(مرفوع) حدثني محمد بن يزيد الكوفي، حدثنا الوليد، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن محمد بن إبراهيم، عن عروة بن الزبير، قال: سالت عبد الله بن عمرو، عن اشد ما صنع المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" رايت عقبة بن ابي معيط جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي , فوضع رداءه في عنقه فخنقه به خنقا شديدا , فجاء ابو بكر حتى دفعه عنه، فقال: اتقتلون رجلا ان يقول: ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي , فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا , فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ: رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ".
مجھ سے محمد بن یزید کوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے، ان سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچی جس سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ پھنس گیا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس بدبخت کو دفع کیا اور کہا کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔
Narrated `Urwa bin Az-Zubair: I asked `Abdullah bin `Amr, "What was the worst thing the pagans did to Allah's Apostle?" He said, "I saw `Uqba bin Abi Mu'ait coming to the Prophet while he was praying.' `Uqba put his sheet round the Prophet's neck and squeezed it very severely. Abu Bakr came and pulled `Uqba away from the Prophet and said, "Do you intend to kill a man just because he says: 'My Lord is Allah, and he has brought forth to you the Evident Signs from your Lord?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 27
أقبل عقبة بن أبي معيط فأخذ بمنكب رسول الله ولوى ثوبه في عنقه فخنقه به خنقا شديدا فأقبل أبو بكر فأخذ بمنكبه ودفع عن رسول الله وقال أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم
رأيت عقبة بن أبي معيط جاء إلى النبي وهو يصلي فوضع رداءه في عنقه فخنقه به خنقا شديدا فجاء أبو بكر حتى دفعه عنه فقال أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3678
حدیث حاشیہ: ان جملہ احادیث کے نقل کرنے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرنا مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3678
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3678
حدیث حاشیہ: 1۔ عقبہ بن ابی معیط جنگ بدر میں قتل ہوا۔ 2۔ اس حدیث سے بھی حضرت ابوبکر ؓ کی عظیم منقبت ثابت ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے انتہائی مشکل وقت میں رسول اللہ ﷺ کی مدد زبان اور ہاتھ دونوں سے کی جبکہ کفار کا بہت غلبہ تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ مدت خلافت دوسال تین ماہ اور چند دن تھی۔ انھوں نے سردی کے دنوں میں غسل کیا تو بیمار ہوگئے۔ پندرہ دن تک بخار رہا اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انھوں نے 22 جمادی الاخری 1 ہجری بمطابق 23اگست 634ء کو وفات پائی۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3678
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4815
4815. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ حضرت عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس دوران میں عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا۔ پھر اس کپڑے سے بڑی سختی کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ بھی آ گئے۔ انہوں نے عقبہ کا کندھا پکڑ کر رسول اللہ ﷺ سے ہٹایا اور کہا: ”کیا تم ایسے آدمی کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے جبکہ وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی لے کر آیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4815]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں کیا، صرف چند مشکل الفاظ کی لغوی تشریح کے بعد یہ حدیث بیان کر دی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سوہ مبارکہ میں ایک مرد مومن کا ذکر ہے، اس مرد مومن کے نام سے یہ سورت موسوم ہے۔ اس نے فرعون کے دربار میں اپنا ایمان ظاہر نہیں کیا تھا اور وہ خود اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم مجھے اجازت دو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کردوں، تو اس مرد مومن نے کہا: کیا تم اسے صرف اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیلیں لے کر آیا ہے۔ 2۔ قرآن کریم کے اس واقعے پر غور کرنے سے حدیث کی مناسبت کا بھی پتا چل گیا کہ اس واقعے کی سورہ مومن کے واقعے سے پوری پوری مماثلت ہے۔ واللہ اعلم۔ 3۔ واضح رہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آل فرعون کے مرد مومن سے افضل ہیں کیونکہ وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھلم کھلا اپنے ایمان کا اظہار کرتے تھے، پھرآل عمران کے مرد مومن نے صرف زبانی بات پر اکتفا کیا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاتھ کو زبان کے تابع کیا اور قول و فعل دونوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4815