونا بھی ایک فطری چیز ہے۔ مگر ایسی خفگی کو دل میں جگہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے خانگی زندگی تلخ ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز نکلا۔ یہی حضرت امام بخاریؒ کا مقصدہے جس کے تحت آپ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔ جو لوگ عام طور پر مسجدوں میں مردوں کے سونے کو ناجائز کہتے ہیں، ان کا قول صحیح نہیں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 441
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:441
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونے کا جواز صرف ان لوگوں کے لیے ہی نہیں جو بے گھر اور مسافر ہوں بلکہ جن کے پاس معقول جائے سکونت ہو وہ بھی اگرکسی مصلحت کے پیش نظر مسجد میں سونا چاہیں تواس میں تنگی نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی ؓ کا گھر بار موجود تھا، اس کے باوجود وہ مسجد میں آکر سوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس موقع پر مسجد میں سونے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ایک مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی دلجوئی فرمائی۔ ممکن ہے امام بخاری ؒ حدیث علی اس لیے لائے ہوں کہ گھر بار والے حضرات کو مستقل طور پر مسجد میں شب باشی نہیں کرنی چاہیے، البتہ کسی ضرورت کی وجہ سے عارضی طور پر دوپہر کے وقت آرام کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ 2۔ چونکہ زمین پر لیٹنے کی وجہ سے حضرت علی ؓ کے بدن پر مٹی کچھ زیادہ ہی لگ گئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے خود اپنےدست مبارک سے اس مٹی کو صاف کیا، اس مناسبت سے آپ نے حضرت علی ؓ کو ”ابوتراب“ کے لقب سے یاد کیا۔ عربی زبان میں تراب مٹی کوکہتے ہیں۔ حضرت علی ؓ کو اگر کوئی اس کنیت سے یاد کرتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6204) رسول اللہ ﷺ اس انداز گفتگو سے اس ناگواری کو دورکرنا چاہتے تھے جو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان درآئی تھی، نیز اس واقعے سے رشتہ مصاہرت میں مدارات کی اہمیت کا بھی پتہ چلتاہے۔ 3۔ حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے چچازاد نہ تھے، کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوطالب کے بیٹے تھے۔ اس میں عرب کے محاورے کےمطابق باپ کے عزیز رشتے دارکو چچازاد کہاگیاہے۔ رسول اللہ ﷺ اس قریبی رشتے داری کے حوالے سے حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے خاوند سے حسن سلوک اور نرم رویہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تیرے چچازاد، یعنی شوہر نامدار کہاں ہیں؟عرض کیا: وہ مسجد میں ہیں۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3703) پھر آپ نے راوی حدیث حضرت سہل بن سعد ؓ کو بھیجا کہ وہ مسجد میں ان کا پتہ کرکے آئیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں؟کیونکہ اس وقت حضرت سہل کے علاوہ اور کوئی دوسراشخص آپ کے ہمراہ نہیں تھا۔ وہ گئے تو دیکھا کہ حضرت علی ؓ دوپہر کے وقت مسجد کی دیوار کے سائے تلے لیٹے ہوئے ہیں۔ (فتح الباري: 693/1) اس حدیث سے اسلامی معاشرے کے خدوخال کا پتہ چلتا ہے کہ اس پاکیزہ ماحول میں اگرخاوند کی بیوی سے کسی بات پر چپقلش ہوجاتی تو بیوی کو مارپیٹ کر گھرسے نکالنے کے بجائے خاوند خود ہی”قہردرویش برجان درویش“ وہاں سے کنارہ کش ہوجاتا۔ وہ کسی ہوٹل، پارک، ویڈیو سنٹر، انٹرنیٹ کلب یادیگر تفریحی مقامات کا رخ نہ کرتا بلکہ مسجد ہی کو اپنی ”احتجاج گاہ“ قراردے لیتا۔ اللہ تعالیٰ ان سےراضی ہواور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 441
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6204
´ایک کنیت ہوتے ہوئے دوسری ابوتراب کنیت رکھنا جائز ہے` «. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" إِنْ كَانَتْ أَحَبَّ أَسْمَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَيْهِ لَأَبُو تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ أَنْ يُدْعَى بِهَا، وَمَا سَمَّاهُ أَبُو تُرَابٍ إِلَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَاضَبَ يَوْمًا فَاطِمَةَ، فَخَرَجَ فَاضْطَجَعَ إِلَى الْجِدَارِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْبَعُهُ، فَقَالَ: هُوَ ذَا مُضْطَجِعٌ فِي الْجِدَارِ، فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَامْتَلَأَ ظَهْرُهُ تُرَابًا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ وَيَقُولُ: اجْلِسْ يَا أَبَا تُرَابٍ . . .» ”. . . سہل بن سعد نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو ان کی کنیت ابوتراب سب سے زیادہ پیاری تھی اور اس کنیت سے انہیں پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ یہ کنیت ابوتراب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ ایک دن فاطمہ رضی اللہ عنہا سے خفا ہو کر وہ باہر چلے آئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے آئے اور فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ کی پیٹھ مٹی سے بھر چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیٹھ سے مٹی جھاڑتے ہوئے (پیار سے) فرمانے لگے ابوتراب اٹھ جاؤ۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6204]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6204 کا باب: «بَابُ التَّكَنِّي بِأَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَتْ لَهُ كُنْيَةٌ أُخْرَى:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں دو کنیتوں کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ حدیث میں صرف ایک کنیت ”ابوتراب“ کا ذکر ہے، تو پھر باب سے حدیث کی مناسبت کس طرح سے ہوگی؟ دراصل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دو کنیتیں تھیں، ایک کنیت وہ جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب اور تحت الباب میں ذکر فرمائی، دوسری کنیت وہ جو مشہور تھی «أبوالحسن» ۔ علامہ کرمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «فان قلت ما وجه دلالته على الكنيتين و هو جزء الآخر من الترجمة، قلت: أبوالحسن هو الكنية المشهورة لعلي رضي الله عنه فلما كنى بأبي تراب صار ذا كنيتين.»(1) ”علامہ کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پہلی کنیت ابوالحسن تھی، جس کنیت سے وہ معروف تھے، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوتراب رکھی تو آپ کی دو کنیتیں ہو گئیں یہی مقصود ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے۔“ مولانا عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «ذكر البخاري فى الباب حديث سهل، ومطابقته للترجمة ظاهرة، لأن عليا كانت له كنية أخرى، وهى أبوالحسن، وكنّاه النبى صلى الله عليه وسلم أبا تراب.»(2) ”امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل باب میں سہل رحمہ اللہ سے حدیث نقل فرمائی جس کی مناسبت ظاہر ہے، کیوں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کنیت پہلی ابولحسن کے نام سے معروف تھی اور دوسری کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ابوتراب۔“ لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6229
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل ؓ کو بلایا اور سیدنا علی ؓ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل ؓ نے انکار کیا تو اس نے انہیں کہا، اگر یہ نہیں مانتے ہو تو یوں کہو، ابوتراب پر اللہ کی لعنت تو سیدنا سہل ؓ نے کہا کہ سیدنا علی ؓ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6229]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جب انسان پر عصبیت اور تعصب سوار ہو جائے تو وہ کس سطح پر اتر آتا ہے، بنو امیہ کے بعض افراد شدت و عصبیت کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں کرتے، لیکن حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے گورنر کی بات نہیں مانی، جس سے ثابت ہوا، صحابہ کرام حکمرانوں کی غلط بات ان کے سامنے رد کر دیتے تھے، نیز اس دور کے حکمران اپنی بات ڈنڈے کے زور سے نہیں منواتے، اس لیے جب حضرت سہل نے بتایا کہ حضرت علی کو ابو تراب ہی کے نام سے مسرت و فرحت ہوتی تھی تو اس نے اس نام کا پس منظر معلوم کرنے کی خواہش کی اور اس واقعہ سے کوئی غلط مطلب اخذ نہیں کیا۔ أين ابن عمك: عربی محاورہ کے مطابق، باپ کے رشتہ دار کو ابن العم سے تعبیر کیا گیا ہے، وگرنہ وہ حضور کے چچا زاد تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد نہ تھے، چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک پہلو پر مٹی لگی ہوئی، اس لیے آپ نے پیار و محبت سے ان کو مانوس کرنے کے لیے ابو تراب کے الفاظ سے پکارا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6229
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6204
