19. باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
(19) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, in Yasuf (Joseph) and his brethren there were Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelation, etc.) for those who ask." (V.12:7)
(مرفوع) حدثنا الربيع بن يحيى البصري، حدثنا زائدة، عن عبد الملك بن عمير، عن ابي بردة بن ابي موسى عن ابيه، قال: مرض النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس، فقالت عائشة: إن ابا بكر رجل كذا، فقال: مثله، فقالت: مثله، فقال: مروا ابا بكر فإنكن صواحب يوسف فام ابو بكر في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم"، فقال: حسين، عن زائدة رجل رقيق.(مرفوع) حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ كَذَا، فَقَالَ: مِثْلَهُ، فَقَالَتْ: مِثْلَهُ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ فَأَمَّ أَبُو بَكْرٍ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَقَالَ: حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ رَجُلٌ رَقِيقٌ.
ہم سے ربیع بن یحییٰ بصریٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالملک بن عمیر نے ‘ ان سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل انسان ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی حکم فرمایا اور انہوں نے بھی وہی عذر دہرایا۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے کہو نماز پڑھائیں۔ تم تو یوسف کی ساتھ والیاں ہو۔ (ظاہر کچھ باطن کچھ) چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں امامت کی اور حسین بن علی جعفی نے زائدہ سے «رجل رقيق.» کے الفاظ نقل کئے کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں۔
Narrated Abu Musa: When the Prophet fell ill, he said, "Order Abu Bakr to lead the people in prayer." `Aisha said, "Abu Bakr is a soft-hearted person. The Prophet gave the same order again and she again gave the same reply. He again said, "Order Abu Bakr (to lead the prayer)! You are (like) the female companions of Joseph." Consequently Abu Bakr led the people in prayer in the life-time of the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 599
مروا أبا بكر فليصل بالناس قالت عائشة إنه رجل رقيق إذا قام مقامك لم يستطع أن يصلي بالناس قال مروا أبا بكر فليصل بالناس فعادت فقال مري أبا بكر فليصل بالناس فإنكن صواحب يوسف فأتاه الرسول فصلى بالناس في حياة النبي
مروا أبا بكر فليصل بالناس فقالت عائشة يا رسول الله إن أبا بكر رجل رقيق متى يقم مقامك لا يستطع أن يصلي بالناس فقال مري أبا بكر فليصل بالناس فإنكن صواحب يوسف قال فصلى بهم أبو بكر حياة رسول الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3385
حدیث حاشیہ: یوسف ؑ کی ساتھ والیوں سے وہ عورتیں مراد ہیں جن کو زلیخا نے جمع کیا تھا جنہوں نے بظاہر زلیخا کو اس کی محبت پر ملامت کی تھی مگر دل سے سب حضرت یوسف ؑ کے حسن سے متاثر تھیں۔ آنحضرت ﷺ کا مقصد اس جملہ سے یہ تھا کہ حضرت ابو بکر ؓکے بارے میں تمہاری یہ رائے ظاہری طور پر ہے ورنہ دل سے ان کی امامت تسلیم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3385
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3385
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت یوسف ؑ پر فریضۃ ہونے والی عورتوں سے مراد وہ بیگمات مصر ہیں جنھیں عزیز مصر کی بیوی نے بڑے اہتمام سے اپنے گھر جمع کیا تھا۔ جنھوں نے بظاہر اس کو حضرت یوسف ؑ سے محبت کرنے پر ملامت کی تھی مگر وہ خود بھی دل کی گہرائی سے حسن یوسف سے متاثر تھیں بیگمات مصر حضرت یوسف ؑ کا حسن و جمال دیکھ کر اس قدر محونظارہ اور بےخود ہو گئیں کہ ان کی چھریاں پھلوں پر چلنے کی بجائے ان کے اپنے ہاتھوں پر چل گئیں۔ ان میں سے ہر ایک حضرت یوسف ؑ کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن یوسف ؑ نے تمام دلکشیوں اور رعنائیوں کے باوجود ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارانہ کیا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے ساختہ پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ایک نوجوان انسان جنسی خواہشات سے اس قدر بالا تر ہو کہ دل پھینک قسم کے ماحول میں وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ اس واقعے سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بے حیائی کس قدر عام تھی اور فحاشی پھیلانے میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بے باکی حاصل تھی اور ان کے مقابلے میں مرد کتنے کمزور یا کس قدر دیوث تھے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ نے سیدنایوسف ؑ کو ایسا عزم واستقلال بخشا کہ مصر کی عورتوں کا ان پر جادو نہ چل سکا۔ 2۔ صواحب یوسف کہنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابو بکر ؓکے متعلق تمھاری یہ رائے ظاہری رکھ رکھاؤ کے طور پر ہے بصورت دیگر تم بھی حضرت ابو بکر ؓ کی امامت کو تسلیم کر چکی ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3385
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:678
678. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ اس پر حضرت عائشہ ؓ گویا ہوئیں: وہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ حضرت عائشہ ؓ نے پہلے والی بات پھر کہہ دی۔ آپ ﷺ نے سہ باری فرمایا: ”تم ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تم عورتیں مجھے حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔“ پھر ایک آدمی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:678]
حدیث حاشیہ: (1) امامت کے سلسلے میں حضرت امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے اہل علم و فضل کا انتخاب کرنا چاہیے۔ دین سے بے بہرہ شخص اس منصب کے قطعاً لائق نہیں، خواہ بہترین قاری ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر صاحب علم و فضل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مصلائے امامت پر مقرر فرمایا، لہٰذا اس عظیم منصب کے شایان شان یہی ہے کہ اس آدمی کو یہ اعزاز بخشا جائے جو علم وفضل میں عظیم تر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود جمہور کے موقف کی تائید کرنا ہو کہ علمائے حضرات بہ نسبت قراء حضرات کے منصب امامت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابی بن کعب ؓ سب سے بڑے قاری تھے۔ جیسا کہ نص حدیث سے ثابت ہے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب فرمایا کیونکہ وہ علم وفضل میں سب سے زیادہ فائق تھے۔ (حاشیة السندي: 124/1)(2) ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کا امام ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اگر اس وصف میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جسے سنت نبوی کا زیادہ علم ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1532(673) نیز حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور امامت وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1532(673) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ امامت کا منصب حافظ قرآن کو دینا چاہیے۔ جمہور اس قسم کی احادیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وقت حضرت ابو بکر ؓ کو منصب امامت پر فائز فرمایا، لیکن ان احادیث کو منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حضرت ابو بکر صديق ؓ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سنت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھی اوصافِ فاضلہ کی بنا پر منصب امامت ان کے حوالے فرمایا۔ حدیث مسلم میں أعلم بالسنة سے مراد وہ شخص ہے جو بقدر ضرورت قرآن مجید صحیح طور پر پڑھنے کے ساتھ ساتھ نماز سے متعلقہ مسائل بہ نسبت دوسروں کے زیادہ جانتا ہو، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ علم، فہم، تقویٰ اور خوف وخشیت والے تھے۔ (رضي اللہ عنه)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 678