صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
15. بَابُ قَتْلُ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ:
15. باب: کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا قصہ۔
(15) Chapter. The killing of Kab bin Al-Ashraf.
حدیث نمبر: 4037
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من لكعب بن الاشرف , فإنه قد آذى الله ورسوله فقام محمد بن مسلمة، فقال: يا رسول الله اتحب ان اقتله، قال:" نعم"، قال: فاذن لي ان اقول شيئا، قال:" قل" , فاتاه محمد بن مسلمة، فقال: إن هذا الرجل قد سالنا صدقة , وإنه قد عنانا وإني قد اتيتك استسلفك، قال: وايضا والله لتملنه، قال: إنا قد اتبعناه فلا نحب ان ندعه حتى ننظر إلى اي شيء يصير شانه , وقد اردنا ان تسلفنا وسقا او وسقين , وحدثنا عمرو غير مرة فلم يذكر وسقا او وسقين، فقلت له: فيه وسقا او وسقين، فقال:" ارى فيه وسقا او وسقين"، فقال: نعم ارهنوني، قالوا: اي شيء تريد؟ قال: ارهنوني نساءكم، قالوا: كيف نرهنك نساءنا وانت اجمل العرب؟ قال: فارهنوني ابناءكم، قالوا: كيف نرهنك ابناءنا فيسب احدهم؟ فيقال: رهن بوسق او وسقين , هذا عار علينا ولكنا نرهنك اللامة، قال سفيان: يعني السلاح فواعده ان ياتيه فجاءه ليلا ومعه ابو نائلة وهو اخو كعب من الرضاعة فدعاهم إلى الحصن فنزل إليهم، فقالت له: امراته اين تخرج هذه الساعة، فقال: إنما هو محمد بن مسلمة واخي ابو نائلة، وقال: غير عمرو، قالت: اسمع صوتا كانه يقطر منه الدم، قال: إنما هو اخي محمد بن مسلمة ورضيعي ابو نائلة إن الكريم لو دعي إلى طعنة بليل لاجاب، قال: ويدخل محمد بن مسلمة معه رجلين، قيل لسفيان: سماهم عمرو، قال: سمى بعضهم، قال عمرو: جاء معه برجلين، وقال: غير عمرو ابو عبس بن جبر , والحارث بن اوس , وعباد بن بشر، قال عمرو: جاء معه برجلين، فقال: إذا ما جاء فإني قائل بشعره فاشمه فإذا رايتموني استمكنت من راسه فدونكم فاضربوه، وقال مرة: ثم اشمكم فنزل إليهم متوشحا وهو ينفح منه ريح الطيب، فقال: ما رايت كاليوم ريحا اي اطيب، وقال: غير عمرو، قال: عندي اعطر نساء العرب واكمل العرب، قال عمرو، فقال: اتاذن لي ان اشم راسك، قال: نعم فشمه، ثم اشم اصحابه، ثم قال: اتاذن لي، قال: نعم فلما استمكن منه، قال: دونكم فقتلوه، ثم اتوا النبي صلى الله عليه وسلم فاخبروه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ , فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ:" قُلْ" , فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً , وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا وَإِنِّي قَدْ أَتَيْتُكَ أَسْتَسْلِفُكَ، قَالَ: وَأَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْءٍ يَصِيرُ شَأْنُهُ , وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ , وحَدَّثَنَا عَمْرٌو غَيْرَ مَرَّةٍ فَلَمْ يَذْكُرْ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقَالَ:" أُرَى فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ"، فَقَالَ: نَعَمِ ارْهَنُونِي، قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ تُرِيدُ؟ قَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ؟ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ؟ فَيُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ , هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَجَاءَهُ لَيْلًا وَمَعَهُ أَبُو نَائِلَةَ وَهُوَ أَخُو كَعْبٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْحِصْنِ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَتْ لَهُ: امْرَأَتُهُ أَيْنَ تَخْرُجُ هَذِهِ السَّاعَةَ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَأَخِي أَبُو نَائِلَةَ، وَقَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو، قَالَتْ: أَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ يَقْطُرُ مِنْهُ الدَّمُ، قَالَ: إِنَّمَا هُوَ أَخِي مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَرَضِيعِي أَبُو نَائِلَةَ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ بِلَيْلٍ لَأَجَابَ، قَالَ: وَيُدْخِلُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ مَعَهُ رَجُلَيْنِ، قِيلَ لِسُفْيَانَ: سَمَّاهُمْ عَمْرٌو، قَالَ: سَمَّى بَعْضَهُمْ، قَالَ عَمْرٌو: جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ، وَقَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو أَبُو عَبْسِ بْنُ جَبْرٍ , وَالْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ , وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ عَمْرٌو: جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ، فَقَالَ: إِذَا مَا جَاءَ فَإِنِّي قَائِلٌ بِشَعَرِهِ فَأَشَمُّهُ فَإِذَا رَأَيْتُمُونِي اسْتَمْكَنْتُ مِنْ رَأْسِهِ فَدُونَكُمْ فَاضْرِبُوهُ، وَقَالَ مَرَّةً: ثُمَّ أُشِمُّكُمْ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ مُتَوَشِّحًا وَهُوَ يَنْفَحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رِيحًا أَيْ أَطْيَبَ، وَقَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو، قَالَ: عِنْدِي أَعْطَرُ نِسَاءِ الْعَرَبِ وَأَكْمَلُ الْعَرَبِ، قَالَ عَمْرٌو، فَقَالَ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ رَأْسَكَ، قَالَ: نَعَمْ فَشَمَّهُ، ثُمَّ أَشَمَّ أَصْحَابَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَتَأْذَنُ لِي، قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ، قَالَ: دُونَكُمْ فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا، یہ شخص (اشارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا، خدا کی قسم! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے ایک وسق یا (راوی نے بیان کیا کہ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے۔ کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے پوچھا، گروی میں تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا، اپنی عورتوں کو رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا، یہ تو بڑی بے غیرتی ہو گی۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے «اللأمة» گروی رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت (اتنی رات گئے) کہاں باہر جا رہے ہو؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا (راوی نے) ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر نام بتائے تھے۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لائے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے (سر کے) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔ عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا۔ آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب اس پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔ عمرو نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے؟ اس نے کہا، سونگھ سکتے ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle said, "Who is willing to kill Ka`b bin Al-Ashraf who has hurt Allah and His Apostle?" Thereupon Muhammad bin Maslama got up saying, "O Allah's Apostle! Would you like that I kill him?" The Prophet said, "Yes," Muhammad bin Maslama said, "Then allow me to say a (false) thing (i.e. to deceive Ka`b). "The Prophet said, "You may say it." Then Muhammad bin Maslama went to Ka`b and said, "That man (i.e. Muhammad demands Sadaqa (i.e. Zakat) from us, and he has troubled us, and I have come to borrow something from you." On that, Ka`b said, "By Allah, you will get tired of him!" Muhammad bin Maslama said, "Now as we have followed him, we do not want to leave him unless and until we see how his end is going to be. Now we want you to lend us a camel load or two of food." (Some difference between narrators about a camel load or two.) Ka`b said, "Yes, (I will lend you), but you should mortgage something to me." Muhammad bin Mas-lama and his companion said, "What do you want?" Ka`b replied, "Mortgage your women to me." They said, "How can we mortgage our women to you and you are the most handsome of the 'Arabs?" Ka`b said, "Then mortgage your sons to me." They said, "How can we mortgage our sons to you? Later they would be abused by the people's saying that so-and-so has been mortgaged for a camel load of food. That would cause us great disgrace, but we will mortgage our arms to you." Muhammad bin Maslama and his companion promised Ka`b that Muhammad would return to him. He came to Ka`b at night along with Ka`b's foster brother, Abu Na'ila. Ka`b invited them to come into his fort, and then he went down to them. His wife asked him, "Where are you going at this time?" Ka`b replied, "None but Muhammad bin Maslama and my (foster) brother Abu Na'ila have come." His wife said, "I hear a voice as if dropping blood is from him, Ka`b said. "They are none but my brother Muhammad bin Maslama and my foster brother Abu Naila. A generous man should respond to a call at night even if invited to be killed." Muhammad bin Maslama went with two men. (Some narrators mention the men as 'Abu bin Jabr. Al Harith bin Aus and `Abbad bin Bishr). So Muhammad bin Maslama went in together with two men, and sail to them, "When Ka`b comes, I will touch his hair and smell it, and when you see that I have got hold of his head, strip him. I will let you smell his head." Ka`b bin Al-Ashraf came down to them