ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔
Narrated Ibn Abi Mulaika: Somebody said to Ibn `Abbas, "Can you speak to the chief of the believers Muwaiya, as he does not pray except one rak`a as witr?" Ibn `Abbas replied, "He is a Faqih (i.e. a learned man who can give religious verdicts) ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 109
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3765
حدیث حاشیہ: ایک رکعت خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، غالبا اسی حدیث پر حضرت امیر معاویہ ؓ کا عمل تھا، جماعت اہل حدیث کا آج بھی اکثر اسی حدیث پر عمل ہے، یوں تو7-5-3 رکعات وتر بھی جائز ہیں مگر وتر آخری ایک رکعت ہی کانام ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ ؓ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کو حجت گردانتے تھے، اس سے بھی حضرت معاویہ ؓ کی منقبت ثابت ہوتی ہے اور یہی ترجمہ باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3765
تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «أن معاوية أوتر بركعة، فأنكر ذلك عليه، فسئل ابن عباس، فقال: أصاب السنّة .» ”سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا، ان پر اس چیز کا اعتراض کیا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔“[مصنف ابن ابي شيبة: 291/2، وسنده صحيحٌ] ایک رکعت وتر سنت ہے، فقیہ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کا قائل و فاعل ہوتا ہے۔ سیدنا معاویہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دو جلیل القدر صحابی ایک رکعت وتر کے قائل و فاعل ہیں۔
------------------ دیگر صحابہ کرا م کا عمل ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے وتر کے بارے میں پوچھا: اور کہا کہ اگر میں سفر میں ہوں تو کیا کروں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «ركعة من آخر الليل .» ”رات كے آخری حصے میں ایک رکعت پڑھ لو۔“[مصنف ابن ابي شيبة: 301/2، وسنده صحيحٌ] عبدالرحمٰن تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات قیام اللیل پر مجھ سے کوئی سبقت نہ لے جائے گا۔ میں اٹھا تو اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ پائی۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں ایک طرف ہٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، قرآن کریم شروع کیا اور ختم کر دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ میں نے سوچا: شیخ بھول گئے ہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ نے ایک ہی رکعت وتر اداکی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ یہ میرا وتر ہے۔“[شرح معاني الآثار للطحاوي: 294/1، سنن الدارقطني: 34/2، ح، 1656-1658، و سنده حسنٌ] عبداللہ بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی، پھر مسجد کے ایک کونے میں ایک رکعت اداکی۔ میں آپ کے پیچھے گیا اور عرض کیا: اے ابواسحاق! یہ کیسی رکعت ہے؟ فرمایا: وتر، أنام عليه۔ ”يه وتر هے، جو پڑھ کر میں سو رہا ہوں۔“ عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مصعب بن سعد کو بتائی تو انہوں نے کہا: سیدناسعد رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ [شرح معاني الآثار للطحاوي: 295/1، و سنده حسنٌ]
ایک تین، پانچ اور سات وتر احناف کی نظر میں ایک، تین، پانچ اور سات رکعات وتر پڑھناجائز ہیں۔ ➌ جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں: «نعم، ثابت عن بعض الصحابة بلا ريب .» ”ہاں، بعض صحابہ کرام سے بلاشک و شبہ ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔“[العرف الشذي للكشميري: 12/2]
۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 22
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3765
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث سے حضرت معاویہ ؓ کی فضیلت بیان ہوتی ہے کہ آپ شرف صحابیت سے متصف ہونے کے ساتھ فقیہ بھی ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ حضرات امیر معاویہ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کوحجت گرادنتے تھے۔ ایک رکعت وتر پڑھنا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ حضرت معاویہ کا اس پر عمل تھا۔ علامہ ابن تین کا یہ دعویٰ کہ وتر ایک رکعت کے متعلق فقہاء میں سے کوئی قائل نہیں،یہ دعویٰ بلادلیل ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کانوٹس لیا ہے۔ (فتح الباري: 132/7) 2۔ حضرت معاویہ ؓ کے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں جو ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں،اس لیے ان کاذکر نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے حضرت معاویہ ؓ کو بلوایا،معلوم ہوا کہ آپ کھاناکھارہے ہیں دوتین دفعہ ایسا ہوا توآپ نے فرمایا: ”اللہ کرے اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ “(صحیح مسلم، البر و الصلة والأدب، حدیث: 6628(2604) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ کوئی ایسا کام تھا جسے صرف حضرت معاویہ ؓ ہی کرسکتے تھے بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ کسی دوسرے کو وہ کام کہہ دیتے۔ رہے حدیث کے آخر میں کلمات تو وہ بددعا طور پر نہ تھے بلکہ محض پیار کی بات تھی۔ اس حدیث پرصحیح مسلم میں ان الفاظ میں عنوان قائم کیا گیا ہے۔ (باب من لعنه النبي صلى الله عليه وسلم، أو سبه، أو دعا عليه، وليس هو أهلا لذلك، كان له زكاة وأجرا ورحمة) ”رسول اللہ ﷺ جس انسان پر لعنت کریں یا بُرا بھلاکہیں یا بدعا کریں،حالانکہ وہ اس لائق نہ ہو تو وہ کلمات نبویہ اس شخص کے لیے پاکیزگی کاذریعہ اورباعث اجر ورحمت ہوں گے۔ “ بہرحال امام بخاری ؒ کے عنوان میں تبدیلی کسی وجہ سے نہیں جیسا کہ شارحین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3765