والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجة مما اوتوا سورة الحشر آية 9وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا سورة الحشر آية 9
اللہ نے فرمایا ”جو لوگ پہلے ہی ایک گھر میں (یعنی مدینہ میں) جم گئے ایمان کو بھی جما دیا جو مسلمان ان کے پاس ہجرت کر کے جاتے ہیں اس سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو (مال غنیمت میں سے) جو ہاتھ آئے اس سے ان کا دل نہیں کڑھتا بلکہ اور خوش ہوتے ہیں۔“
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q3776
قوله: (بسم الله الرحمن الرحيم باب المناقب) كذا في الأصول التي وقفت عليها من كتاب البخاري، وذكر صاحب الأطراف وكذا في بعض الشروح أنه قال " كتاب المناقب " فعلى الأول هو من جملة كتاب أحاديث الأنبياء، وعلى الثاني هو كتاب مستقل، والأول أولى فإنه يظهر من تصرفه أنه قصد به سياق الترجمة النبوية بأن يجمع فيه أمور النبي صلى الله عليه وسلم من المبدأ إلى المنتهى، فبدأ بمقدماتها من ذكر ما يتعلق بالنسب الشريف فذكر أشياء تتعلق بالأنساب ومن ثم ذكر أمورا تتعلق بالقبائل، ثم النهي عن دعوى الجاهلية لأن معظم فخرهم كان بالأنساب ثم ذكر صفة النبي صلى الله عليه وسلم وشمائله ومعجزاته، واستطرد منها لفائل أصحابه؛ ثم أتبعها بأحواله قبل الهجرة وما جرى له بمكة فذكر المبعث
(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا غيلان بن جرير، قال: قلت لانس: ارايت اسم الانصار كنتم تسمون به ام سماكم الله، قال:" بل سمانا الله عز وجل" , كنا ندخل على انس فيحدثنا بمناقب الانصار ومشاهدهم ويقبل علي او على رجل من الازد، فيقول: فعل قومك يوم كذا وكذا , كذا وكذا.(موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: أَرَأَيْتَ اسْمَ الْأَنْصَارِ كُنْتُمْ تُسَمَّوْنَ بِهِ أَمْ سَمَّاكُمُ اللَّهُ، قَالَ:" بَلْ سَمَّانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" , كُنَّا نَدْخُلُ عَلَى أَنَسٍ فَيُحَدِّثُنَا بِمَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ وَمَشَاهِدِهِمْ وَيُقْبِلُ عَلَيَّ أَوْ عَلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَزْدِ، فَيَقُولُ: فَعَلَ قَوْمُكَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا , كَذَا وَكَذَا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا ہم سے غیلان بن جریر نے بیان کیا میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا بتلائیے (انصار) اپنا نام آپ لوگوں نے خود رکھ لیا تھا یا آپ لوگوں کا یہ نام اللہ تعالیٰ نے رکھا؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہمارا یہ نام اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ غیلان کی روایت ہے کہ ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ہم سے انصار کی فضیلتیں اور غزوات میں ان کے مجاہدانہ واقعات بیان کیا کرتے پھر میری طرف یا قبیلہ ازد کے ایک شخص کی طرف متوجہ ہو کر کہتے: تمہاری قوم (انصار) نے فلاں دن فلاں دن فلاں فلاں کام انجام دیے۔
Narrated Ghailan bin Jarir: I asked Anas, "Tell me about the name 'Al-Ansar.; Did you call yourselves by it or did Allah call you by it?" He said, "Allah called us by it." We used to visit Anas (at Basra) and he used to narrate to us the virtues and deeds of the Ansar, and he used to address me or a person from the tribe of Al-Azd and say, "Your tribe did so-and-so on such-and-such a day."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 120
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3776
حدیث حاشیہ: تفصیل میں شک راوی کی طرف سے ہے۔ ان دو جملوں میں سے غیلان نے کون سا جملہ کہا تھا خود اپنا نام لیا تھا یا بطور کنایہ، قبیلہ ازد کے ایک شخص کا جملہ استعمال کیا تھا اور درحقیقت دونوں سے مراد خود ان کی اپنی ذات ہے وہی قبیلہ ازد کے ایک فرد تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3776
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3776
حدیث حاشیہ: تفصیل میں شک راوی کی طرف سے ہے کہ ان دونوں جملوں میں سے کون سا جملہ استعمال کیا خود اپنا نام لیا یا بطور کنایہ قبیلہ ازد کے کسی شخص کا ذکر کیا۔ درحقیقت دونوں سے مراد خود ان کی اپنی ذات ہے۔ وہی قبیلہ ازد کے فرد تھے اور قبیلہ ازد سب کو شامل ہے چنانچہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ حضرت انسؓ حضرت غیلان کو مخاطب کر کے انصار کے واقعات بیان کرتے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3844)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3776