wrapped in his clothes, and diffusing perfume. Muhammad bin Maslama said. " have never smelt a better scent than this. Ka`b replied. "I have got the best 'Arab women who know how to use the high class of perfume." Muhammad bin Maslama requested Ka`b "Will you allow me to smell your head?" Ka`b said, "Yes." Muhammad smelt it and made his companions smell it as well. Then he requested Ka`b again, "Will you let me (smell your head)?" Ka`b said, "Yes." When Muhammad got a strong hold of him, he said (to his companions), "Get at him!" So they killed him and went to the Prophet and informed him. (Abu Rafi`) was killed after Ka`b bin Al-Ashraf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 369


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3031جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله
   صحيح البخاري3032جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف فقال محمد بن مسلمة أتحب أن أقتله قال نعم قال فأذن لي فأقول قال قد فعلت
   صحيح البخاري2510جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله
   صحيح البخاري4037جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله
   صحيح مسلم4664جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله
   سنن أبي داود2768جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله
   مسندالحميدي1287جابر بن عبد اللهمن لكعب بن الأشرف؟ إنه قد آذى الله ورسوله
   مسندالحميدي1288جابر بن عبد اللهإنما هو أبو نائلة أخي، لو وجدني نائما ما أيقظني، وإن الكريم لو دعي إلى طعنة لأجابها، وسمى الذين أتوه مع محمد بن مسلمة، وعباد بن بشر، وأبي عبس بن جبر، والحارث بن معاذ

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4037 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4037  
حدیث حاشیہ:
کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ ؓ تھے۔
انہوں نے آنحضرت ﷺ سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے۔
پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس۔
ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں۔
آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔
چاندنی رات تھی۔
آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔
کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا۔
اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی۔
قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت ﷺ کو قتل کرا دے۔
فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت ﷺ کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل ؑ، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے۔
اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے اس کو ختم کرنے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری ؓ نے آمادگی کا اظہار کیا۔
کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا۔
مگر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا۔
بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ بن مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ كَانَ شَاعِرًا وَكَانَ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٌ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِصْلَاحَهُمْ وَكَانَ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ يُؤْذُونَ الْمُسْلِمِينَ أَشَدَّ الْأَذَى فَأَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ وَالْمُسْلِمِينَ بِالصَّبْرِ فَلَمَّا أَبَى كَعْبٌ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَاهُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رهطا ليقتلوه وَذكر بن سَعْدٍ أَنَّ قَتْلَهُ كَانَ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنَ السَّنَةِ الثَّالِثَةِ(فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا۔
آنحضرت ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے۔
آنحضرتﷺنے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا۔
یہودی اور مشرکین آنحضرت ﷺ کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے۔
پس اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا۔
جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے۔
ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4037   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4037  
حدیث حاشیہ:

کعب کا باپ اشرف بنونہیان قبیلے سے تھا۔
دورجاہلیت میں اس نے کسی آدمی کو قتل کردیا، پھر وہاں سے بھاگ کر مدینہ طیبہ میں آگیا اور بنو نضیر سے عہدوپیمان کرلیا، پھر اس نے ابوالحقیق کی لڑکی عقیلہ سے شادی کی تو اس سے کعب پیدا ہوا۔
اس کے قتل کرنے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں:
الف۔
غزوہ بدر کے بعد اس نے قریش کو جگ پر ابھارا اورہرقسم کے مال واسباب کے ساتھ تعاون کایقین دلایا بلکہ ساٹھ آدمیوں کا وفد لے کے مکے گیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پرآمادہ کیا۔
اس کے علاوہ یہ شاعر بھی تھا اپنے اشعار میں اسلام اور اہل اسلام کی توہین کرتا اور مسلم خواتین کے متعلق نازیبا اشعار کہتا تھا۔
ب۔
اس نے رسول ا للہ ﷺ کی دعوت کی اور پروگرام اس طرح طے پایا کہ جب آپ مکان میں تشریف فرماہوں تو اچانک آپ پرحملہ کرکے آپ کو شہید کردیا جائے لیکن حضرت جبرئیل ؑ نے آپ کو اس سے مطلع کردیا اور آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر لے آئے تو واپس آکر آپ نے فرمایا:
اب اس کی ایذارسانی انتہا کو پہنچ چکی ہے،اسے قتل کرنا چاہیے۔
چنانچہ اسے کیفر کردارتک پہنچادیا گیا۔
(فتح الباري: 421/7،422)

کعب بن اشرف یہودی کے قتل میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حصہ لیا:
محمد بن مسلمہ، ابوعبس بن جبیر، حارث بن اوس، ابونائلہ اور عباد بن بشر رضوان اللہ عنھم اجمعین۔
خود رسول اللہ ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔
پھر اللہ کا نام لے کر انھیں روانہ کیا اور دعا فرمائی:
اے اللہ!ان کی مدد فرما۔
یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب اسے قتل کرکے واپس آئے تو بقیع کے پاس پہنچ کر انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر اس کا سرآپ کے آگے پھینک دیا۔
آپ نے اس کے قتل ہوجانے پر اللہ کا شکر اداکیا۔
(فتح الباري: 424/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4037   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2768  
´دشمن کے پاس دھوکہ سے پہنچنا اور یہ ظاہر کرنا کہ وہ انہی میں سے ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کہہ سکتے ہو، پھر انہوں نے کعب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2768]
فوائد ومسائل:

کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔
وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔
اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔
اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔
اور عہد شکنی بھی کی۔


دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔
وقتی طور پر جائز ہے۔
اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2768   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1287  
1287- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: کون شخص کعب بن الاشرف سے میری جان چھرائے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا ہے۔‏‏‏‏ تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کریں گے کہ میں اسے قتل کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔‏‏‏‏ انہوں نے عرض کی: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، کعب بن الاشرف کے پاس آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1287]
فائدہ:
اس حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیرت اور جرٱت کا ثبوت ملتا ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی کے بارے میں بُرے الفاظ استعمال کرے تو اس کوقتل کر دینا چاہیے، جیسے کعب بن اشرف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کے گھر جا کر اس کو قتل کر دیا، اس طرح کی غیرت ایمانی کے کئی واقعات کتب سیر میں ملتی ہیں۔ بچوں کو رہن (گروی) رکھنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تکریم دی ہے: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ﴾ (بنی اسرائیل: 70) کوئی اور چیز گروی رکھنا ٹھیک ہے مصلحت کی خاطر امیر کا مسلمانوں کو برا بھلا کہنا درست ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1286   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4664  
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کیا، تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عنایت فرمائیں، آپﷺ نے فرمایا: کہہ سکتے ہو۔ تو وہ کعب کے پاس آئے اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کیں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4664]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
کعب بن اشرف،
قبیلہ طے کی شاخ بنو نبہان سے تعلق رکھتا تھا،
اس لیے عربی النسل تھا،
اس کے باپ اشرف نے کسی کو قتل کر ڈالا،
اس لیے بھاگ کر مدینہ آ گیا اور بنو نضیر سے دوستانہ قائم کر لیا اور ابو الحقیق یہودی کی بیٹی عقیلہ سے شادی کر لی،
جس سے کعب پیدا ہوا،
واقعہ بدر کے بعد اس نے مسلمانوں کی ہجو شروع کر دی اور دشمنان اسلام کی مدح سرائی کرنے لگا،
پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے،
ان کی آتش انتقال تیز کرنے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سرداران قریش کا نوحہ و ماتم کرنے لگا،
جنہیں جنگ بدر میں قتل کرنے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا،
