(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا شعبة، عن ابي التياح، عن انس، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في مرابض الغنم، ثم سمعته بعد يقول: كان يصلي في مرابض الغنم قبل ان يبنى المسجد".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ بَعْدُ يَقُولُ: كَانَ يُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَبْلَ أَنْ يُبْنَى الْمَسْجِدُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے ابوالتیاح کے واسطے سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھتے تھے، ابوالتیاح یا شعبہ نے کہا، پھر میں نے انس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑہ میں مسجد کی تعمیر سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔
Narrated Abu Al-Taiyah [??]: Anas said, "The Prophet prayed in the sheep fold." Later on I heard him saying, "He prayed in the sheep folds before the construction of the, mosque."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 421
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:429
حدیث حاشیہ: جس جگہ رات کے وقت بکریاں باندھی جائیں اسے عربی میں (مِربَض) کہتے ہیں جس کی جمع (مَرَابِض) ہے۔ ان باڑوں میں زمین کو عموماً ہموار اورنرم رکھا جاتاہے، ان میں صفائی کا بھی اہتمام ہوتا ہے، پھر بکریوں کے پاس نماز پڑھنے میں نمازی کو کوئی خطرہ یا تشویش نہیں ہوتی، اس لیے مذکورہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے واضح رہے کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کا یہ عمل مسجد نبوی کی تعمیر سے پہلے تھا، مسجد کی تعمیر کے بعد آپ کا معمول مسجد میں نماز پڑھنے کا رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا مطلوب نہیں صرف اس کی اجازت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لو۔ (سنن ابن ماجة، المساجد، حدیث: 769) نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کے باڑوں میں نماز پڑھ لو، کیونکہ بکریوں میں برکت ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 493)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 429
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 234
ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔
اگرچہ راجح بات یہی ہے لیکن اس مسئلہ میں علما کا اختلاف بہرحال موجود ہے۔ (مالکیہ، حنابلہ) ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ امام نخعی، امام اوزاعی، امام زہری، امام محمد، امام زفر، امام ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور امام ابن حبان رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔ [المغني 490/12]۱؎
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیین کو اونٹوں کا دودھ اور پیشاب (بطور دواء) پینے کا حکم دیا۔ [بخاري 233]۲؎
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے (درآں حالیکہ وہاں کی اکثر جگہ کا ان کے پیشاب و پاخانہ سے آلودہ ہونا لازمی امر ہے)۔ [ترمذي 348]۳؎
➌ حرام اشیاء میں شفا نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ «إن الله لم يجعل شفائكم فيما حرم عليكم»”بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان اشیاء میں نہیں رکھی جنہیں تم پر حرام کیا ہے۔ [بخاري قبل الحديث 5614]۴؎
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل دواء خبيث»”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر خبیث دوا (کے استعمال) سے منع فرمایا: ہے۔“[أبوداود 3870]۵؎
عرنیین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا اور انہیں شفا ہوئی جو کہ اس کی حلت و طہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ حرام میں شفا نہیں ہے۔ (شافعیہ، حنفیہ) پیشاب حیوان کا ہو یا انسان کا مطلق طور پر نجس و پلید ہے۔ [الدر المختار 295/1]۶؎ (ابن حجر رحمہ اللہ) انہوں نے جمہور سے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ [فتح الباري 291/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔۔۔ ان میں سے ایک شخص کو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ «فكان لا يستتر من البول» وہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔“[بخاري 216]۷؎
