(مرفوع) حدثني إسحاق، حدثنا النضر، اخبرنا شعبة، عن ابي جمرة، سمعت زهدم بن مضرب، سمعت عمران بن حصين رضي الله عنهما، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير امتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم"، قال عمران: فلا ادري اذكر بعد قرنه قرنين او ثلاثا، ثم إن بعدكم قوما يشهدون ولا يستشهدون، ويخونون ولا يؤتمنون، وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"، قَالَ عِمْرَانُ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذُرُونَ وَلَا يَفُونَ وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ".
مجھ سے اسحٰق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ابوجمرہ نے، کہا میں نے زہدم بن مضرب سے سنا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہو گی جو بغیر کہے گواہی دینے کے لیے تیار ہو جایا کرے گی اور ان میں خیانت اور چوری اتنی عام ہو جائے گی کہ ان پر کسی قسم کا بھروسہ باقی نہیں رہے گا۔ اور نذریں مانیں گے لیکن انہیں پورا نہیں کریں گے (حرام مال کھا کھا کر) ان پر مٹاپا عام ہو جائے گا۔
Narrated `Imran bin Husain: "Allah's Apostle said, 'The best of my followers are those living in my generation (i.e. my contemporaries). and then those who will follow the latter" `Imran added, "I do not remember whether he mentioned two or three generations after his generation, then the Prophet added, 'There will come after you, people who will bear witness without being asked to do so, and will be treacherous and untrustworthy, and they will vow and never fulfill their vows, and fatness will appear among them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 2
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3650
حدیث حاشیہ: خیر القرون کے بعد پیدا ہونے والے دنیا دار نام نہاد مسلمانوں کے متعلق یہ پیش گوئی ہے جو اخلاق اوراعمال کے اعتبار سے بدترین قسم کے لوگ ہوں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ جھوٹ اور بددیانتی اور دنیا سازی ان کا رات دن کا مشغلہ ہوگا، اللھم لاتجعلنا منھم۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3650
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3650
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی اس حدیث میں شک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دوزمانوں کا ذکر کیا ہے یا تین کا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ،حضرت ابوہریرہ ؓ،اورحضرت بریرہ ؓ کی مرویات میں بھی شک ہے،البتہ اس حدیث کے اکثر طرق شک کے بغیر ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ا پنے سمت تین زمانوں کو خیرالقرون قراردیا ہے۔ ایک روایت میں چوتھے زمانے کا بھی ذکر ہے لیکن محدثین نے اسے صحیح قرارنہیں دیا۔ 2۔ خیر القرون کےبعد جھوٹ اور خیانت عام ہوجائے گی اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کےبعد اس کا آغاز ہوچکا تھا لیکن وہ کسی شمار میں نہ تھا لیکن خیرالقرون کے بعد تو کھلے بندوں اس کا ارتکاب ہونے لگا۔ 3۔ پھر اس حدیث میں ان نام نہاد مسلمانوں کے متعلق یہ پیش گوئی ہے جواخلاق وکردار کے اعتبار سے بدترین قسم کے لوگ ہوں گے۔ جھوٹ،بددیانتی اور دنیا سازی رات دن ان کا مشغلہ ہوگا۔ خیانت ایسی ظاہر ہوگی کسی کو دوسرے پر اعتماد نہیں ہوگا۔ بے فکری اور حرام خوری کی وجہ سے ان کے جسم موٹے ہوجائیں گے۔ موٹا آدمی ریاضت نہیں کرسکتا۔ یہ یاد رہے کہ وہ موٹا پامذموم ہے جو”اپنی محنت اور کسب“سے حاصل ہو۔ اگر کوئی طبعاً موٹا ہوجائے تو وہ اس حدیث کا مصداق نہیں بشرط یہ کہ وہ اچھی صفات کا حامل ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3650
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1202
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان` سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میرا زمانہ تمہارے تمام زمانوں سے بہتر ہے۔ پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے اور ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خائن ہوں گے، امین نہیں ہوں گے۔ نذر مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر و نمایاں ہو گا۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1202»
تخریج: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب لايشهد علي شهادة جور إذا أشهد، حديث:2651، ومسلم، فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة....، حديث:2535.»
