(موقوف) حدثنا احمد بن محمد، حدثنا عبد الله، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، ان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا للزبير يوم اليرموك: الا تشد فنشد معك؟ فقال: إني إن شددت كذبتم، فقالوا: لا نفعل , فحمل عليهم حتى شق صفوفهم فجاوزهم وما معه احد , ثم رجع مقبلا فاخذوا بلجامه , فضربوه ضربتين على عاتقه بينهما ضربة ضربها يوم بدر، قال عروة: كنت ادخل اصابعي في تلك الضربات العب وانا صغير، قال عروة: وكان معه عبد الله بن الزبير يومئذ وهو ابن عشر سنين , فحمله على فرس ووكل به رجلا.(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَصْحَاب رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِلزُّبَيْرِ يَوْمَ الْيَرْمُوكِ: أَلَا تَشُدُّ فَنَشُدَّ مَعَكَ؟ فَقَالَ: إِنِّي إِنْ شَدَدْتُ كَذَبْتُمْ، فَقَالُوا: لَا نَفْعَلُ , فَحَمَلَ عَلَيْهِمْ حَتَّى شَقَّ صُفُوفَهُمْ فَجَاوَزَهُمْ وَمَا مَعَهُ أَحَدٌ , ثُمَّ رَجَعَ مُقْبِلًا فَأَخَذُوا بِلِجَامِهِ , فَضَرَبُوهُ ضَرْبَتَيْنِ عَلَى عَاتِقِهِ بَيْنَهُمَا ضَرْبَةٌ ضُرِبَهَا يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ عُرْوَةُ: كُنْتُ أُدْخِلُ أَصَابِعِي فِي تِلْكَ الضَّرَبَاتِ أَلْعَبُ وَأَنَا صَغِيرٌ، قَالَ عُرْوَةُ: وَكَانَ مَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يَوْمَئِذٍ وَهُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِينَ , فَحَمَلَهُ عَلَى فَرَسٍ وَوَكَّلَ بِهِ رَجُلًا.
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ انہیں ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے یرموک کی جنگ میں کہا آپ حملہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کرتے انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ان پر زور کا حملہ کر دیا تو پھر تم لوگ پیچھے رہ جاؤ گے سب بولے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے دشمن (رومی فوج) پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس وقت ان کے ساتھ کوئی ایک بھی (مسلمان) نہیں رہا پھر (مسلمان فوج کی طرف) آنے لگے تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور مونڈھے پر دو کاری زخم لگائے، جو زخم بدر کی لڑائی کے موقع پر ان کو لگا تھا وہ ان دونوں زخموں کے درمیان میں پڑ گیا تھا۔ عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ جب میں چھوٹا تھا تو ان زخموں میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ یرموک کی لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ گئے تھے، اس وقت ان کی عمر کل دس سال کی تھی اس لیے ان کو ایک گھوڑے پر سوار کر کے ایک صاحب کی حفاظت میں دے دیا تھا۔
Narrated `Urwa: On the day of (the battle) of Al-Yarmuk, the companions of Allah's Apostle said to Az-Zubair, "Will you attack the enemy so that we shall attack them with you?" Az-Zubair replied, "If I attack them, you people would not support me." They said, "No, we will support you." So Az-Zubair attacked them (i.e. Byzantine) and pierced through their lines, and went beyond them and none of his companions was with him. Then he returned and the enemy got hold of the bridle of his (horse) and struck him two blows (with the sword) on his shoulder. Between these two wounds there was a scar caused by a blow, he had received on the day of Badr (battle). When I was a child I used to play with those scars by putting my fingers in them. On that day (my brother) "Abdullah bin Az-Zubair was also with him and he was ten years old. Az-Zubair had carried him on a horse and let him to the care of some men.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 313
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3975
حدیث حاشیہ: 1۔ ان روایات میں جب راوی حضرت زبیر ؓ کے غزوہ بدر سے متعلق کار نامے بیان کرتا ہے تو زخم کے دو نشانات میدان بدر میں اور ایک نشان یرموک کا ذکر کرتا ہے اور اگر یرموک کی جنگ سے متعلق بہادری کے جوہر بیان کرتا ہے تو دو زخم یرموک کے اور ایک زخم غزوہ بدر کا بیان کرتا ہے دراصل کل زخم چار تھے دو غزوہ بدر میں اور دو ہی یرموک میں آئے تھے۔ لیکن جوزخم یرموک کی لڑائی میں لگے ان میں سے ایک بدر کی لڑائی کے دو زخموں کے درمیان تھا اور دوسرا زخم یوم بدر کے زخموں سے ایک جانب الگ تھا اس لیے ان روایات میں کوئی تضاد نہیں۔ جو راوی یرموک کا ایک زخم بیان کرتا ہے اس کی مراد یوم بدر کے زخموں کے درمیان والا زخم ہے۔ اس کی صورت مندرجہ ذیل ہے بدر، یرموک بدر، یرموک۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت زبیر ؓ کے بدر کے موقع پر کارناموں کا ذکر ہے کہ دشمنوں کو مارتے مارتے ان کی تلوارمیں دندانے پڑچکے تھے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ 3۔ یرموک شام کے علاقے میں ایک مقام کا نام ہے جو دمشق کے قریب ہے۔ اس مقام پر رومیوں نے چاروں طرف سے اپنی قوت جمع کر کے مقابلہ کیا تھا۔ اس میں ستر ہزار رومیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا تاکہ ان میں سے کوئی بھاگ نہ سکے ان کی فوج بیس لاکھ کے قریب تھی۔ ان میں سے ایک لاکھ پانچ ہزار رومی قتل ہوئے۔ چالیس ہزار قیدی بنائے گئے اور باقی بھاگ گئے جبکہ مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ تھی۔ اس لڑائی میں اہل بدر میں سے ایک سو صحابہ کرام ؓ نے شرکت کی، معرکہ یرموک 13 ہجری میں حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیش آیا۔ مسلمانوں کی فوت کے کمانڈر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ تھے اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح دی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3975