(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن حفصة، قال ابو عبد الله: او هشام بن حسان، عن حفصة، عن ام عطية، قالت:" كنا ننهى ان نحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا، ولا نكتحل ولا نتطيب ولا نلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب، وقد رخص لنا عند الطهر إذا اغتسلت إحدانا من محيضها في نبذة من كست اظفار، وكنا ننهى عن اتباع الجنائز"، قال: رواه هشام بن حسان، عن حفصة، عن ام عطية، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: أَوْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:" كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ"، قَالَ: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے حفصہ سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب (یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں (عدت کے دنوں میں) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔ اس حدیث کو ہشام بن حسان نے حفصہ سے، انہوں نے ام عطیہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
Hum se Abdullah bin Abdul Wahhab ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Hammad bin Zaid ne Ayyub Sikhtiyaani se, unhon ne Hafsa se, woh Umm-e-Atiyyah se, aap ne farmaaya ke hamein kisi mayyat par teen din se ziyada sog karne se mana kiya jaata tha. Lekin shauhar ki maut par chaar mahine das din ke sog ka hukm tha. Un dinon mein hum na surmah lagatein na khusbhoo aur Asb (Yemen ki bani hue ek chaadar jo rangeen bhi hoti thi) ke alawah koi rangeen kapda hum iste’maal nahi karti thien aur hamein (iddat ke dinon mein) haiz ke ghusl ke baad kust-e-azfaar iste’maal karne ki ijazat thi aur hamein janaaze ke peeche chalne se mana kiya jaata tha. Is Hadees ko Hishaam bin Hassan ne Hafsa se, unhon ne Umm-e-Atiyyah se, unhon ne Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se riwayat kiya hai.
Narrated Um-`Atiya: We were forbidden to mourn for a dead person for more than three days except in the case of a husband for whom mourning was allowed for four months and ten days. (During that time) we were not allowed to put kohl (Antimony eye power) in our eyes or to use perfumes or to put on colored clothes except a dress made of `Asr (a kind of Yemen cloth, very coarse and rough). We were allowed very light perfumes at the time of taking a bath after menses and also we were forbidden to go with the funeral procession .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 6, Number 310
نحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ولا نكتحل ولا نطيب ولا نلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب رخص لنا عند الطهر إذا اغتسلت إحدانا من محيضها في نبذة من كست أظفار وكنا ننهى عن اتباع الجنائز
ننهى أن نحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ولا نكتحل ولا نتطيب ولا نلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب رخص لنا عند الطهر إذا اغتسلت إحدانا من محيضها في نبذة من كست أظفار وكنا ننهى عن اتباع الجنائز
لا تحد امرأة على ميت فوق ثلاث إلا على زوج فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا ولا تلبس ثوبا مصبوغا ولا ثوب عصب ولا تكتحل ولا تمتشط ولا تمس طيبا إلا عند طهرها حين تطهر نبذا من قسط وأظفار
ننهى أن نحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ولا نكتحل ولا نتطيب ولا نلبس ثوبا مصبوغا رخص للمرأة في طهرها إذا اغتسلت إحدانا من محيضها في نبذة من قسط وأظفار
لا تحد على ميت فوق ثلاث إلا امرأة تحد على زوجها أربعة أشهر وعشرا ولا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب ولا تكتحل ولا تطيب إلا عند أدنى طهرها بنبذة من قسط أو أظفار
لا تحد المرأة فوق ثلاث إلا على زوج فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا ولا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب ولا تكتحل ولا تمس طيبا إلا أدنى طهرتها إذا طهرت من محيضها بنبذة من قسط أو أظفار
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:313
