86. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ كَسْرَ السِّلاَحِ عِنْدَ الْمَوْتِ:
86. باب: کسی کی موت پر اس کے ہتھیار وغیرہ توڑنے درست نہیں۔
(86) Chapter. Whoever dose not consider it logical to break the weapons and to slaughter the animals of the deceased.
Narrated `Amr bin Al-Harith: The Prophet did not leave behind him after his death, anything except his arms, his white mule, and a piece of land at Khaibar which he left to be given in charity .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 160
● صحيح البخاري | 2739 | عمرو بن الحارث | ما ترك رسول الله عند موته درهما ولا دينارا ولا عبدا ولا أمة ولا شيئا إلا بغلته البيضاء وسلاحه وأرضا جعلها صدقة |
● صحيح البخاري | 3098 | عمرو بن الحارث | إلا سلاحه وبغلته البيضاء وأرضا تركها صدقة |
● صحيح البخاري | 2912 | عمرو بن الحارث | إلا سلاحه وبغلة بيضاء وأرضا جعلها صدقة |
● صحيح البخاري | 2873 | عمرو بن الحارث | إلا بغلته البيضاء وسلاحه وأرضا تركها صدقة |
● صحيح البخاري | 4461 | عمرو بن الحارث | ما ترك رسول الله دينارا ولا درهما ولا عبدا ولا أمة إلا بغلته البيضاء التي كان يركبها وسلاحه وأرضا جعلها لابن السبيل صدقة |
● سنن النسائى الصغرى | 3626 | عمرو بن الحارث | ما ترك إلا بغلته الشهباء وسلاحه وأرضا تركها صدقة |
● سنن النسائى الصغرى | 3625 | عمرو بن الحارث | ما ترك رسول الله إلا بغلته البيضاء وسلاحه وأرضا تركها صدقة |
● سنن النسائى الصغرى | 3624 | عمرو بن الحارث | ما ترك رسول الله دينارا ولا درهما ولا عبدا ولا أمة إلا بغلته الشهباء التي كان يركبها وسلاحه وأرضا جعلها في سبيل الله |
● بلوغ المرام | 1233 | عمرو بن الحارث | ما ترك رسول الله عند موته درهما ولا دينارا ولا عبدا ولا امة ولا شيئا |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2912
حدیث حاشیہ:
عرب جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جب کسی قبیلہ کا سردار یا قبیلہ کا کوئی بہادر مر جاتا تو اس کے ہتھیار توڑ دئیے جاتے، یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ اب ان ہتھیاروں کا حقیقی معنوں میں کوئی اٹھانے والا باقی نہیں رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ اسلام میں ایسا عمل ہرگز جائز نہیں۔
رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کے ہتھیار وغیرہ سب باقی رکھے گئے۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا امام بخاریؒ نے یہ باب لا کر اشارہ کیا کہ شریعت اسلامی میں یہ کام منع ہے کیونکہ اس میں عمل کا ضائع کرنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2912
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2912
حدیث حاشیہ:
1۔
اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے دور جاہلیت کے ایک رواج کی تردید مقصود ہے۔
ان کا دستور تھا کہ جب کسی قبیلے کا سردار یا بہادر آدمی مر جاتا۔
تو اس کے ہتھیار توڑدیے جاتے۔
یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ اب ان ہتھیاروں کو حقیقی معنوں میں کوئی استعمال کرنے والا نہیں رہا۔
اسلام نے اس عمل کو باطل قراردیا۔
کیونکہ اس میں ضیاع کا پہلو نمایاں ہے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے ہتھیاروں کو توڑا نہیں گیا بلکہ انھیں باقی رکھا گیا تاکہ انھیں بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکے۔
بہر حال اسلام نے اس قسم کے آثار جاہلیت کو برقرار نہیں رکھا بلکہ انھیں بالکل ہی ختم کردیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2912
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1233
´مدبر، مکاتب اور ام ولد کا بیان`
سیدنا عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ، ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم میراث میں چھوڑا اور نہ دینار اور نہ کوئی غلام اور نہ لونڈی اور نہ کوئی اور چیز بس ایک سفید خچر، اپنا اسلحہ جنگ اور کچھ تھوڑی سی زمین جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کر دیا تھا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1233»
تخریج: «أخرجه البخاري، الوصايا، باب الوصايا، حديث:2739، 4461.»
