(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن هشام بن عروة، قال: اخبرني ابي، قال: اخبرني ابو ايوب، قال: اخبرني ابي بن كعب، انه قال: يا رسول الله، إذا جامع الرجل المراة فلم ينزل؟ قال:" يغسل ما مس المراة منه، ثم يتوضا ويصلي"، قال ابو عبد الله: الغسل احوط وذاك الآخر، وإنما بينا لاختلافهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَلَمْ يُنْزِلْ؟ قَالَ:" يَغْسِلُ مَا مَسَّ الْمَرْأَةَ مِنْهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْغَسْلُ أَحْوَطُ وَذَاكَ الْآخِرُ، وَإِنَّمَا بَيَّنَّا لِاخْتِلَافِهِمْ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے ہشام بن عروہ سے، کہا مجھے خبر دی میرے والد نے، کہا مجھے خبر دی ابوایوب نے، کہا مجھے خبر دی ابی بن کعب نے کہ انھوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! جب مرد عورت سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے جو کچھ اسے لگ گیا اسے دھو لے پھر وضو کرے اور نماز پڑھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا غسل میں زیادہ احتیاط ہے اور یہ آخری احادیث ہم نے اس لیے بیان کر دیں (تاکہ معلوم ہو جائے کہ) اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور پانی (سے غسل کر لینا ہی) زیادہ پاک کرنے والا ہے۔ (نوٹ: یہ اجازت ابتداء اسلام میں تھی بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا)۔
Hum se Musaddad ne bayan kiya, kaha hum se Yahya ne Hishaam bin ’Urwah se, kaha mujhe khabar di mere waalid ne, kaha mujhe khabar di Abu Ayyub ne, kaha mujhe khabar di Ubai bin Ka’b ne ke unhon ne poocha: Ya Rasoolullah! Jab mard aurat se jima’ kare aur inzaal na ho to kya kare? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya aurat se jo kuch use lag gaya use dho le phir Wuzu kare aur Namaz padhe. Abu Abdullah (Imam Bukhari Rahimahullah) ne kaha ghusl mein ziyada ehtiyaat hai aur yeh aakhiri Ahadees hum ne is liye bayan kar dein (taaki ma’loom ho jaaye ke) is masle mein ikhtilaaf hai aur paani (se ghusl kar lena hi) ziyada paak karne waala hai. (Note: Yeh ijazat ibtida-e-Islam mein thi baad mein yeh hukm mansookh ho gaya).
Narrated Ubai bin Ka`b: I asked Allah's Apostle about a man who engages in sexual intercourse with his wife but does not discharge. He replied, "He should wash the parts which comes in contact with the private parts of the woman, perform ablution and then pray." (Abu `Abdullah said, "Taking a bath is safer and is the last order.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 292
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 293
� تشریح: یعنی غسل کر لینا بہرصورت بہتر ہے۔ اگر بالفرض واجب نہ بھی ہو تو یہی فائدہ کیا کم ہے کہ اس سے بدن کی صفائی ہو جاتی ہے۔ مگر جمہور کا یہی فتویٰ ہے کہ عورت مرد کے ملاپ سے غسل واجب ہو جاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ دخول کی وجہ سے ذکر میں عورت کی فرج سے جو تری لگ گئی ہو اسے دھونے کا حکم دیا۔
«قال ابن حجر فى الفتح وقدذهب الجمهور الي ان حديث الاكتفاءبالوضوء منسوخ وروي ابن ابي شيبة وغيره عن ابن عباس انه حمل حديث الماءمن الماءعلي صورة مخصوصة مايقع من روية الجماع وهى تاويل يجمع بين الحديثين بلاتعارض.» یعنی علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ جمہور اس طرف گئے ہیں کہ یہ احادیث جن میں وضو کو کافی کہا گیا ہے یہ منسوخ ہیں۔ اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ «حديث الماءمن الماء» خواب سے متعلق ہے۔ جس میں جماع دیکھا گیا ہو، اس میں انزال نہ ہو تو وضو کافی ہو گا۔ اس طرح دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے اور کوئی تعارض نہیں باقی رہتا۔
لفظ جنابت کی لغوی تحقیق سے متعلق حضرت نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں: «وجنب درمصفي گفته مادئه جنب دلالت بربعد ميكند وچوں جماع درمواضع بعيده دمستوره ميشود الخ» یعنی لفظ «جنب» کے متعلق مصفی شرح مؤطا میں کہا گیا ہے کہ اس لفظ کا مادہ دور ہونے پر دلالت کرتا ہے جماع بھی پوشیدہ اور لوگوں سے دور جگہ پر کیا جاتا ہے، اس لیے اس شخص کو جنبی کہا گیا، اور جنب کو جماع پر بولا گیا۔ بقول ایک جماعت جنبی تا غسل عبادت سے دور ہو جاتا ہے اس لیے اسے جنب کہا گیا۔ غسل جنابت شریعت ابراہیمی میں ایک سنت قدیمہ ہے جسے اسلام میں فرض اور واجب قرار دیا گیا۔ جمعہ کے دن غسل کرنا پچھنا لگوا کر غسل کرنا، میت کو نہلا کر غسل کرنا مسنون ہے۔ رواہ داؤد والحاکم
جو شخص اسلام قبول کرے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے غسل کرے پھر مسلمان ہو۔ [مسك الختام، شرح بلوغ المرام، جلداول، ص: 170]
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 293
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 293
تخريج الحديث: [197۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 29 باب غسل ما يصيب من فرج المرأة 293، مسلم 346، ابن حبان 1169] فھم الحدیث: اس سے معلوم ہوا کہ عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت نجس ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھونے کا حکم دیا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 197
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 779
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے، اس انسان کے بارے میں پوچھا، جو اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے، پھر اسے انزال نہیں ہوتا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ”بیوی سے اسے جو کچھ لگ جائے، اس کو دھو لے، پھر وضو کر کے نماز پڑھ لے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:779]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: اقحاط: اور اكسال دونوں سے مراد عدم انزال ہے۔