الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
31. بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ:
31. باب: موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان۔
(31) Chapter. The death of Musa (Moses) and his remembrance after his death.
حدیث نمبر: 3408
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن وسعيد بن المسيب، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال:" استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود، فقال: المسلم والذي اصطفى محمدا صلى الله عليه وسلم على العالمين في قسم يقسم به، فقال: اليهودي والذي اصطفى موسى على العالمين فرفع المسلم عند ذلك يده فلطم اليهودي فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره الذي كان من امره وامر المسلم، فقال: لا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون فاكون اول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا ادري اكان فيمن صعق فافاق قبلي او كان ممن استثنى الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اسْتَبَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: الْمُسْلِمُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَالَمِينَ فِي قَسَمٍ يُقْسِمُ بِهِ، فَقَالَ: الْيَهُودِيُّ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْعَالَمِينَ فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ عِنْدَ ذَلِكَ يَدَهُ فَلَطَمَ الْيَهُودِيَّ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِهِ وَأَمْرِ الْمُسْلِمِ، فَقَالَ: لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کے ایک آدمی اور یہودیوں میں سے ایک شخص کا جھگڑا ہوا۔ مسلمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں برگذیدہ بنایا ‘ قسم کھاتے ہوئے انہوں نے یہ کہا۔ اس پر یہودی نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا۔ اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ وہ یہودی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے اور مسلمان کے جھگڑے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر فرمایا کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دئیے جائیں گے اور سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا پھر دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھی بیہوش ہونے والوں میں تھے اور مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آ گئے یا انہیں اللہ تعالیٰ نے بیہوش ہونے والوں میں ہی نہیں رکھا تھا۔

Narrated Abu Huraira: A Muslim and a Jew quarreled. The Muslim taking an oath, said, "By Him Who has preferred Muhammad over all people...!" The Jew said, "By Him Who has preferred Moses, over all people." The Muslim raised his hand and slapped the Jew who came to the Prophet to tell him what had happened between him and the Muslim. The Prophet said, "Don't give me superiority over Moses, for the people will become unconscious (on the Day of Resurrection) and I will be the first to gain consciousness to see Moses standing and holding a side of Allah's Throne. I will not know if he has been among those people who have become unconscious; and that he has gained consciousness before me, or he has been amongst those whom Allah has exempted."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 620


   صحيح البخاري3408عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري7472عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري6517عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون في أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري أكان موسى فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري6518عبد الرحمن بن صخريصعق الناس حين يصعقون أكون أول من قام فإذا موسى آخذ بالعرش فما أدري أكان فيمن صعق
   صحيح البخاري3414عبد الرحمن بن صخرلا تفضلوا بين أنبياء الله ينفخ في الصور فيصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم ينفخ فيه أخرى أكون أول من بعث فإذا موسى آخذ بالعرش فلا أدري أحوسب بصعقته يوم الطور أم بعث قبلي لا أقول إن أحدا أفضل من يونس بن متى
   صحيح البخاري2411عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأصعق معهم فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش جانب العرش فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري4813عبد الرحمن بن صخرإني أول من يرفع رأسه بعد النفخة الآخرة إذا أنا بموسى متعلق بالعرش فلا أدري أكذلك كان أم بعد النفخة
   صحيح مسلم6151عبد الرحمن بن صخرلا تفضلوا بين أنبياء الله فإنه ينفخ في الصور فيصعق من في السماوات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم ينفخ فيه أخرى فأكون أول من بعث أو في أول من بعث فإذا موسى آخذ بالعرش فلا أدري أحوسب بصعقته يوم الطور أو بعث قبلي لا أقول إن أحدا أفضل من يونس بن متى
   جامع الترمذي3245عبد الرحمن بن صخرونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون أكون أول من رفع رأسه فإذا موسى آخذ بقائمة من قوائم العرش فلا أدري أرفع رأسه قبلي أم كان ممن استثنى الله من قال أنا خير من يونس بن متى فقد كذب