تشریح: 1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔ تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔ حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔ 2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔ 3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ 4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔ لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1202
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3840
´نذر پوری کرنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے زیادہ اچھے اور بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں“، مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «ثم الذين يلونهم» کا ذکر دو بار کیا یا تین بار، پھر آپ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو خیانت کریں گے اور انہیں امین (امانت دار) نہیں سمجھا جائے گا، گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی نہیں مانگی ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3840]
اردو حاشہ: (1)”میرے دور کے“ یعنی صحابئہ کرامؓ امت میں سب سے افضل ہیں اور یہ بات متفق علیہ ہے کیونکہ انہیں براہ راست نبوی فیضان حاصل ہوا ہے ”ان کے بعد“ سے مراد تابعین اور ”ان کے بعد“ سے مراد تبع تابعین ہیں۔ یہ دولفظ ہی صحیح ہیں۔ کیونکہ یہ تن دور ہی مشہور بالخیر ہیں۔ ویسے بھی راوی کو تیسری دفعہ کے بارے میں شک ہے۔ اس لحاظ سے بھی وہ صحیح نہیں۔ اگر بالفرض تین دفعہ یہ لفظ ہوں تو آپ کے دور سے مراد صرف آپ کی حیات طیبہ تک کا دور ہوگا اور ”ان کے بعد“ سے مراد صحابہ ہوں گے جو آپ کے بعد زندہ رہے۔ صحابہؓ کا دور 110ھ تک رہا ہے۔ دوسرے سے مراد تابعین اور تیسرے سے مراد تبع تابعین ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ (2)”گواہیاں دیں گے“ یعنی جھوٹی‘ تبھی تو ان سے گواہی نہیں لی جائے گی اور اگر زبردستی دیں گے تو مانی نہیں جائے گی۔ (3)”موٹاپا عام ہوجائے گا“ یعنی اکثر لوگ موٹے ہوں گے اور موٹا ہونے کو پسند کریں گے بلکہ موٹا ہونے کی کوشش کریں گے‘ یعنی عیش پرست ہوں گے۔ سہل پسند ہوں گے۔ کھانے پینے اور سونے پر خوب زور دیں گے۔ پست ہمت ہوں گے۔ غرض ناکارہ بن جائیں گے کیونکہ موٹاپے کو یہ سب چیزیں لازم ہیں۔ آپ کا مقصود بھی یہی چیز بتانا ہے کہ نہ صرف موٹاپا۔ واللہ أعلم۔ (4)”ابوحمزہ ہے“ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت اس لیے پیش کی تاکہ التباس کا خطرہ دور ہوجائے کیونکہ امام شعبہ رحمہ اللہ سات ایسے آدمیوں سے روایت کرتے ہیں جن کی کنیت ابوحمزہ ہے اور ایک ایسے آدمی بھی روایت کرتے ہیں جن کی کنیت ابوحمزہ ہے‘ اس سند میں یہی آدمی ہے‘ اس لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ یہ ان آدمیوں سے الگ شخص ہے جن کی کنیت ابوحمزہ ہے۔ اس کی کنیت ابوحمزہ ہے اور ناصر نصر بن عمران ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3840
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4657
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں“ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، ”پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4657]
فوائد ومسائل: 1۔ اس صحیح حدیث میں صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کے ادوار کے متعلق اجمالی اور مجموعی طور پر بھلائی کی خبر دی گئی ہے۔
2۔ ان کے بعد وقار میں کمی ہوگی۔ دینداری میں ضعف آجائے گا اور آخرت کی فکر کم ہوجائے گی۔
3۔ اطباء کے قول کے مطابق آدمی کے جسم میں موٹاپا عام طور پر خوش خوراکی کے علاوہ بے فکری اور بے خوفی کی بناء پر آتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4657
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2221
´خیر کے تین عہد اور زمانے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2221]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: چونکہ یہ لوگ دین وایمان کی فکر سے خالی ہوں گے، کس کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا، اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے، اس لیے موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2221
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2302
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین)۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات/حدیث: 2302]
اردو حاشہ: 1
1؎: اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔
2؎: ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا، پھر اتباع تابعین کا، اور اگر آپ نے صرف دو بار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔
3؎: اس حدیث سے از خود شہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جب کہ حدیث نمبر2195سے اس کی مدح وتعریف ثابت ہے، تعارض اس طرح دفع ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقا اور ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کر سکیں اور باطل طریقہ سے کھا پی سکیں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ہضم کر سکیں، معلوم ہوا کہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اور بہتر وعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اور بری ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2302