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور پیشاب سے مراد صرف انسان کا پیشاب ہے نہ کہ تمام حیوانات کا بھی جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب قبر کے متعلق کہا: تھا کہ ”وہ اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے پیشاب کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہیں کیا۔ [بخاري قبل الحديث 217]۸؎ (راجح) حنابلہ و مالکیہ کا موقف راجح ہے کیونکہ ہر چیز میں اصل طہارت ہے جب تک کہ شرعی دلیل کے ذریعے کسی چیز کا نجس ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ [نيل الأوطار 100/1]۹؎ ------------------ ۱؎[المغني 490/12، القوانين الفقهية ص/33، كشاف القناع 220/1، الشرح الصغير 1 /47] ۲؎[بخاري 233، كتاب الوضوء: باب أبوال الإبل والدواب والغنم، مسلم 1671، أبو داود 4364، نسائي 160/1، ترمذي 72، ابن ماجة 2578، ابن ابي شيبة 75/7، أحمد 107/3، ابن حبان 1386، دارقطني 131/1، بيهقي 4/10] ۳؎[صحيح: ترمذي 348، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الصلاة فى مرابض الغم . . .، مسلم 817] ۴؎[بخاري قبل الحديث 5614، كتاب الأشربة: باب شراب الحلواء والغسل] ۵؎[صحيح: صحيح أبو داود 3278، كتاب الطب: باب الأدوية المكر وهة، أبوداود 3870، ترمذي 2045، ابن ماجة 3459، أحمد 305/2] ۶؎[فتح القدير 146/1، الدر المختار 295/1، مراقي الفلاح ص/25، مغني المحتاج 79/1، المبسوط۔ 54/1، الهداية 36/1] ۷؎[بخاري 216، 218 كتاب الوضوء: باب من الكبائر أن لا يستر من بوله، مسلم 292، أبو داود 20، ترمذي 70، نسائي 28/1، ابن ماجة 347، بيهقي 104/1، ابن خزيمة 56، ابن حبان 3118، ابن الجارود 130] ۸؎[بخاري قبل الحديث 217 كتاب الوضوء: باب ما جاء فى غسل البول] ۹؎[نيل الأوطار 100/1، الروضة الندية 73/1، فتح الباري 384/1]
* * * * * * * * * * * * * *
10۔ تمام غیر ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دینا درست نہیں
➊ کیونکہ اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔
➋ اور جو روایت اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے: «لا بأس ببول ما أكل لحمه»”ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ہے۔“ وہ ضعیف و ناقابل حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں سوار بن مصعب راوی ضعیف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ [ضعيف: دارقطني 128/1]۱؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ خبر باطل موضوع ہے۔ [المحلي بالآثار 180/1]
لہٰذا راجح بات یہی ہے یقینی طور پر صرف انسان کے بول و براز کی نجاست پر ہی اکتفاکیا جائے علاوہ ازیں بقیہ حیوانات میں سے جس کے بول و براز کے متعلق طہارت یا نجاست کا حکم صریح نص سے ثابت ہو جائے اسے اسی حکم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور اگر ایسی کوئی دلیل نہ ملے تو اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی زیادہ درست اور قرین قیاس ہے۔ [نيل الأوطار 101/1]۲؎ ------------------ ۱؎[ضعيف: دارقطني 128/1، ميزان الاعتدال 246/2] ۲؎[نيل الأوطار 101/1، السيل الجرار 311/1، الروضة الندية 74/1]
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 144
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 234
234. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مسجد (نبوی) بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:234]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ بکریوں وغیرہ کے باڑے میں بوقت ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:234
234. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مسجد (نبوی) بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:234]
حدیث حاشیہ: 1۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہجرت سے چھ ماہ بعد ہوئی ہے۔ اس سے قبل آپ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ چونکہ بکریاں وہاں پیشاب اور مینگنیاں کرتی تھیں اس کے باوجودآپ نے وہاں نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ ان کا پیشاب وغیرہ پلید نہیں، البتہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے، کیونکہ ان کے مستی میں آنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ اونٹوں، بکریوں اور دیگر جانوروں کے پیشاب کی طہارت کے قائل ہیں اور مرابض غنم (بکریوں کے باڑوں) کا ذکر کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان حیوانات کا پیشاب بھی پاک ہے۔ عنوان میں"دواب" کا لفظ زیادہ کیا تاکہ تمام ماکول اللحم جانوروں کا حکم بتا دیا جائے، گویا آپ نے قیاس کے ذریعے سے ان کو بھی اونٹوں اور بکریوں کے حکم میں شامل کیا ہے، بہرحال دین اسلام کے سہل اور یسر(آسان) ہونے کا تقاضا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت استعمال ہوتا ہے ان کے بول وبراز کے متعلق اس قدر سختی مناسب نہیں کہ اسے نجس قراردے کر اس سے اجتناب کی تلقین کی جائے۔ دیہاتی ماحول کے لیے یہ ضابطہ انتہائی پیچیدگی اور مشکل کا باعث ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 234