   سنن أبي داود4671عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش في جانب العرش فلا أدري أكان ممن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3408 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3408  
حدیث حاشیہ:
یعنی مجھ کودوسرے نبیوں پر اس طرح فضیلت نہ دوکہ ان کی توہین نکلے۔
یا یہ حکم اس وقت کاہے جب آپ کویہ نہیں بتلایا گیاتھاکہ آپ جملہ پیغمبروں سےافضل ہیں۔
یا یہ مطلب ہےکہ اپنی رائے سےفضیلت نہ دو جتنا شرع میں وارد ہواہے اتناہی کہو۔
حشر میں بےہوش نہ ہونے والوں کا استثنا اس آیت میں ہے۔
﴿ونُفِخَ فِى الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فى السّمواتِ وَمَن فِى الاَرضِ اِلَّا من شآء الله﴾ (الزمر: 68)
یعنی جس وقت صور پھونکا جائےگا توسب اہل محشر بےہوش ہوجائیں گےمگر جس کو اللہ چاہے گاوہ بےہوش نہ ہوگا۔
ممکن ہےکہ حضرت موسیٰ بھی اس استثنا میں شامل ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3408   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3408  
حدیث حاشیہ:

مذکورہ واقعہ حضرت موسیٰ ؑ سے متعلق ہے لیکن آپ کی زندگی کے بعد پیش آیا۔
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مجھے دوسرے انبیائے کرام پر اس طرح فضیلت نہ دو کہ ان کی توہین کا پہلو نکلے۔

حشر میں بے ہوش نہ ہونے والوں کا استثنا درج ذیل آیت میں ہے۔
اور صورپھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق بے ہوش ہوجائے گی مگر وہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے۔
(الزمر: 68)
ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ بھی اس استثناء میں شامل ہوں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3408   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2411  
´قیامت کا ایک منظر`
«...لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ .»
۔۔۔مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ میں بھی بیہوش ہو جاؤں گا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آ جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ: 2411]
تخریج الحدیث:
منکرین حدیث کا اشکال،کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟
یہ حدیث صحیح بخاری میں سات مقامات پر ہے:
[2411، 3408، 4813، 3414، 6517، 6518، 7472]
اسے امام بخاری کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
مسلم بن الحجاج [صحيح مسلم: 2373]
طحاوي [مشكل الآثار، طبعه قديمه 1؍445، معاني الآثار 4؍316]
ابويعليٰ [المسند: 6643]
النسائي [السنن الكبريٰ: 7758، 11457]
ابوداود [السنن: 4671]
ترمذي [السنن: 3245 وقال هذا حديث حسن صحيح]
ابن ماجه [السنن: 4274]
البغوي [شرح السنة 15؍106 ح4302 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
البيهقي [دلائل النبوة 5؍492]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے امام أحمد رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے، دیکھئیے:
مسند أحمد بن حنبل [2؍264، 450]
یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل جلیل القدر ثقہ تابعین نے بیان کی ہے۔
① سعید بن المسیب
② ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن
③ عبدالرحمٰن الاعرج
④ عامر الشعبی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسے سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے:
[صحيح بخاري: 2412]
[و صحيح مسلم: 2374]
[و مصنف ابن ابي شيبه 526/11 ح 31828]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، لہٰذا منکر حدیث کا اس سے کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟ کشید کرنا باطل ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ میں نہیں جانتا۔ إلخ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کے مطابق ہے۔ «وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ» (آپ کہہ دیں کہ۔۔۔) اور میں غیب نہیں جانتا۔ [سورة الانعام: 50]
✿ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ «وَإِنْ أَدْرِيْ أَقَرِيْبٌ أَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ» [سورة الانبياء: 109]
ترجمہ از شاہ ولی اللہ الدہلوی: «ونمي دانم كه نزديك است يا دور است آنچه وعده داده ميشويد» [ص399]
ترجمہ از شاہ عبدالقادر: اور میں نہیں جانتا، نزدیک ہے یا دور ہے، جو تم کو وعدہ ملتا ہے۔ [ص399]
ترجمہ از أحمد رضا خان بریلوی: میں کیا جانوں کہ پاس ہے یا دور ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ [ص531]
↰ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات، احادیث صحیحہ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات کے بھی مخالف ہیں۔ ان کے پاس نہ حدیث ہے اور نہ قرآن ہے، بس وہ اپنی خواہشات اور بعض نام نہاد مفکرین قرآن کے خود ساختہ نظریات و تحریفات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ مرنے سے پہلے پہلے رب کریم کی طرف سے مہلت ہے، جو شخص توبہ کرنا چاہے کر لے ورنہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے باغیوں اور سرکشوں کے لئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنی پناہ میں رکھ۔ اے اللہ! تو ہمیں کتاب وسنت پر ثابت قدم رکھ اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرما۔ اے اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، آمین۔ [انتهٰي] (13 ذوالقعدہ 1426ھ)
