(مرفوع) حدثني محمد بن الحكم، اخبرنا النضر، اخبرنا إسرائيل، اخبرنا سعد الطائي، اخبرنا محل بن خليفة، عن عدي بن حاتم، قال: بينا انا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ اتاه رجل فشكا إليه الفاقة، ثم اتاه آخر فشكا إليه قطع السبيل، فقال:" يا عدي هل رايت الحيرة، قلت: لم ارها وقد انبئت عنها، قال: فإن طالت بك حياة لترين الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف احدا إلا الله، قلت: فيما بيني وبين نفسي فاين دعار طيئ الذين قد سعروا البلاد ولئن طالت بك حياة لتفتحن كنوز كسرى، قلت: كسرى بن هرمز، قال: كسرى بن هرمز ولئن طالت بك حياة لترين الرجل يخرج ملء كفه من ذهب او فضة يطلب من يقبله منه، فلا يجد احدا يقبله منه وليلقين الله احدكم يوم يلقاه وليس بينه وبينه ترجمان يترجم له، فليقولن له الم ابعث إليك رسولا فيبلغك، فيقول: بلى، فيقول: الم اعطك مالا وافضل عليك، فيقول: بلى فينظر عن يمينه فلا يرى إلا جهنم وينظر عن يساره فلا يرى إلا جهنم، قال: عدي سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: اتقوا النار ولو بشقة تمرة فمن لم يجد شقة تمرة فبكلمة طيبة، قال: عدي فرايت الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف إلا الله وكنت فيمن افتتح كنوز كسرى بن هرمز ولئن طالت بكم حياة لترون ما، قال: النبي ابو القاسم صلى الله عليه وسلم يخرج ملء كفه"، حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا ابو عاصم، اخبرنا سعدان بن بشر، حدثنا ابو مجاهد، حدثنا محل بن خليفة، سمعت عديا كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنَا سَعْدٌ الطَّائِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ:" يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ، قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا، قَالَ: فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ، قُلْتُ: فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى، قُلْتُ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ، فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، فَلَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَيُبَلِّغَكَ، فَيَقُولُ: بَلَى، فَيَقُولُ: أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْكَ، فَيَقُولُ: بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ، قَالَ: عَدِيٌّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، قَالَ: عَدِيٌّ فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا، قَالَ: النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ"، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُجَاهِدٍ، حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ، سَمِعْتُ عَدِيًّا كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے محمد بن حکم نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر نے خبر دی، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، کہا ہم کو سعد طائی نے خبر دی، انہیں محل بن خلیفہ نے خبر دی، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدی! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہو گا جنہوں نے شہروں کو تباہ کر دیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے (تم پر) کھولے جائیں گے۔ میں (حیرت میں) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز (ایران کا بادشاہ) کسریٰ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تو یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہو گی (جو اس کی زکوٰۃ) قبول کر لے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جو دن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہو گا (بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیا ہو؟ وہ عرض کرے گا بیشک تو نے بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی؟ وہ جواب دے گا بیشک تو نے دیا تھا۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جہنم سے ڈرو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آ سکے تو (کسی سے) ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور (مکہ پہنچ کر) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے (ڈاکو وغیرہ) کا (راستے میں) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں (زکوٰۃ کا سونا چاندی) بھر کر نکلے گا (لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا) مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم کو سعدان بن بشر نے خبر دی، ان سے ابومجاہد نے بیان کیا، ان سے محل بن خلیفہ نے بیان کیا، اور انہوں نے عدی رضی اللہ سنے سنا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، پھر یہی حدیث نقل کی جو اوپر مذکور ہوئی۔
لترين الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف أحدا إلا الله لئن طالت بك حياة لتفتحن كنوز كسرى قلت كسرى بن هرمز قال كسرى بن هرمز لئن طالت بك حياة لترين الرجل يخرج ملء كفه من ذهب أو فضة يطلب من يقبله منه فلا يجد أحدا يقبله منه ليلقين الله أحدكم يوم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3595
حدیث حاشیہ: حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں مال ودولت کی فراوانی کی پیش گوئی بھی پوری ہوئی کہ مسلمانوں کو اللہ نے بہت دولت مند بنادیا تھا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ تھا۔ حافظ ؒنے کہا کہ حیرہ عرب کے ان بادشاہوں کا پایہ تخت تھا جو ایران کے ماتحت تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3595
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3595
حدیث حاشیہ: 1۔ کسریٰ شاہ ایران کا لقب ہوتا تھا اس کا نام دوسری مرتبہ اس لیے دہرایا گیا کہ حضرت عدی ؓ کے دل میں شاہ ایران کی عظمت بہت زیادہ تھی کہ اس جیسی سپر طاقت کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں شاید کوئی اور کسریٰ مراد ہو اس لیے انھوں نے دوبارہ سوال کر کے اس کی توفیق کرائی چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں پوری ہوئی۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ اس لشکر میں شامل تھے جنھوں نے اس وقت ایران کو فتح کیا اور ہزار سال سے سلگنے والے آتش کدہ کو بھسم کیا۔ 2۔ یہ غیب کی خبر تھی جو علامات نبوت میں سے ہے۔ 3۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں مال و دولت کی بہت زیادہ فراوانی تھی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مال و دولت سے نوازدیا تھا کہ کوئی زکاۃ وصول کرنے والا نہیں ملتا تھا۔ 4۔ واضح رہے کہ حیرہ شہر کوفے کے پاس تھا اور عرب کے ان بادشاہوں کا پایہ تخت تھا جو ایران کے ماتحت تھے۔ 5۔ آخر میں محل بن خلیفہ کا حضرت عدی بن حاتم ؓ سے سماع ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کا دوسرا طریق بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3595