6204. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت علی ؓ کو ان کی کنیت، ابو تراب، بہت پیاری لگتی تھی۔ ہم جب انہیں اس کنیت سے آواز دیتے تو بہت خوش ہوتے کیونکہ ابو تراب کی کنیت خود نبی ﷺ نے رکھی تھی۔ ایک دن وہ سیدہ فاطمہ ؓ سے خفا ہو کر باہر چلے گئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی ﷺ انہیں تلاش کرتے ہوئے ان کے پیچھے آئے تو فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کی پشت مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ آپ ان کی پشت سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمانے لگے: ”اے ابو تراب اٹھ جاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6204]
حدیث حاشیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پہلی کنیت ابو الحسن مشہور تھی مگر بعد میں جب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ محبت آپ کو ابو تراب کنیت سے پکارا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی سے زیادہ خوش ہونے لگے۔ اس طرح دو کنیت رکھنا بھی جائز ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ خود بنفسہ ان کو راضی کر کے گھر لانے کے لئے تشریف لے گئے جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو کر وہ باہر چلے گئے تھے۔ ایسی باہمی خفگی میاں بیوی میں بسا اوقات ہو جاتی ہے جو معیوب نہیں ہے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمر میں کافی مٹی لگ گئی تھے۔ اس لئے آپ نے پیار سے ان کو ابو تراب (مٹی کا باوا) کنیت سے یاد فرمایا (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت چار سال اور نو ماہ ہے۔ 17 رمضان 40ھ بروز ہفتہ ایک خارجی ابن ملجم نامی کے حملہ سے آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے 3 رمضان11ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ ماہ بعد انتقال فرمایا۔ إنا للہ الخ غفراللہ لھا (آمین) ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6204
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6280
6280. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا۔ جب انہیں ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے ہوا یوں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ان کو گھر میں نہ پایا۔ آپ نے دریافت کیا: (بیٹی!) تمہارے چچا کے بیٹے (شوہر نامدار) کدھر گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں انہوں نے میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاں قیلولہ بھی نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ”دیکھو وہ (علی) کہاں ہیں؟“ وہ شخص گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول وہ تو مسجد میں سو رہے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے جبکہ ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6280]
حدیث حاشیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں قیلولہ کرتے ہوئے پائے گئے اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ مگر عرب لوگ باپ کے چچا کو بھی چچا کہہ دیتے ہیں اسی بنا پر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے این ابن عمك کے الفاظ استعمال فرمائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6280
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3703
3703. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ فلاں آدمی جومدینہ طیبہ کاحاکم ہے وہ برسر منبر حضرت علی ؓ کے متعلق بدگوئی کرتا ہے۔ انھوں نے پوچھا: وہ کیاکہتاہے؟اس نے بتایا کہ وہ انھیں ابوتراب کہتا ہے۔ حضرت سہل ؓنے مسکرا کر جواب دیا: اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا خود نبی کریم ﷺ نے رکھا ہے۔ اور خودحضرت علی ؓ کو اس نام سے زیادہ کوئی دوسرا نام پسند نہیں تھا۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے حضرت سہل ؓ سے حدیث سننے کی فرمائش کی کہ ابوعباس ؓ!وہ کیسے ہوا؟انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت علی ؓ سیدہ فاطمہ ؓ کے پاس آئے تو خاوند بیوی میں کچھ تلخ کلامی ہوئی۔ حضرت علی ؓ وہاں سے فوراًواپس آگئے اور مسجد میں جاکر لیٹ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے(سیدہ فاطمہ ؓ سے) پوچھا: ”تمہارا چچا زاد کہا ں ہے؟“ انھوں نے بتایا کہ وہ مسجد میں چلے گئے ہیں۔ آپ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3703]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث حضرت علی ؓ کی فضیلت اور ان کے بلند مرتبے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ خود چل کر انھیں لینے گئے اور ان کی کمر سے گردوغبار کو صاف کیا اور ان پر شفقت ومہربانی کرتے ہوئے انھیں راضی کرنا چاہا۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غضب ناک انسان سے نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کا غصہ جاتارہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پہلی مرتبہ اس کنیت سے یا دکیا،جبکہ حضرت عمار بن یاسر ؓ کہتے ہیں کہ غزوہ عسرہ میں حضرت علی ؓ ایک کھجور کے نیچے سوئے ہوئے تھے اور ان کی کمر پر مٹی لگی ہوئی تھی،رسول اللہ ﷺ نے انھیں بیدار کرتے ہوئے فرمایا: ”اے ابوتراب!اٹھو۔ “ اگریہ واقعہ صحیح ہے تو رسول اللہ ﷺ نے پہلے بھی انھیں مذکور کنیت سے یاد کیاتھا۔ (فتح الباري: 93/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3703
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6204
6204. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت علی ؓ کو ان کی کنیت، ابو تراب، بہت پیاری لگتی تھی۔ ہم جب انہیں اس کنیت سے آواز دیتے تو بہت خوش ہوتے کیونکہ ابو تراب کی کنیت خود نبی ﷺ نے رکھی تھی۔ ایک دن وہ سیدہ فاطمہ ؓ سے خفا ہو کر باہر چلے گئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی ﷺ انہیں تلاش کرتے ہوئے ان کے پیچھے آئے تو فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کی پشت مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ آپ ان کی پشت سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمانے لگے: ”اے ابو تراب اٹھ جاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6204]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پہلی کنیت ابو الحسن مشہور تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں ابو تراب کنیت سے پکارا تو بہت خوش ہوئے۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ بیک وقت دو کنیت رکھنا جائز ہے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمر پر نیچے لیٹنے کی وجہ سے کافی مٹی لگ چکی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار و شفقت سے ابو تراب (مٹی کا باوا) کنیت سے یاد فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کی شکر رنجی دور کرنے کے لیے خود تشریف لے گئے، جب گھر میں نہ ملے تو تلاش کرنے کے لیے خود مسجد میں گئے اور انہیں راضی کر کے گھر لائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6204
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6280
6280. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا۔ جب انہیں ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے ہوا یوں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ان کو گھر میں نہ پایا۔ آپ نے دریافت کیا: (بیٹی!) تمہارے چچا کے بیٹے (شوہر نامدار) کدھر گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں انہوں نے میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاں قیلولہ بھی نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ”دیکھو وہ (علی) کہاں ہیں؟“ وہ شخص گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول وہ تو مسجد میں سو رہے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے جبکہ ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6280]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوپہر کے وقت مسجد میں آرام کیا، اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ مسئلہ اخذ کیا کہ مسجد میں بھی قیلولہ جائز ہے۔ شارح صحیح بخاری امام مہلب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث سے ضرورت کے بغیر بھی مسجد میں قیلولہ کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ سیاق حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں ضرورت کے بغیر سونا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 84/11)(2) اس حدیث سے دور نبوی کے معاشرے کی ایک خوبصورت جھلک بھی نظر آتی ہے کہ جب کسی نوجوان کی اپنے گھر میں شکر رنجی ہو جاتی تو وہ کسی نیٹ کیفے، کلب، سینما یا تھیٹر کا رخ کرنے کی بجائے مسجد کا رخ کرتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سکون واطمینان کی یہی جگہ ایک جگہ ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6280