صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
4. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ:
4. باب: اس بیان میں کہ صرف ایک کپڑے کو بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا جائز و درست ہے۔
(4) Chapter. To offer As-Salat (the prayers) with a single garment wrapped round the body.
حدیث نمبر: 356
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال: حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، ان عمر بن ابي سلمة اخبره، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في ثوب واحد مشتملا به في بيت ام سلمة، واضعا طرفيه على عاتقيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُشْتَمِلًا بِهِ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، وَاضِعًا طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقَيْهِ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے والد سے جن کو عمر بن ابی سلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ اسے لپیٹے ہوئے تھے اور اس کے دونوں کناروں کو دونوں کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Umar bin Abi Salama: In the house of Um-Salama I saw Allah's Apostle offering prayers, wrapped in a single garment around his body with its ends crossed round his shoulders.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 352


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري354عمر بن عبد اللهصلى في ثوب واحد قد خالف بين طرفيه
   صحيح البخاري355عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد في بيت أم سلمة قد ألقى طرفيه على عاتقيه
   صحيح البخاري356عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد مشتملا به في بيت أم سلمة واضعا طرفيه على عاتقيه
   صحيح مسلم1154عمر بن عبد اللهيصلي في بيت أم سلمة في ثوب قد خالف بين طرفيه
   صحيح مسلم1152عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد مشتملا به في بيت أم سلمة واضعا طرفيه على عاتقيه
   صحيح مسلم1155عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد ملتحفا مخالفا بين طرفيه
   جامع الترمذي339عمر بن عبد اللهيصلي في بيت أم سلمة مشتملا في ثوب واحد
   سنن أبي داود628عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد ملتحفا مخالفا بين طرفيه على منكبيه
   سنن النسائى الصغرى765عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد في بيت أم سلمة واضعا طرفيه على عاتقيه
   سنن ابن ماجه1049عمر بن عبد اللهيصلي في ثوب واحد متوشحا به واضعا طرفيه على عاتقيه
   مسندالحميدي581عمر بن عبد اللهرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في بيت أم سلمة في ثوب واحد مشتملا به

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 356 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:356  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے:
پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔
تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔
لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔
تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔
تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه)
کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔
نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 608/1)

علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1)
کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔
حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔
آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔
حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
(شرح البخاري: 21/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 356   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 765  
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 765]
765 ۔ اردو حاشیہ:
➊ عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے بیٹے تھے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی۔
➋ ایک کپڑے میں نماز مجبوری کی حالت میں پڑھی جائے۔ اگر وہ چھوٹا ہو تو اسے ناف سے گھٹنوں تک باندھ لیا جائے اور اگر کچھ بڑا ہو تو بغلوں کے نیچے سے گزار کر دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیں۔ اگر کھلنے کا اندیشہ ہو تو گردن کے پیچھے گرہ دیں لیں ورنہ کھلا چھوڑ لیں۔ اس طرح پیٹ اور کمر بھی چھپ جائیں گے۔ حدیث میں اسی طرح کا ذکر ہے اور اگر دو کپڑے ہوں تو پھر دو ہی میں نماز پڑھیں۔ ایک کو ازار اور دوسرے کو ردا یا قمیص بنائیں۔
➌ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے، ایسی صورت میں یقیناًً سرننگا رہتا ہے، اس لیے ننگے سر نماز کے ہو جانے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب غربت و ناداری عام تھی جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔ اب آسانی کی حالت میں ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کو عادت بنا لینا، اسے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا، نہ اس کے لیے جواز کا فتویٰ ہی ڈھونڈے گا۔ اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے کہ اس کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن اسے عادت اور شعار بنا لینا قطعاً پسندیدہ نہیں، نہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام اور اسلافِ عظام کے طرزِ عمل ہی سے مطابقت رکھتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 765   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 339  
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 339]
اردو حاشہ:
1؎:
شیخین کی روایت میں ((وَاضِعاً طَرَفَيْهِ عَلى عَاتِقَيْهِ)) کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے،
اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے،
ورنہ نماز نہیں ہو گی،
اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں،
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا،
ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جاسکتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 339   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:581  
581-سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک کپڑا اوڑھ کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:581]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ ستر اور کندھے ڈھکے ہوئے ہوں نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے، ربیب بیٹے کو گھر میں رکھنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 581   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1152  
حضرت عمر ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا، آپﷺ اسے لپیٹے ہوئے تھے، اور اس کے دونوں کنارے، آپﷺ کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1152]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مُشْتَمِلٌ،
مُتَوَشِّحٌ اور (مخَالِفٌ بَيْنَ طَرَفَيْهِ)
تینوں ہم معنی ہیں،
جس کا مقصد یہ ہے کہ کپڑے کا جو کنارہ دائیں کندھے پر ڈالا ہے،
اس کو بائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جائے اور جو کنارہ بائیں کندھے پر رکھنا ہے اس کو دائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جائے،
پھر دونوں کناروں کو سینہ پر باندھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1152   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:354  
354. حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھی جبکہ اس کے دونوں کناروں کو الٹ کر اپنے کندھوں پر ڈال لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:354]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے:
پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔
تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔
لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔
تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔
تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه)
کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔
نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 608/1)

علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1)
کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔
حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔
آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔
حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
(شرح البخاري: 21/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 354   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:355  
355. حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ نے چادر کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:355]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے:
پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔
تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔
لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔
تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔
تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه)
کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔
نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 608/1)

علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1)
کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔
حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔
آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔
حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
(شرح البخاري: 21/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 355   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.