حدیث حاشیہ: 1۔ حیض کے خون میں زہریلا مادہ ہوتا ہے جس کے اخراج سے مخصوص محل کی جلد سکڑ جاتی ہے اوراس کی رنگت بھی بدل جاتی ہے۔ اس کی سکڑن کے ازالے ورتازگی کے اعادے کے لیے خوشبو کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت قسط ہندی کے استعمال سے پوری ہوجاتی ہے۔ غسل حیض کے بعد اس خوشبو کے استعمال کی اس حد تک تاکید ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اسے چار ماہ دس دن تک زینت اور خوشبو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، اسے بھی غسل حیض کے بعد خوشبو استعمال کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ خوشبو کااستعمال اس لیے بھی ضروری ہے کہ نفرت وکراہت دور ہوجائے اور آئندہ نماز وغیرہ کے وقت خون حیض کا تصور تکدر طبع کا باعث نہ ہو، لیکن ہمارے برصغیر (پاک وہند) کی بیشتر عورتیں اس امرنبوی کو نہ معلوم کیوں نظر انداز کر دیتی ہیں۔ 2۔ عصب اس یمنی کپڑے کو کہتے ہیں جس کے سوت میں پہلے گرہیں باندھ لی جاتی تھیں، پھر اسی حالت میں رنگنے کے بعد اس سے کپڑا بنادیاجاتاتھا، جہاں جہاں گرہیں ہوتیں وہاں رنگ نہیں چڑھتا تھا، بلکہ سادہ رہ جاتاتھا، غالباً اسی وجہ سے بعض حضرات نے اسے دھاری دار چادر سے تعبیر کیا ہے۔ حدیث نبوی کا مقصد حالت ِ عدت میں ان تمام کپڑوں کےپہننے کی ممانعت ہے جو بغرض زینت رنگے جاتے ہیں۔ ہاں ثوب عصب کی اجازت اس لیے دی کہ اس دور میں یہی عام لباس تھا۔ اگر یہی دھاری دار یمنی کپڑا اعلیٰ قسم کا باعث زینت ہوتو اسے بھی پہننے کی اجازت نہیں، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حالت سوگ میں عورت نہ رنگین کپڑا پہنے، نہ ثوب عصب پہنے اور نہ سرمہ لگائے۔ (سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3564) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ثوب عصب اگرباعث زینت ہوتواس کا زیب تن کرنا بھی سوگ والی کے لیے ممنوع ہوگا۔ 3۔ زمانہ جاہلیت میں عدت گزارنے کا یہ طریقہ تھا کہ عورت کو نہایت تنگ وتاریک کوٹھری میں سب سے الگ تھلگ ایک سال کے لیے مقید کردیا جاتا۔ اس دوران میں اسے غسل کی بھی اجازت نہ تھی۔ ایک سال کے بعد نہایت قبیح شکل وصورت کے ساتھ نکلتی تھی، پھر کسی پرندے کو عورت کے خاص خاص حصوں کے ساتھ مس کیا جاتا۔ اکثرحالات میں تعفن کی تاب نہ لاکر پرندہ مرجاتا، پھربکری کی مینگنی عورت کے ہاتھ میں دے دیتے تھے، جسے وہ اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیتی، گویا اس نے عدت کو پھینک دیا ہے۔ اسلام نے ان تمام رسوم کو خاتمہ کرکے نہایت معقول و مہذب شکل میں عدتِ سوگ کو باقی رکھا۔ 4۔ امام بخاری ؒ نے ہشام کی روایت کو آگے موصولاً بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5343) اس روایت میں وضاحت ہے کہ سوگ والی عورت جب حیض سے فارغ ہوتو نہانے کے بعد اسے کچھ کست اور اظفار کو استعمال کرناچاہیے۔ کست، قسط ہندی کو کہتے ہیں جسے عود یا لوبان بھی کہاجاتا ہے۔ اور اظفار ایک خوشبو دار لکڑی ہے جو ناخن کے مشابہ ہوتی ہے یا اس لکڑی کوناخن کی طرح کاٹ کرخوشبو میں استعمال کیاجاتا ہے اور اسے أظفارالطیب بھی کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے اسے ظفار پڑھاہے۔ اسے مراد یمن کا شہر ہے۔ وہاں سے عود ہندی کو درآمد کرکے عرب ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ غسل کے وقت ان خوشبوؤں میں سے کسی ایک کو استعمال کرے تاکہ بدبو کا ازالہ ہوجائے۔ (فتح الباري: 537/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 313
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3564
´سوگ منانے والی عورت رنگین کپڑے پہننے سے اجتناب کرے۔` ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت شوہر کے سوا کسی میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی، نہ رنگ کر کپڑا پہنے، نہ ہی رنگین دھاگے سے بنا ہوا کپڑا (پہنے)، نہ سرمہ لگائے، نہ کنگھی کرے، اور نہ خوشبو ملے۔ ہاں جب حیض سے پاک ہو تو اس وقت تھوڑے سے قسط و اظفار کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3564]