پھر صحابہ کرام کی عورتوں کے بارے میں واہیات شعر کہنے لگا اور اپنی زبان درازی اور بدگوئی کے ذریعہ مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچائی،
ان حالات سے تنگ آ کر آپ نے اس کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کیا۔
(2)
رضیعہ اور ابو نائلہ کے درمیان واو وہم ہے کیونکہ رضیع سے مراد ابو نائلہ ہی ہے۔
ابو نائلہ،
محمد بن مسلمہ اور کعب بن اشرف تینوں رضاعی بھائی تھے،
اس کے باوجود کینہ خصلت اور مسلمانوں کا دشمن محمد بن مسلمہ بیوی اور بیٹا گروی رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے،
اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کس قدر موذی انسان تھا،
جو صرف آپ کا ہی نہیں بلکہ سب مسلمانوں اور دین کا دشمن تھا،
اس لیے ایسے موذی انسان کا قتل کروانا سب کو آرام اور سکون پہنچانا ہے۔
تفصیل کے لیے الرحیق المختوم دیکھئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4664   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2510  
2510. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اسے میں قتل کرں گا، چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہاکہ ہم ایک یا دو وسق غلہ قرض لینا چاہتے ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم اپنی بیویاں میرے پاس گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنی بیویاں تیرے پاس گروی کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے؟ اس نے کہا: اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو۔ انھوں نےکہا: ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایساکرنے سے لو گ انھیں طعنہ دیں گے کہ انھیں ایک یادو وسق اناج کے بدلے گروی رکھا گیاتھا؟ اور یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے البتہ ہم تیرے پا ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے پاس ہتھیار لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2510]
حدیث حاشیہ:
کعب بن اشرف مدینہ کا سرمایہ دار یہودی تھا۔
اسلام آنے سے اس کو اپنے سرمایہ دارانہ وقار کے لیے ایک بڑا دھچکا محسوس ہوا اور یہ شب و روز اسلام کی بیخ کنی کے لیے تدابیر سوچتا رہتا تھا۔
بدر میں جو کافر مارے گئے تھے ان کا نوحہ کرکے کفار مکہ کو نبی کریم ﷺ سے لڑنے کے لیے ابھارتا رہتا اور آپ کی شان میں ہجو اور تنقیص کے اشعار گھڑتا۔
اس ناپاک مشن پر وہ ایک دفعہ جنگ بدر کے بعد مکہ بھی گیا تھا۔
آخر آنحضرت ﷺ نے اس کی ناشائستہ حرکات سے تنگ آکر اس کا مسئلہ مجمع صحابہ میں رکھا جس پر حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔
انہوں نے آپ سے اجازت لی کہ میں اس کے پاس جاکر آپ کے بارے میں جو کچھ مناسب ہوگا، اس کے سامنے کہوں گا۔
اس کی اجازت دیجئے۔
آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی تو حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کعب کے رضائی بھائی ابونائلہ کو ساتھ لے کر رات کو اس کے پاس گئے۔
اس نے قلعہ کے اندر بلالیا اور جب ان کے پاس جانے لگا تو اس کی عورت نے منع کیا، وہ بولا کوئی غیر نہیں ہے۔
محمد بن مسلمہ ہے اور میرا بھائی ابونائلہ محمد بن مسلمہ کے ساتھ ہے اور بھی دو یا تین شخص تھے۔
ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس، عباد بن بشر۔
محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا کہ میں کعب کے بال سونگھنے کے بہانے اس کا سرتھاموں گا۔
تم اس وقت جب دیکھو کہ میں سر کو مضبوط تھامے ہوا ہوں، اس کا سر تلوار سے قلم کردینا۔
پھر محمد بن مسلمہ ؓ جب کعب کے پاس آئے تو، یہی کہا کہ اے کعب! میں نے تمہارے سر جیسی خوشبو تمام عمر میں نہیں سونگھی۔
وہ کہنے لگا کہ میرے پاس ایک عورت ہے جو عرب کی ساری عورتوں سے زیادہ معطر ہے اور خوشبودار رہتی ہے۔
محمد بن مسلمہ ؓ نے اس کا سر سونگھنے کی اجازت مانگی اور کعب کے سر کو مضبوط تھام کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کردیا۔
انہوں نے تلوار سے سر اڑا دیا اور لوٹ کر دربار رسالت میں یہ بشارت پیش کی۔
آپ بہت خوش ہوئے اور ان مجاہدین اسلام کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کی کنیت ابوعبداللہ انصاری ہے اور یہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں۔
کعب بن اشرف کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی گئی ہے کہ اس نے اپنا عہد توڑ دیا تھا۔
اس طور پر وہ ملک کا غدار بن گیا اور بار بار غداری کی حرکات کرتا رہا۔
لہٰذا اس کی آخری سزا یہی تھی جو اسے دی گئی۔
حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب کے ہاں ہتھیار رہن رکھنے کا ذکر فرمایا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2510   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3031  