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 27   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3245  
´سورۃ الزمر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے،
پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا،
تو وہ کھڑے ہوکر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ (الزمر: 69)۔
2؎:
روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرمار ہے ہیں،
اپنی خاکساری ظاہر کرنا دوسری بات ہے،
اور فی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء سے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لیکر آپﷺ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپﷺ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آکر مار دینا مناسب نہیں ہے،
آپﷺ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
3؎:
حقیقت میں نبی اکرمﷺ سب سے افضل نبی ہیں،
اور سیدالأنبیاء والرسل ہیں،
لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے،
بلکہ خلاف ادب ہے،
اس کا تواضع و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپﷺ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3245   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6151  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔شک عبد العزیز کو ہوا۔وہ کہنے لگا نہیں،اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگا یا،کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6151]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انبیاء درجات و مراتب کے اعتبار سے،
ایک دوسرے پر فوقیت اور برتری رکھتے ہیں،
جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت ہے،
فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے،
لیکن جب ہم اس فضیلت کو بیان کرنے لگیں گے تو ایک قسم کا موازنہ اور مقابلہ کی صورت پیدا ہو گی،
اس لیے اس میں کسی رسول کی تحقیر و تنقیص کا پہلو پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اسی پہلو سے روکنا مقصود ہے کہ ایسا اسلوب اختیار نہ کرو،
جس سے تحقیر و تنقیص کا پہلو نکلتا ہے اور اس کے ماننے والوں کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا ہو،
جیسا کہ اس حدیث میں یہودی کے قول سے مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دے رہا ہے،
اس لیے اس نے تھپڑ رسید کر دیا اور یہاں اگر تھپڑ مارنے والے ابوبکر ہیں تو ان کو معنوی طور پر آپ کی نصرت و حمایت کرنے پر انصاری کہہ دیا گیا ہے۔
پہلے نفخہ کا اثر درندوں اور مردوں دونوں پر ہو گا،
زندے فوت ہو جائیں گے اور مردوں پر بے ہوشی اور گھبراہٹ طاری ہو گی،
انبیاء کو برزخی زندگی حاصل ہے،
جب قیامت کے وقوع کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس سے برزخی زندگی بھی ختم ہو جائے گی،
اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نفخہ سے سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کو عرش کے پائے کو پکڑتے ہوئے دیکھیں گے اور اس مسئلہ میں متردد ہوں گے،
موسیٰ علیہ السلام پہلے ہوش میں آ گئے ہیں یا طور کی بے ہوشی کے سبب ان کو اس صعقہ سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے،
اس طرح انہیں جزئی فضیلت حاصل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6151   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2411  
2411. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ مسلمان کہنے لگا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو سارے جہانوں پر برتری دی!یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو تمام اہل جہاں پر برگزیدہ کیا!اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ رسیدکردیا۔ وہ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اورآپ سے اپنا اور مسلمان کا ماجراکہہ سنایا۔ نبی کریم ﷺ نے اس مسلمان کو بلاکر دریافت کیا تو اس نے سارا قصہ بیان کردیا۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے موسیٰ ؑ پر برتری نہ دو کیونکہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور میں بھی بے ہوش ہوجاؤں گا اور سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کاایک پایہ پکڑے کھڑے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش کر مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2411]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے اس یہودی نے کہا یا رسول اللہ! میں ذمی ہوں، اور آپ کی امان میں ہوں۔
اس پر بھی اس مسلمان نے مجھ کو تھپڑ مارا۔
آپ غصے ہوئے اور مسلمان سے پوچھا تو نے اس کو کیوں تھپڑ مارا۔
اس پر اس مسلمان نے یہ واقعہ بیان کیا۔
مگر آنحضرت ﷺ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ کسی نبی کی شان میں ایک رائی برابر بھی تنقیص کا کوئی پہلو اختیار کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2411   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6517  