اردو حاشہ: (1)”شوخ رنگ دا“ یعنی جو کپڑا بننے کے بعد رنگا جائے۔ عموماً ایسا رنگ شوخ ہوتا ہے۔(2)”دھاری دارکپڑا“ اصل عربی لفظ ”ثَوْبَ عَصْبٍ“ استعمال کیا گیا ہے‘ یعنی وہ کپڑا جسے بننے سے پہلے رنگا جائے‘ حالانکہ ایسا کپڑا پہننا تو سوگ والی کے لیے جائز ہے جیسا کہ بخاری ومسلم میں صراحت ہے:] ۔اِلاَّ اَثَوْبَ عَصْبٍ [(صحیح البخاری‘ الحیض ‘حدیث:313‘ وصحیح مسلم‘ الطلاق‘ حدیث: 938‘ بعد: 149)تو یہاں ”وَلاَ ثَوْبَ عَصْبٍ“ فاش غلطی ہے کہ ”اِلاَّ“ کی بجائے”وَلاَ“ ہوگیا جس سے مفہوم بالکل الٹ ہوگیا ہے۔ نسائی کبریٰ نسائی میں”اِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ“ہی ہے۔ موجود الفاظ کا جواز مہیا کرنے کے لیے ترجمہ ”دھاری دا“ کیا گیا ہے کیونکہ دھاری دار کپڑے میں بھی خوشبو ہوتی ہے۔(3)”کچھ خوشبو لگاسکتی ہے“ یہ خوشبو زینت کے لیے نہیں بلکہ حیض کی بو ختم کرنے کے لیے ہے‘ نیز یہ خوشبو حیض والی جگہ پر لگائی جائے گی نہ کہ باقی جسم پ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3564
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2302
´عدت گزارنے والی عورت کو جن چیزوں سے بچنا چاہئے ان کا بیان۔` ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کسی پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے شوہر کے، وہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی (اس عرصہ میں) وہ سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنے، نہ سرمہ لگائے، اور نہ خوشبو استعمال کرے، ہاں حیض سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو (حیض کے مقام پر) استعمال کرے۔“ راوی یعقوب نے: ”سفید سیاہ دھاری دار کپڑے“ کے بجائے: ”دھلے ہوئے کپڑے“ کا ذکر کیا، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اور نہ خضاب لگائے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2302]
فوائد ومسائل: عورت خواہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، چھوٹی ہو یا بڑی، شوہر کی وفات پر اس کے لئے واجب ہے کہ چار ماہ دس دن تک مذکورہ امور کی پابندی کرے اور اس طرح سے سادگی اپنائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2302
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2087
´کیا شوہر کے علاوہ عورت دوسرے لوگوں کا سوگ منا سکتی ہے؟` ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی میت پہ تین دن سے زیادہ سوگ نہ منایا جائے البتہ بیوی اپنے شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے، رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، ہاں رنگین بنی ہوئی چادر اوڑھ سکتی ہے، سرمہ اور خوشبو نہ لگائے، مگر حیض سے پاکی کے شروع میں تھوڑا سا قسط یا اظفار (خوشبو) لگا لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2087]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1)(ثوب عصب) سے مراد خاص قسم کا کپڑا ہےجو یمن میں بنتا تھا۔ کاتے ہوئے سوت کو گرہ دے کر رنگا جاتا تھا۔ گرہ کے اندر رنگ اثر نہ کرتا‘ جب کھولتے تو کچھ دھاگا سفید ہوتا‘ کچھ رنگ دار۔ اس دھاگے سے جو کپڑ بنا جاتا تھا اس میں بھی سفیدی اور رنگ بے ترتیب انداز سے موجود ہوتے۔ اسے (ثوب عصب) کہتے تھے جس کا ترجمہ: ”کچھ سفید‘کچھ رنگین کپڑا“ کیا گیا۔
(2) عدت کے دوران اس قسم کا کپڑا پہننا جائز ہے کیونکہ اس میں سفید رنگ کافی مقدار میں موجود ہونے کی وجہ سے کپڑا شوخ رنگ کا نہیں رہتا۔
(3) عدت دوران خوشبو کا استعمال درست نہیں۔
(4) ماہواری کے غسل کے بعد خوشبو کا پھویا مقام مخصوص میں رکھنے کا مقصد یہ ہے جسم کی ناگوار بو ختم ہو جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2087
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3740
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت میت پر تین دن سے زائد سوگ نہ منائے، مگر خاوند پر چار ماہ اور دس دن (سوگ منائے) اور نہ رنگا ہوا کپڑا پہنے الا یہ کہ اس کا دھاگا ہی رنگا گیا ہو، اور نہ سرمہ لگائے، اور نہ کسی قسم کی خوشبو استعمال کرے، مگر جب حیض سے پاک ہو تو کچھ قسط یا اظفار نامی خوشبو استعمال کر لے (کیونکہ ان میں مہک نہیں ہوتی)۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3740]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رنگ دار کپڑے سے مراد وہ کپڑا ہے جس کے رنگ میں خوشبو کی آمیزش ہوتی ہے یا شوخ و شنگ ہونے کی بناپر وہ زیب و زینت کا باعث بنتا ہے پرانا رنگدار کپڑا جس میں خوبصورتی اور کشش باقی نہیں ہے اور نہ ہی وہ آرائش و زیبائش کے لیے ہوتا ہے اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3740
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5341
