170. بَابُ هَلْ يَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ يَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ:
170. باب: اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا۔
(170) Chapter. Can a man present himself to captivity, and whosoever refuses to surrender to captivity? And the performance of a two Rak‘a Salat (prayer) before being put to death.
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent a Sariya of ten men as spies under the leadership of `Asim bin Thabit al-Ansari, the grandfather of `Asim bin `Umar Al-Khattab. They proceeded till they reached Hadaa, a place between 'Usfan, and Mecca, and their news reached a branch of the tribe of Hudhail called Bani Lihyan. About two-hundred men, who were all archers, hurried to follow their tracks till they found the place where they had eaten dates they had brought with them from Medina. They said, "These are the dates of Yathrib (i.e. Medina), "and continued following their tracks When `Asim and his companions saw their pursuers, they went up a high place and the infidels circled them. The infidels said to them, "Come down and surrender, and we promise and guarantee you that we will not kill any one of you" `Asim bin Thabit; the leader of the Sariya said, "By Allah! I will not come down to be under the protection of infidels. O Allah! Convey our news to Your Prophet. Then the infidels threw arrows at them till they martyred `Asim along with six other men, and three men came down accepting their promise and convention, and they were Khubaib-al-Ansari and Ibn Dathina and another man So, when the infidels captured them, they undid the strings of their bows and tied them. Then the third (of the captives) said, "This is the first betrayal. By Allah! I will not go with you. No doubt these, namely the martyred, have set a good example to us." So, they dragged him and tried to compel him to accompany them, but as he refused, they killed him. They took Khubaid and Ibn Dathina with them and sold them (as slaves) in Mecca (and all that took place) after the battle of Badr. Khubaib was bought by the sons of Al-Harith bin 'Amir bin Naufal bin `Abd Manaf. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amir on the day (of the battle of) Badr. So, Khubaib remained a prisoner with those people. Narrated Az-Zuhri: 'Ubaidullah bin 'Iyyad said that the daughter of Al-Harith had told him, "When those people gathered (to kill Khubaib) he borrowed a razor from me to shave his pubes and I gave it to him. Then he took a son of mine while I was unaware when he came upon him. I saw him placing my son on his thigh and the razor was in his hand. I got scared so much that Khubaib noticed the agitation on my face and said, 'Are you afraid that I will kill him? No, I will never do so.' By Allah, I never saw a prisoner better than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating of a bunch of grapes in his hand while he was chained in irons, and there was no fruit at that time in Mecca." The daughter of Al-Harith used to say, "It was a boon Allah bestowed upon Khubaib." When they took him out of the Sanctuary (of Mecca) to kill him outside its boundaries, Khubaib requested them to let him offer two rak`at (prayer). They allowed him and he offered Two rak`at and then said, "Hadn't I been afraid that you would think that I was afraid (of being killed), I would have prolonged the prayer. O Allah, kill them all with no exception." (He then recited the poetic verse):-- "I being martyred as a Muslim, Do not mind how I am killed in Allah's Cause, For my killing is for Allah's Sake, And if Allah wishes, He will bless the amputated parts of a torn body" Then the son of Al Harith killed him. So, it was Khubaib who set the tradition for any Muslim sentenced to death in captivity, to offer a two-rak`at prayer (before being killed). Allah fulfilled the invocation of `Asim bin Thabit on that very day on which he was martyred. The Prophet informed his companions of their news and what had happened to them. Later on when some infidels from Quraish were informed that `Asim had been killed, they sent some people to fetch a part of his body (i.e. his head) by which he would be recognized. (That was because) `Asim had killed one of their chiefs on the day (of the battle) of Badr. So, a swarm of wasps, resembling a shady cloud, were sent to hover over `Asim and protect him from their messenger and thus they could not cut off anything from his flesh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 281
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7402
7402. سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد، بنو زہرہ قبیلے کے حلیف سیدنا اسید بن جاریہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے دس صحابہ کرام کو کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان میں سیدنا خبیب ؓ بھی تھے۔ حارث کی بیٹی نے بتایا کہ جب حارث کے بیٹوں نے انہیں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو سیدنا خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کریں۔ جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو سیدنا خبیب انصاری ؓ نے یہ شعر پڑھے۔ جب مسلمان بن کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا ڈر ہے کس کروٹ کروں میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑے پر وہ برکت دے فزوں۔ پھر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے اسے قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اُسی دن اطلاع کر دی جس دن یہ حضرات شہید کیے گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7402]
حدیث حاشیہ:
بنو لحیان کے دو سو آدمیوں نے ان کو گھیر لیا۔
سات بزرگ شہید ہو گئے تین کو قید کر کے لے چلے۔
ان ہی میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے جسے بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک ان کو قید رکھ کر قتل کیا۔
حضرت مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا ترجمہ یوں کیا ہے جب مسلماں بن کے دنیا سے چلو ں مجھ کو کیا ڈر ہے کسی کروٹ گروں میرا مرنا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑوں پر وہ برکت دے فزوں
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7402
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7402
7402. سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد، بنو زہرہ قبیلے کے حلیف سیدنا اسید بن جاریہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے دس صحابہ کرام کو کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان میں سیدنا خبیب ؓ بھی تھے۔ حارث کی بیٹی نے بتایا کہ جب حارث کے بیٹوں نے انہیں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو سیدنا خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کریں۔ جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو سیدنا خبیب انصاری ؓ نے یہ شعر پڑھے۔ جب مسلمان بن کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا ڈر ہے کس کروٹ کروں میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑے پر وہ برکت دے فزوں۔ پھر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے اسے قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اُسی دن اطلاع کر دی جس دن یہ حضرات شہید کیے گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7402]
حدیث حاشیہ:
1۔
بنولحیان نے ان دس جاں نثار کو اپنے گھیرے میں لے کر سات کو شہید کر دیا اور تین کو قید کرکے لے گئے۔
ان قیدیوں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جنھیں بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک انھیں قید رکھنے کے بعد شہید کیا۔
اس واقعے کی تفصیل خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کی ہے۔
(صحیح البخار، المغازي، حدیث: 4086)
2۔
اس حدیث میں لفظ ذات اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ بطور مضاف استعمال ہوا ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا، اگر غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار کر دیتے، اسی طرح احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین دفعہ خلاف واقعہ بات کی، ان میں سے دو مرتبہ تواللہ کی ذات کے متعلق تھی۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء علیہم السلام، حدیث: 3358)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرچیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرو لیکن اللہ کی ذات کے متعلق اس انداز سے غوروخوض نہ کرو۔
اس کی سند بھی جید ہے۔
(الأسماء والصفات للبیهقي: 420 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 346/4)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب سے افضل اسلام اس مومن کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اورافضل جہاد اس شخص کا ہے:
(منْ جاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذاتِ اللّٰہ)
”جس نے اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔
۔
۔
“ (بدائع الفوائد: 7/2)
3۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذات کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی صفات ہوں، پھر اسے ان صفات کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔
نحوی حضرات نے اگرچہ یہ اعتراض کیا ہے کہ لفظ ذات معرفہ استعمال نہیں ہوتا، تاہم اسے کسی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے معرفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
متکلمین کی اپنی اصطلاح ہے جس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 243/1)
بہر حال لفظ ذات کا استعمال باری تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور اس سے مراد نفس شے کا بیان ہے، یعنی بذات خود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات اور صفات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 470/13)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ آیت کریمہ میں نفس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: 199/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7402