6517. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وہ آدمی ایک مسلمان اور ایک یہودی آپس میں جھگڑ پڑے۔ مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! مسلمان یہودی کی یہ بات سن کر خفا ہو گیا اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ یہودی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا اور مسلمان کا واقعہ بتایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے موسیٰ ؑ پر فصیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلا شخص ہوں گا جسے ہوش آئے گا، اس دوران میں موسیٰ ؑ کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا کونا تھامے ہوئے ہوں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے لیکن مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے (بے ہوشی) مستشنیٰ کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6517]
حدیث حاشیہ:
فرمایا إلا من شاءاللہ کہتے ہیں کہ جبریل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل اور حاملان عرش اور ملائکہ علیہم السلام اور بہشت کے حور و غلمان وغیرہ بے ہوش نہ ہوں گے۔
آپ نے یہ ازراہ تواضع فرمایا ورنہ آپ سارے انبیاء سے افضل ہیں صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6517   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6518  
6518. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے ہوشی کے وقت تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں گا۔ اس وقت موسٰی ؑ کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے۔ (لیکن وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے)۔ اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6518]
حدیث حاشیہ:
جو اوپر کتاب الاشخاص میں موصولاً گزر چکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6518   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7472  
7472. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ مسلمان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا موسیٰ ؑ کو تمام اہل جہاں پر منتخب کیا! تب مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت لے کر آیا اور اس نے اپنا اور مسلمان کا معماملہ پیش کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے اور میں ہی سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان لوگوں سے ہوں گے جو بے ہوش ہوئے ہوں لیکن مجھ سے پہلے انہیں ہوش آگیا ہو، یا اللہ تعالیٰ نے انہیں بے ہوش ہونے سے مستشنیٰ کر دیا تھا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7472]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت موسیٰ ؑ پرفضیلت نہ دو یہ آپ نے تواضع کی راہ سے فرمایا یہ مطلب ہے کہ اس طور سے فضیلت نہ دو کہ حضرت موسیٰ ؑ کو توہین نکلے یا یہ واقعہ پہلے کا ہے جب کہ آپ کو معلوم نہ تھا کہ آپ سارے انبیاء سے افضل ہیں۔
استثناء کا ذکر اس آیت میں ہے (فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ) (سوره زمر)
باب کا مطلب آیت کے لفظ إلا ماشاء اللہ سے نکلا جن سےجبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل، رضوان، خازن بہشت، حاملان عرش مراد ہیں یہ بے ہوش نہ ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7472   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2411  
2411. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ مسلمان کہنے لگا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو سارے جہانوں پر برتری دی!یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو تمام اہل جہاں پر برگزیدہ کیا!اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ رسیدکردیا۔ وہ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اورآپ سے اپنا اور مسلمان کا ماجراکہہ سنایا۔ نبی کریم ﷺ نے اس مسلمان کو بلاکر دریافت کیا تو اس نے سارا قصہ بیان کردیا۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے موسیٰ ؑ پر برتری نہ دو کیونکہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور میں بھی بے ہوش ہوجاؤں گا اور سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کاایک پایہ پکڑے کھڑے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش کر مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2411]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے عنوان کے دوسرے جز کو ثابت کیا ہے کہ ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم پر اور کوئی بھی غیر مسلم کسی بھی مسلمان پر اسلامی عدالت میں دعویٰ دائر کر سکتا ہے۔
انصاف طلبی کے لیے مدعی اور مدعا علیہ کا ہم مذہب ہونا کوئی شرط نہیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے کہا:
اللہ کے رسول! میں ایک ذمی کی حیثیت سے آپ کی امان میں رہتا ہوں، اس کے باوجود مجھے مسلمان نے تھپڑ مارا ہے۔
آپ ناراض ہوئے اور مسلمان کو ڈانٹ پلائی۔
جب مسلمان نے سارا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس امر کو پسند نہیں فرمایا کہ کسی نبی کی شان میں ایک رائی کے برابر بھی تنقیص کا کوئی پہلو اختیار کیا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2411   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4813  
