(موقوف) حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: اخبرني عمرو، ان عبد الرحمن بن القاسم حدثه، ان القاسم كان يمشي بين يدي الجنازة ولا يقوم لها ويخبر، عن عائشة , قالت:" كان اهل الجاهلية يقومون لها، يقولون: إذا راوها كنت في اهلك ما انت مرتين".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ كَانَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيِ الْجَنَازَةِ وَلَا يَقُومُ لَهَا وَيُخْبِرُ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُومُونَ لَهَا، يَقُولُونَ: إِذَا رَأَوْهَا كُنْتِ فِي أَهْلِكِ مَا أَنْتِ مَرَّتَيْنِ".
مجھ سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا کہ ان کے والد قاسم بن محمد جنازہ کے آگے آگے چلا کرتے تھے اور جنازہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے وہ بیان کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ جنازہ کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور اسے دیکھ کر دو بار کہتے تھے کہ اے مرنے والے جس طرح اپنی زندگی میں تو اپنے گھر والوں کے ساتھ تھا اب ویسا ہی کسی پرندے کے بھیس میں ہے۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Al-Qasim: Al-Qasim used to walk in front of the funeral procession. He used not to get up for the funeral procession (in case it passed by him). And he narrated from `Aisha that she said, "The people of the pre-lslamic period of ignorance used to stand up for the funeral procession. When they saw it they used to say twice: 'You were noble in your family. What are you now?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 178
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3837
حدیث حاشیہ: جاہلیت والے اگلے جنم کے قائل تھے وہ کہتے تھے آدمی کی روح مرتے ہی کسی پرند ے کے بھیس میں چلی جاتی ہے اگر اچھا آدمی تھا تو اچھے پرندے کی شکل لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور اگر آدمی برا تھا تو برے کی مثلا الو، کوا وغیر ہ۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے تو اپنے گھر والوں میں تو اچھا شریف آدمی تھا اب بتلا کس جنم میں ہے۔ بعض نے ترجمہ یوں کیا ہے تو اپنے گھر والوں میں تھا لیکن دوبار تو ان میں نہیں رہ سکتا یعنی حشر ہونے والانہیں۔ جیسے مشرکوں کا اعتقاد تھاکہ ایک ہی زندگی ہے دنیا کی زندگی اوروہ آخرت کے قائل نہ تھے۔ قوله کنت في أھلك ما أنت مرتین أي یقولون ذلك مرتین وما موصلة وبعض الصلة محذوف والتقدیر أنت في أھلك الذي کنت فیه أي الذي أنت فیه إلاٰن کنت في الحیاة مثله لأنهم کانوا لایؤمنون بالبعث ولکن کا نوا یعتقدون الروح إذاخرجت تطیر طیرا فإن کان من أھل الخیر کان روحه من صالح الطیر وإلا بالعکس، خلاصہ مضمون وہی ہے جو اوپر گذر چکا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3837
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3837
حدیث حاشیہ: زمانہ جاہلیت میں لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے قائل نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد جب روح نکلتی ہے تو نیک آدمی کی روح کسی اچھے پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور برے آدمی کی روح کسی گندے اور برے پرندے کا بھیس بدل لیتی ہے مثلاً: الواورکوا وغیرہ اسے وہ صدی یا ہام سے تعبیر کرتے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں یعنی تیرا وہی حال ہے جو زندگی میں تھا اگر اس وقت اچھا تھا تو اب بھی اچھا ہوگا اگر اس وقت برا تھا تواب بھی برا ہو گا۔ بہر حال اس حدیث میں دور جاہلیت کا ایک طریقہ بیان ہوا ہے جو مُردوں سے متعلق تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3837