ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے بیان کیا کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو) ہم سب بچے ثنیۃ الوداع تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے گئے تھے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3083
حدیث حاشیہ: مجاہدین کا واپسی پر پر خلوص استقبال کرنا سنت ہے۔ حضرت امام ؒ اسی مقصد کو بیان فرما رہے ہیں۔ مدینہ کے قریب ایک گھاٹی تک لوگ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے جایا کرتے تھے۔ اسی کا نام ثنیۃ الوداع قرار دیا۔ غزوہ تبوک کی تفصیلات کتاب المغازی میں آئیں گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3083
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3083
حدیث حاشیہ: 1۔ اس ثنیۃ الوداع سے مراد وہ جہت ہے جو مدینہ طیبہ سے تبوک کی طرف ہے کیونکہ جامع ترمذی میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس آئے توآپ کے استقبال کے لیے وہ ثنیۃ الوداع تک گئے۔ حضرت سائب کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ تھا اور میں اس وقت کم عمربچہ تھا۔ (جامع الترمذي، الجھاد، حدیث: 1718) 2۔ مدینہ طیبہ کے چاروں طرف ثنیات الوداع ہیں کیونکہ پہاڑ کے نشیب میں واقع راستے کو ثنیہ کہا جاتا ہے۔ جب لوگ کسی کو الوداع کرنے جاتے تو ان مقامات تک جاتے،اس لیے ان جگہوں کو ثنیۃ الوداع کہتے تھے۔ (عمدة القاري: 414/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3083