3031. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کا کام تمام کون کرے گا؟اس نے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ کو پسند ہے کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ راوی کابیان ہے کہ اس کے بعد محمد بن مسلمہ ؓ کعب یہودی کے پاس آئے اور کہنے لگے: اس نبی کریم ﷺ نے تو ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے، ہم سے صدقات مانگتا ہے۔ کعب نے کہا: واللہ!تم اس سے بھی زیادہ تنگ پڑ جاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے کہا کہ اب تو ہم نے اس کی پیروی کرلی ہے، اس لیے اس وقت اس کا ساتھ چھوڑنا مناسب خیال نہیں کرتے جب تک اس کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آجائے۔ الغرض وہ بہت دیر تک اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے حتیٰ کہ موقع پاکر اسے قتل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3031]
حدیث حاشیہ:
کعب بن اشرف یہودی مدینہ میں مسلمانوں کا سخت ترین دشمن تھا جو روزانہ مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازش کرتا رہتا تھا۔
یہاں تک کہ قریش مکہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف ابھارتا اور ہمیشہ مسلمانوں کی گھات میں لگا رہتا لیکن اللہ پاک کو اسلام اور مسلمانوں کی بقا منظور تھی اس لئے بایں صورت اس فسادی کو ختم کرکے اسے جہنم رسید کیا گیا‘ سچ ہے ؎ نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ابو رافع کی طرح یہ مردود بھی مسلمانوں کی دشمنی پر تلا ہوا تھا۔
رسول کریمﷺ کی ہجو کرتا اور شرک کو دین اسلام سے بہتر بتاتا‘ مشرکوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے اکساتا‘ ان کی روپے سے مدد کرتا۔
حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے خاتمہ کے لئے اجازت مانگی کہ میں جو مناسب ہوگا آپ کی نسبت شکایت کے کلمے کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دے دی۔
محمد بن مسلمہؓ کی اس سے یہ غرض تھی کہ کعب کو میرا اعتبار پیدا ہو‘ ورنہ وہ پہلے ہی چونک جاتا اور اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیتا۔
بعضوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے کیونکہ محمد بن مسلمہؓ کا کوئی جھوٹ اس میں مذکور نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مجتہد مطلق حضرت امام بخاریؒ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں صاف یہ مذکور ہے کہ انہوں نے چلتے وقت آنحضرتﷺ سے اجازت لے لی تھی کہ میں آپ کی شکایت کروں گا‘ جو چاہوں وہ کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دی اس میں جھوٹ بولنا بھی آگیا۔
آخر محمد بن مسلمہؓ نے کعب کو باتوں باتوں میں کہا یار تیرے سر سے کیا عمدہ خوشبو آتی ہے۔
وہ مردود کہنے لگا میرے پاس ایک عورت ہے جو سارے عرب میں افضل ہے۔
محمد بن مسلمہؓ نے کہا یار ذرا اپنے بال مجھ کو سونگھنے دو اس نے کہا سونگھو‘ محمد بن مسلمہؓ نے اس بہانے اس کے بال درمیان سر سے پکڑ کر مضبوط تھام لئے اور ساتھیوں کو اشارہ کردیا‘ انہوں نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا سر قلم کردیا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3031   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3032  
3032. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی کون ہمت کرتا ہے؟ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے پوچھا: کیا آپ پسند کرتے ہیں میں اسے قتل کردوں؟ آپ نےفرمایا: ہاں۔ اس نے عرض کیا: آپ مجھ کچھ کہنے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3032]
حدیث حاشیہ:
یہاں چونکہ کعب بن اشرف پر دھوکہ سے اچانک حملہ کرنے کا ذکر ہے جو حضرت محمد مسلمہؓ نے کیا تھا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
مزید تفصیل مذکور ہوچکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3032   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2510  
2510. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اسے میں قتل کرں گا، چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہاکہ ہم ایک یا دو وسق غلہ قرض لینا چاہتے ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم اپنی بیویاں میرے پاس گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنی بیویاں تیرے پاس گروی کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے؟ اس نے کہا: اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو۔ انھوں نےکہا: ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایساکرنے سے لو گ انھیں طعنہ دیں گے کہ انھیں ایک یادو وسق اناج کے بدلے گروی رکھا گیاتھا؟ اور یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے البتہ ہم تیرے پا ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے پاس ہتھیار لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2510]
حدیث حاشیہ:
(1)
کعب بن اشرف ایک یہودی سردار تھا۔
جنگ بدر میں جب قریش کے بڑے بڑے طاغوت مارے گئے تو اس نے اہل مکہ کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔
اپنے اشعار میں مسلمان عورتوں کا مذاق اُڑاتا اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
(2)
شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے زرہ گروی رکھنے کے بعد مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ زرہ ایک دفاعی ہتھیار ہے، جارحانہ نہیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جارحانہ ہتھیار بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔
اس استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ روایت میں ہتھیار گروی رکھنے کی بات بطور چال تھی، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن چال ہونے کے باوجود کعب بن اشرف کو یہ باور کرایا گیا کہ تیرے ساتھ جو معاملہ کر رہے ہیں یہ ہمارے ہاں جائز اور مباح ہے، اس پر معاملہ ہوا۔
امام بخاری ؒ نے اس سے استدلال کر لیا۔
(فتح الباري: 177/5) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے حق میں گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اگرچہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقام پر علامہ عینی ؒ نے بڑی جراءت اور ہمت سے کہا:
میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا مطلق طور پر واجب القتل ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔
(عمدة القاري: 30/5)
علمائے حق کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ حق کی پیروی کرتے ہیں، خواہ وہ حق ان کے اپنے کسی محبوب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کی محبت اور آپ کی اتباع کا یہی تقاضا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2510   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3031  
3031. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کا کام تمام کون کرے گا؟اس نے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ کو پسند ہے کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ راوی کابیان ہے کہ اس کے بعد محمد بن مسلمہ ؓ کعب یہودی کے پاس آئے اور کہنے لگے: اس نبی کریم ﷺ نے تو ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے، ہم سے صدقات مانگتا ہے۔ کعب نے کہا: واللہ!تم اس سے بھی زیادہ تنگ پڑ جاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے کہا کہ اب تو ہم نے اس کی پیروی کرلی ہے، اس لیے اس وقت اس کا ساتھ چھوڑنا مناسب خیال نہیں کرتے جب تک اس کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آجائے۔ الغرض وہ بہت دیر تک اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے حتیٰ کہ موقع پاکر اسے قتل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3031]
حدیث حاشیہ:

کعب بن اشرف مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا جو روازنہ مسلمانوں کے خلاف ایک نئی سازش تیار کرتا۔
رسول اللہ ﷺ کی ہجوکرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
مشرکین مکہ کو مسلمانوں پرحملہ کرنے کے لیے اکساتا اور ان کی مالی مدد بھی کرتاتھا۔
آخر محمد بن مسلمہ ؓنے اس کاخاتمہ کرکے اسے جہنم رسید کیا۔

اگرچہ اس روایت میں جھوٹ بولنے کا ذکر نہیں ہے،تاہم امام بخاری ؒنے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محمد بن مسلمہ ؓنے روانہ ہوتے وقت رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کی تھی کہ آپ کی شکایت کرتے ہوئےے جو چاہوں کہوں گا تو آپ نے اسے اجازت دی۔
اس میں جھوٹ بولنا بھی آجاتا ہے۔
بہرحال دوران جنگ میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے جیسا کہ ترمذی کی روایت میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3031   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3032  
3032. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی کون ہمت کرتا ہے؟ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے پوچھا: کیا آپ پسند کرتے ہیں میں اسے قتل کردوں؟ آپ نےفرمایا: ہاں۔ اس نے عرض کیا: آپ مجھ کچھ کہنے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3032]
حدیث حاشیہ:

کعب بن اشرف یہودیوں کا طاغوت تھا۔
اشعار میں رسول اللہ ﷺ کی ہجوکرتا اور آپ کے لیے اذیت کا باعث تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کردینے کی خواہش کا اظہار کیا توحضرت محمد بن مسلمہ ؓنے اس کارخیر کی ذمہ داری قبول کی اور اسے قتل کردیا۔
یہ کہنادرست نہیں کہ محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب بن اشرف کو امن دے کر قتل کیا تھا بلکہ انھوں نے خرید و فروخت کی بات کی اور ا س سے انس پیداکیا،پھر موقع پاکراسے قتل کردیا۔

اسی چالاکی ہوشیاری کانام جنگ ہے جس کے بغیر چارہ نہیں۔
آج کے مشینی دور میں بھی دشمن کی گھات میں بیٹھنا اقوام کا معمول ہے۔
اسلام میں یہ اجازت صرف حربی کافروں کے مقابلے کے لیے ہے،بصورت دیگر کسی کو دھوکے میں رکھ کر کوئی اقدام کرنا شرعاً جائز نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3032   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.