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6475
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سب سے اچھے میرے دور کے لوگ ہیں،پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں۔پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں،پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں،"حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:مجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے بعد دوبار فرمایا یا تین بار؟(پھر آپ نے فرمایا:)"پھر ان کے بعد وہ لوگ ہوں گے کہ وہ گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی مطلوب نہیں ہوگی اورخیانت کریں جبکہ ان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6475]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آپ نے اپنی جماعت صحابہ کرام کے بعد دو جماعتوں یعنی تابعین اور تبع تابعین کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد کے لوگوں کے بارے میں، ناخلف یا ناہنجار ہونے کا تذکرہ فرمایا، چونکہ یہ لوگ مفاد پرست اور خائن ہوں گے، اس لیے لوگ ان پر اعتماد نہیں کریں گے، اس لیے ان کو شاہد نہیں بنائیں گے اور نہ ان کی شہادت پر مطمئن ہوں گے، اس لیے ان سے جانتے بوجھتے شہادت طلب نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی قابل اعتماد اور دیانت دار آدمی ہو جس پر لوگوں کو اعتماد ہو اور وہ کسی کے حق میں گواہی دے سکتا ہو، جبکہ جس کا حق ہے، اس کو اس کے گواہ ہونے کا علم نہیں ہے، "ایسی صورت میں اگر وہ خود گواہی کی پیش کش کرتا ہے تو یہ قابل تعریف کام ہے اور یہ پسندیدہ آدمی ہے۔ "
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6475
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2651
2651. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دورمیں ہیں، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے۔“ حضرت عمران کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد کے دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور ان پر اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ وہ از خود گواہی دینے کی پیشکش کریں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ نذریں مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2651]
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ نہ گواہی میں ان کو باک ہوگا نہ قسم کھانے میں، جلدی کے مارے کبھی گواہی پہلے ادا کریں گے پھر قسم کھائیں گے۔ کبھی قسم پہلے کھالیں گے پھر گواہی دیں گے۔ حدیث کے جملہ ویشھدون ولا یستشھدون پر حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وَبَرَهَا وَلَبَنَهَا وَوَلَدَهَا وَهِيَ الْمِنْحَةُ وَالْمَنِيحَةُ انْتَهَى وَقَالَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ الْمَنِيحَةُ بِالنُّونِ وَالْمُهْمَلَةِ وَزْنُ عَظِيمَةٍ هِيَ فِي الْأَصْلِ الْعَطِيَّةُ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ الْمَنِيحَةُ عِنْدَ الْعَرَبِ عَلَى وَجْهَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنْ يُعْطِيَ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ صِلَةً فَتَكُونَ لَهُ وَالْآخَرُ أَنْ يُعْطِيَهُ نَاقَةً أَوْ شَاةً يَنْتَفِعُ بِحَلْبِهَا وَوَبَرِهَا زَمَنًا ثُمَّ يَرُدَّهَا وَقَالَ الْقَزَّازُ قِيلَ لَا تَكُونُ الْمَنِيحَةُ إِلَّا نَاقَةً أَوْ شَاةً وَالْأَوَّلُ أَعْرَفُ انْتَهَى و ذهب آخرونَ إلیٰ الجمع بینهما الخ (فتح) یعنی ویشهدون ولا یستشهدون سے زید بن خالد کی حدیث مرفوع معارض ہے، جسے امام مسلم نے روایت کی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں؟ وہ وہ لوگ ہوں گے کہ وہ طلبی سے پہلے ہی خود گواہی دے دیں۔ ہردواحادیث کی ترجیح میں علماءکا اختلاف ہے۔ ابن عبدالبر نے حدیث میں زید بن خالد (مسلم) کو ترجیح دی ہے کیوں کہ یہ اہل مدینہ کی روایت ہے۔ اور حدیث مذکور اہل عراق کی روایت سے ہے۔ پس اہل عراق پر اہل مدینہ کو ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہاں تک مبالغہ کیا کہ حدیث عمران مذکورہ کو کہہ دیا کہ اس کی کوئی اصل نہیں (حالانکہ ان کا ایسا کہنا بھی صحیح نہیں ہے) دوسرے علماءنے حدیث عمران کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے کہ اس پر ہر دو اماموں امام بخاری و امام مسلم کا اتفاق ہے۔ اور حدیث زید بن خالد کو صرف امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ تیسرا گروہ ان علماءکا ہے جو ان ہر دو احادیث میں تطبیق دینے کا قائل ہے۔ پہلی تطبیق یہ دی گئی ہے کہ حدیث زید میں ایسے شخص کی گواہی مراد ہے جسے کسی انسان کا حق معلوم ہے اور وہ انسان خود اس سے لاعلم ہے، پس وہ پہلے ہی جاکر اس صاحب حق کے حق میں گواہی دے کر اس کا حق ثابت کردیتا ہے۔ یا یہ کہ اس شہادت کا کوئی اور عالم زندہ نہ ہو پر وہ اس شہادت کے مستحقین ورثہ کو خود مطلع کردے اور گواہی دے کر ان کو معلوم کرادے۔ اس جواب کو اکثر علماءنے پسند کیا ہے۔ اور بھی کئی توجیہات کی گئی ہیں جو فتح الباری میں مذکور ہیں۔ پس بہتر یہی ہے کہ ایسے تعارضات کو مناسب تطبیق سے اٹھایا جائے نہ کہ کسی صحیح حدیث کا انکار کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2651
