صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
25. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
(25) Chapter. The signs of Prophethood in Islam.
حدیث نمبر: 3613
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا ازهر بن سعد، حدثنا ابن عون، قال: انباني موسى بن انس، عن انس بن مالك رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم افتقد ثابت بن قيس، فقال: رجل يا رسول الله انا اعلم لك علمه فاتاه فوجده جالسا في بيته منكسا راسه، فقال:" ما شانك، فقال: شر كان يرفع صوته فوق صوت النبي صلى الله عليه وسلم فقد حبط عمله وهو من اهل الارض فاتى الرجل فاخبره انه، قال: كذا وكذا، فقال موسى بن انس: فرجع المرة الآخرة ببشارة عظيمة، فقال: اذهب إليه فقل له إنك لست من اهل النار ولكن من اهل الجنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ، فَقَالَ: رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ، فَقَالَ: شَرٌّ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى بْنُ أَنَسٍ: فَرَجَعَ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَكِنْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، انہیں موسیٰ بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نہیں ملے تو ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں آئے تو دیکھا کہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ برا حال ہے۔ ان کی عادت تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اونچی آواز میں بولا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا اسی لیے میرا عمل غارت ہو گیا اور میں دوزخیوں میں ہو گیا ہوں۔ وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ ثابت رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا، لیکن دوسری مرتبہ وہی صحابی ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بڑی خوشخبری لے کر واپس ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ ثابت کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ اہل جہنم میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: The Prophet noticed the absence of Thabit bin Qais. A man said, "O Allah's Apostle! I shall bring you his news." So he went to him and saw him sitting in his house drooping his head (sadly). He asked Thabit, "What's the matter?" Thabit replied, "An evil situation: A man used to raise his voice over the voice of the Prophet and so all his good deeds have been annulled and he is from the people of Hell." The man went back and told the Prophet that Thabit had said so-and-so. (The sub-narrator, Musa bin Anas said, "The man went to Thabit again with glad tidings)." The Prophet said to him, "Go and say to Thabit: 'You are not from the people of Fire, but from the people of Paradise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 810


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3613أنس بن مالكما شأنك فقال شر كان يرفع صوته فوق صوت النبي فقد حبط عمله وهو من أهل الأرض فأتى الرجل فأخبره أنه قال كذا وكذا فقال موسى بن أنس فرجع المرة الآخرة ببشارة عظيمة فقال اذهب إليه فقل له إنك لست من أهل النار ولكن من أهل الجنة
   صحيح البخاري4846أنس بن مالكاذهب إليه فقل له إنك لست من أهل النار ولكنك من أهل الجنة
   صحيح مسلم314أنس بن مالكلما نزلت هذه الآية يأيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي إلى آخر الآية جلس ثابت بن قيس في بيته وقال أنا من أهل النار واحتبس عن النبي فسأل النبي سعد بن معاذ فقال يا أبا عمرو ما شأن ثابت أشتكى قال سعد إنه لجاري وما علمت له بشكوى قال فأتاه سعد فذ

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3613 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3613  
حدیث حاشیہ:
ثابت بن قیس بن شماس ؓ مشہور صحابی ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے سچے جان نثاروں میں سے تھے۔
بعض افراد کی بلند آواز سے بات کرنے کی عادت ہوتی ہے۔
ثابت کی ایسی ہی عادت تھی، اس کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ جیسی آنحضرت ﷺ نے ثابت ؓ کو بشارت دی وہ سچی ہوئی۔
ثابت جنگ یمامہ میں شہید ہوکر درجہ شہادت کو پہنچے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3613   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3613  
حدیث حاشیہ:

حضرت ثابت بن قیس ؓطبعی طور پر بلند آواز سے گفتگو کرتے تھے۔
لیکن جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ اے ایمان والو!تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے عمل برباد ہو جائیں۔
اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔
(الحجرات: 2/49)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ثابت ؓ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آنے سے رک گئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو علامات نبوت میں بیان کیا ہے دراصل ان کی غرض ایک دوسری حدیث کے ملانے سے پوری ہوتی ہے کہ حضرت ثابت جنگ یمامہ میں کفار سے لڑنے کے لیے تیاری کر رہے تھے اپنے بدن کو تیل کی مالش کی اور میدان کا رزار میں کود پڑے اور جام شہادت نوش فرمایا۔
(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2845)
گویا اس حدیث کا مصداق جنگ یمامہ میں ظاہر ہوا۔
شاید امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے ایک طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو فرمایا تھا کہ کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم نیک بخت بن کر زندگی گزارو۔
پھر شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤ چنانچہ وہ جنگ یمامہ میں شہید ہو کر مذکورہ حدیث کا مصداق بنے۔