5341. سیدہ ام عطیہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں منع کیا جاتا تھا کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوائے خاوند کے کیونکہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے نیز دوران سوگ میں نہ ہم سرمہ لگاتیں نہ خوشبو استعمال کرتیں اور نہ رنگا ہوا کپڑا ہی پہنتیں۔ ہاں وہ کپڑا استعمال کرنے کی اجازت تھی جس کا دھاگا بننے سے پہلے ہی سے رنگ دیا ہو۔ ہمیں اس کی بھی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض سے پاک ہوتی تو اظفار کی تھوڑی سے کستوری استعمال کرے، نیز ہمیں جنازے کے پیچھے جانے سے روکا جاتا تھا ابو عبداللہ (حضرت امام بخاری ؓ) نے فرمایاٰ: ''القسط'' اور ''الکست'' ایک ہی چیز ہیں، جیسے ''الکافور'' اور ''القافور'' (دونوں ایک ہیں)۔ ''نبذہ'' کے معنی ہیں ٹکڑا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5341]
حدیث حاشیہ: عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا اس لیے منع ہے کہ عورتیں کمزور دل اور بے صبر ہوتی ہیں۔ اس صورت میں ان سے خلاف شرع امور کا ارتکاب ممکن ہے اس لیے شرع شریف نے ابتدا ہی میں عورتوں کو اس سے روک دیا۔ اسی لیے عورتوں کا قبرستان میں جانا منع ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5341
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5340
5340. سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں شوہر کے علاوہ کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کیا گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5340]
حدیث حاشیہ: (1) اگرچہ اس روايت میں سرمہ لگانے کی ممانعت کا ذکر نہیں ہے، تاہم اسی حدیث کے دوسرے طریق میں اس کی صراحت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ وہ نہ سرمہ لگائے اور نہ خوشبو ہی استعمال کرے۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 313) ایک روایت میں ہے کہ سوگ منانے والی عورت مہندی بھی نہ لگائے۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2302) ایک روایت میں ہے کہ وہ بالوں میں کنگھی بھی نہ کرے۔ (سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3564)(2) واضح رہے کہ سوگ منانے کی چار ماہ دس دن تک پابندی صرف اس عورت کے لیے ہے حاملہ نہ ہو، اگر حمل سے ہے تو وضع حمل تک سوگ منائے گی جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5340
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5341
5341. سیدہ ام عطیہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں منع کیا جاتا تھا کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوائے خاوند کے کیونکہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے نیز دوران سوگ میں نہ ہم سرمہ لگاتیں نہ خوشبو استعمال کرتیں اور نہ رنگا ہوا کپڑا ہی پہنتیں۔ ہاں وہ کپڑا استعمال کرنے کی اجازت تھی جس کا دھاگا بننے سے پہلے ہی سے رنگ دیا ہو۔ ہمیں اس کی بھی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض سے پاک ہوتی تو اظفار کی تھوڑی سے کستوری استعمال کرے، نیز ہمیں جنازے کے پیچھے جانے سے روکا جاتا تھا ابو عبداللہ (حضرت امام بخاری ؓ) نے فرمایاٰ: ''القسط'' اور ''الکست'' ایک ہی چیز ہیں، جیسے ''الکافور'' اور ''القافور'' (دونوں ایک ہیں)۔ ''نبذہ'' کے معنی ہیں ٹکڑا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5341]
حدیث حاشیہ: (1) سوگ منانے والی عورت کو شرعاً حکم دیا گیا ہے کہ وہ زیب و زینت نہ کرے۔ چونکہ خوشبو بھی زینت کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس لیے اس کے استعمال پر بھی پابندی ہے جیسا کہ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ لیکن حیض سے پاک ہونے کے بعد ناگواری کے اثرات دور کرنے کے لیے محدود پیمانے پر اس کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ (2) علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: "قسط" کی دو قسمیں مشہور ہیں جو دھونی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ جب انہیں کسی دوسری اشیاء کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو خوشبو تیار ہوتی ہے، پھر اسے سوگ والی عورت کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔ اسی طرح کی دوسری چیزیں جن سے مقصود زیب و زینت یا خوشبو نہ ہو، انہیں استعمال کرنا جائز ہے جیسا کہ سر میں سرسوں کا تیل لگایا جاتا ہے یا سادہ صابن سے نہایا جاتا ہے، انہیں سوگ والی عورت بھی استعمال کر سکتی ہے۔ (فتح الباري: 609/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5341