4813. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: آخری مرتبہ صور پھونکے جانے کے بعد سب سے پہلے اپنا سر اٹھانے والا میں ہوں گا، لیکن اس وقت میں حضرت موسٰی ؑ کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ پہلے ہی اس طرح تھے یا آخری نفخے کے بعد (مجھ سے پہلے عرش الٰہی کو تھام لیں گے)؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4813]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انھیں ہوش آ جائے گا یا اللہ تعالیٰ نے انھیں ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2411)
بعض روایات میں یہ بھی صراحت ہے کہ ان کے لیے کوہ طور کی بے ہوشی کو کافی سمجھ لیا جائے گا، اس لیے وہ نفخہ صور کے وقت بے ہوش نہیں ہوں گے۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2412)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4813   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6518  
6518. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے ہوشی کے وقت تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں گا۔ اس وقت موسٰی ؑ کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے۔ (لیکن وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے)۔ اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6518]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جس استثنیٰ کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہے:
اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوق ہے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا)
چاہے، پھر جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو فوراً سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔
(الزمر: 68)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں صور پھونکے جانے کی طرف واضح اشارہ ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو پہلے نفخے کے بعد بے ہوش نہیں ہو گی۔
بہرحال انسانوں میں سے کوئی بھی اس بے ہوشی سے محفوظ نہیں رہے گا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوں گے تو دوسرے انسان کیسے بچ سکتے ہیں، البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے مستثنیٰ کیا ہے۔
وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں یا بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں، اس لیے کہ وہ دنیا میں کوہ طور پر ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت کے مطابق فرمایا:
مجھے معلوم نہیں کہ کوہ طور پر انہیں بے ہوش کر کے ان کا حساب چکا دیا گیا تھا یا وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3414) (3)
رسول اللہ نے یہودی کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے یہ گفتگو بطور تواضع فرمائی تھی ورنہ احادیثِ شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6518   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7472  
7472. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ مسلمان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا موسیٰ ؑ کو تمام اہل جہاں پر منتخب کیا! تب مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت لے کر آیا اور اس نے اپنا اور مسلمان کا معماملہ پیش کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے اور میں ہی سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان لوگوں سے ہوں گے جو بے ہوش ہوئے ہوں لیکن مجھ سے پہلے انہیں ہوش آگیا ہو، یا اللہ تعالیٰ نے انہیں بے ہوش ہونے سے مستشنیٰ کر دیا تھا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7472]
حدیث حاشیہ:

حضرت انبیاء علیہم السلام کے درجات میں باہمی تفاوت کو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یہ رسول ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے۔
(البقرة: 253)
نیز فرمایا:
ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔
(بني إسرائیل 55)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سرداروہوں گا۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 5940(2278)
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع اور انکسار کے طور پر فرمایا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ میری اس طرح فضیلت ثابت نہ کرو جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین کا پہلو نمایاں ہو۔

اس حدیث کے آخر میں ایک استثناء کا ذکر ہے جس کی وضاحت درج ذیل آیت کریمہ میں ہے۔
اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانی اور زمین میں مخلوق ہو گی۔
سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا)
چاہے گا۔
(الزمر39۔
68)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو بے ہوش نہیں ہو گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بے ہوشی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا وہ بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں اس لیے کہ وہ دنیا میں ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مشیت الٰہی کو ثابت کیا ہے۔
کہ وہ عام ہے اور کائنات کی ہر چیز کو شامل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7472   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.