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6428
6428. حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر زمانہ میرا ہے، پھر ان لوگوں کا زمانہ ہے جو ان کے بعد ہوں گے۔۔۔ حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس ارشاد کو دو مرتبہ دہرایا یا تین مرتبہ۔۔۔ پھر ان کے بعد ایسے آئیں گے جو گواہی دیں گے لیکن ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان پر سے اعتماد جاتا رہے گا۔ وہ نذر مانیں گے لیکن اسے پورا نہیں کریں گے اوران میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6428]
حدیث حاشیہ: راوی کو تین دفعہ کا شبہ ہے اگر آپ نے تیسری دفعہ بھی ایسا فرمایا تو تبع تابعین بھی اس فضیلت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ جن میں ائمہ اربعہ اورمحدثین کی بڑی تعداد شامل ہو جاتی ہے اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں مگر دومرتبہ فرمانے کو ترجیح حاصل ہے۔ آخر میں پیش گوئی فرمائی جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔ جھوٹی گواہی دینے والے، امانتوں میں خیانت کرنے والے، عہد کر کے اسے توڑ نے والے آج مسلمانوں میں کثرت سے ملیں گے۔ ایسے لوگ ناجائز پیشہ حاصل کر کے جسمانی لحاظ سے موٹی موٹی توندوں والے بھی بہت دیکھے جا سکتے ہیں۔ اللهم لا تجعلنا منھم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6428
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2651
2651. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دورمیں ہیں، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے۔“ حضرت عمران کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد کے دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور ان پر اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ وہ از خود گواہی دینے کی پیشکش کریں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ نذریں مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2651]
حدیث حاشیہ: (1) مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والی نسل دین سے درجہ بہ درجہ دور ہوتی چلی جائے گی، چنانچہ دور حاضر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دور اول سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس ظلم و ستم کے دور میں کوئی معقول شخص لوگوں کی بدکرداری کی وجہ سے کسی کو گواہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہو گا لیکن بدکردار لوگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے دوسروں کے معاملات میں ازخود دخل دیں گے۔ ایسے لوگوں پر موٹاپا آ جائے گا کیونکہ دولت کی ریل پیل ہو گی اور چربی کے نیچے ان کا ایمان اور ضمیر دب جائے گا۔ (2) ان لوگوں سے گواہی اس لیے طلب نہیں کی جائے گی کہ وہ اسے صحیح طریقے پر ادا کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔ اس بنا پر ان کی گواہی ظلم کی گواہی ہو گی، نیز ان کا مقصد دولت اکٹھی کرنا ہو گا، خواہ وہ سچی گواہی سے حاصل ہو یا جھوٹی گواہی سے۔ جب سچی جھوٹی گواہی سے بے پروائی برتنے پر مذکورہ مذمت ہے تو جھوٹی گواہی تو انتہائی مذموم ہو گی۔ اگر کسی کی گواہی سے مظلوم کی مدد ہوتی ہو تو ایسی گواہی مطالبے کے بغیر دینا ضروری ہے۔ حدیث میں ایسی گواہی کی فضیلت آئی ہے۔ واضح رہے کہ طبعی موٹاپا قابل مذمت نہیں، البتہ حرام خوری کے نتیجے میں جو موٹاپا ظاہر ہو گا مذکورہ حدیث میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2651
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6695
6695. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے متصل ہیں پھر جو ان کے متصل ہیں۔ حضرت عمران ؓ کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا تھا یا تین کا۔ پھر وہ لوگ آئیں گے جو نذر مانیں گے لیکن اسے پورا نہیں کریں گے، خیانت پیشہ ہوں گے، امانت کی حفاظت نہیں کریں گے اور گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ ان میں موٹاپا نمایاں طور پر ظاہر ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6695]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں امانت کی خیانت اور نذر کے پورا کرنے کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جب خیانت کرنا مذموم ہے تو نذر کو پورا نہ کرنا بھی انتہائی قابل مذمت ہے، نیز اس حدیث میں نذر کو پورا نہ کرنا بطور عیب بیان کیا گیا ہے اور جو کام جائز ہوتا ہے اسے اس انداز سے بیان نہیں کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نذر پوری نہ کرنا مستحسن امر نہیں ہے۔ (فتح الباري: 708/11)(2) واضح رہے کہ حدیث میں مذکور موٹاپے سے مراد کسبی موٹاپا ہے کیونکہ پیدائشی موٹاپا غیر اختیاری ہوتا ہے اور یہ قابل مذمت نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے وقت لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے، نیز وہ حلال و حرام کی پروا نہیں کریں گے اور دنیا میں جانوروں کی طرح کھائیں گے، ان کا مقصد حیات صرف کھانا پینا ہو گا، اس بنا پر ان کے جسم پر چربی کی بہتات ہو گی اور ان میں موٹاپا نمایاں طور پر ظاہر ہو گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6695