حضرت انس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم انھیں دنیامیں چلتا پھر تا جنتی خیال کرتے تھے۔
(فتح الباري: 759/6)

یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا اسی طرح ہوا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3613   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 314  
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے بتایا جب یہ آیت اتری: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو(آیت کے آخرتک)۔ تو ثابت بن قیس ؓ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں تو دوزخی ہوں اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے رک گئے، تو رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ ؓ سے پوچھا: اے ابو عمرو! ثابت کو کیا ہوا؟ کیا وہ بیمار ہے؟ سعدؓ نے جواب دیا: وہ میرا پڑوسی ہے اور مجھے اس کی بیماری کا علم نہیں ہے۔ اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:314]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر رسول اللہ ﷺ کی آواز سے شعوری طور پر آواز بلند کرنا حبط اعمال کا باعث ہے،
تو آپ کے پیغام اور آپ کےحکم پر اپنے یا کسی کے قول وفعل کو ترجیح دینا کیسے روا ہو سکتا ہے۔
حضرت ثابت بن قیسؓ خطیب انصار تھے اور ان کی آواز طبعی طور پر بلند تھی،
وہ اپنی بات منوانے کے لیے آواز میں زور اور بلندی پیدا نہیں کرتے تھے کہ یہ چیز رسول اللہ ﷺ کی گستاخی اور بے ادبی ہو اور اس سے آپ کے دل میں تکدر وملال پیدا ہو،
جس کی بنا پر انسان کے اعمال ضائع ہوجائیں۔
چونکہ ان کی آواز طبعی طور پر بلند کرتے نہیں تھے،
اس لیے آپ کی اذیت وتکلیف کا باعث نہ تھی،
اس لیے آپ نے فرمایا:
اس کے عمل رائیگاں نہیں،
اس لیے وہ جنتی ہے اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ آپ کو جنتیوں اور دوزخیوں کا علم تھا،
اگر آپ کو سب کا علم تھا،
تو صرف چند صحابہ کے بارے میں یہ بات کیوں فرمائی؟۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 314   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4846  
4846. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنی مجلس میں گم پایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس کا حال معلوم کر کے آپ کو بتاؤں گا، چنانچہ وہ گیا تو حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے دیکھا، پوچھا: کیا حال ہے؟ کہنے لگے: برا حال ہے، میری تو آواز ہی نبی ﷺ کی آواز سے بلند ہوتی تھی، میرے تو اعمال ضائع ہو گئے اور میں اہل دوزخ سے قرار دیا گیا ہوں۔ وہ آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے یہ یہ کہا ہے، چنانچہ وہ دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ تم اہل دوزخ سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4846]
حدیث حاشیہ:
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ انصار کے خطیب ہیں ان کی آواز بہت بلند تھی۔
جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے بولنے سے منع کیا گیا تو اتنے غم زدہ ہوئے کہ گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہیں دیکھا تو ان کے متعلق پوچھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4846   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4846  
4846. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنی مجلس میں گم پایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس کا حال معلوم کر کے آپ کو بتاؤں گا، چنانچہ وہ گیا تو حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے دیکھا، پوچھا: کیا حال ہے؟ کہنے لگے: برا حال ہے، میری تو آواز ہی نبی ﷺ کی آواز سے بلند ہوتی تھی، میرے تو اعمال ضائع ہو گئے اور میں اہل دوزخ سے قرار دیا گیا ہوں۔ وہ آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے یہ یہ کہا ہے، چنانچہ وہ دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ تم اہل دوزخ سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4846]
حدیث حاشیہ:

حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطیب الانصار تھے۔
مسیلمہ کذاب جب مدینہ طیبہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کو اس سے گفتگو کرنے کے لیے مقررفرمایا تھا۔
ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی، اس لیے آپ آیت میں مذکور حکم سے ڈر گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ تم بےادبی اور عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے بلکہ قدرتی طور پر تمہاری آواز بلند ہے، اس لیے قابل مواخذہ نہیں۔

یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق طور پر تمہاری آوازبلند ہے، اس لیے قابل مواخذہ نہیں۔

یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو رہا ہو، آپ کی احادیث بتائی جارہی ہوں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو مسجد نبوی میں اونچی آواز سے بولنے والوں کا محاسبہ کرتے تھے، چنانچہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ مجھے ایک آدمی نے کنکری ماری میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
انھوں نے مجھے حکم دیا کہ ان دو آدمیوں کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ۔
میں انھیں پکڑ کر آپ کے پاس لایا تو آپ نے ان سے پوچھا:
تم کہاں سے آئے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم طائف سے آئے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
اگرتم مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تمھیں سزا دیتا۔
تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہو۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 470)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4846   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.