تشریح:
اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رغبتی ثابت ہوتی ہے کیونکہ تریسٹھ کے لگ بھگ لونڈیاں اور غلام آپ کے قبضے میں آئے۔
آپ نے ان سب کو آزاد کر دیا اور اپنے پیچھے کوئی میراث نہیں چھوڑی بلکہ آپ نے فرمایا:
”انبیاء علیہم السلام درہم و دینار میراث میں نہیں چھوڑتے‘ جو مالی ترکہ چھوڑتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔
“ (مسند أحمد:۲ /۴۶۳‘ وصحیح البخاري‘ الوصایا‘ حدیث:۲۷۷۶‘ و ۳۰۹۶)
راویٔ حدیث: «حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ» عمرو بن حارث بن ابی ضرار بن حبیب خزاعی مصطلقی‘ یعنی قبیلہ بنوخزاعہ کی شاخ بنو مصطلق سے تھے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
ان سے یہی ایک حدیث مروی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1233
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3624
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وفات کے وقت کیا کیا چیزیں چھوڑیں؟`
عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے) اور انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اپنے سفید خچر کے جس پر سوار ہوا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار کے اور زمین کے جسے اللہ کے راستہ میں دے دیا تھا کچھ نہ چھوڑا تھا نہ دینار نہ درہم نہ غلام نہ لونڈی، (مصنف) کہتے ہیں (میرے استاذ) قتیبہ نے دوسری بار یہ بتایا کہ زمین کو صدقہ کر دیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3624]
اردو حاشہ:
(1) رسول اللہﷺ نے ساری زندگی جائیداد نہیں بنائی‘ صرف کھایا پیا اور ضرورت واستعمال کی چیزیں رکھیں جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہورہا ہے۔ ضرورت واستعمال کی چیزوں کے بارے میں بھی آپ نے صراحت فرما دی تھی کہ میری وفات کے بعد وہ چیزیں بیت المال میں چلی جائیں گی اور ان کا مفاد بھی سب مسلمانوں کو ہوگا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز عمل رہا ہے تاکہ کوئی نابکار یہ نہ کہہ سکے کہ انبیاء نے نبوت کا کھڑاک مال اکٹھا کرنے کے رچایا تھا۔ نعوذ باللہ من ذالك۔ اسی اصول کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی متروکہ زمین تقسیم نہیں کی گئی بلکہ بیت المال میں رہی۔ فداہ نفسي وروحي وأبي وأميﷺ۔
(2) اگر وقف کا کوئی ناظم مقرر نہ کیا گیا ہو تو وہ بیت المال میں داخل ہوگا اور حاکم وقت اس کا ناظم ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3624
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3098
3098. حضرت عمرو بن حارث ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے وفات کے بعد اپنے ہتھیار، ایک سفید خچر اور کچھ زمین کے سوا کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ آپ ﷺ زمین بھی خود صدقہ کر گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3098]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب حدیث کے الفاظ وارضا ترکھا صدقۃ سےنکلا۔
کیونکہ ازواج مطہرات کا خرچہ اسی زمین سے دیا جاتا تھا۔
جس کو آپ صدقہ فرماگئے تھے۔
مزید تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3098
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2873
2873. حضرت عمرو بن حارث ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (وفات کے وقت) صرف اپنا سفید خچر، اپنے ہتھیار اور وہ زمین چھوڑی تھی جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2873]
حدیث حاشیہ:
یہی خچر ہے جو دلدل کے نام سے مشہور ہوا۔
آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی یہ خچر زندہ رہا تھا۔
زمین کیا تھی فدک کا آدھا حصہ اور وادی القریٰ کا تہائی حصہ اور خیبر کی خمس میں سے آپ کا حصہ اور بنی نفیر میں سے جو آپؐ نے چن لی تھی۔
ان ہی چیزوں کو حضرت فاطمہ زہراء ؓنے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ان کی خلافت کے زمانہ میں مانگا۔
حضرت صدیق اکبر ؓنے یہ حدیث سنائی کہ آنحضرتﷺ فرما چکے ہیں ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں ہمارے بعد وہ خیرات ہے۔
آپؐ کا حقیقی ورثہ علوم کتاب و سنت کا لافانی خزانہ ہے جس کے حاصل کرنے کی عام اجازت ہی نہیں بلکہ تاکید شدید ہے۔
اسی لئے علمائے اسلام کو مجازی طور پر آپؐ کے خلفاء سے موسوم کیا گیا ہے جن کے لئے آپؐ نے دعائیں بھی پیش فرمائی ہیں۔
اللہ پاک ہم سب اس مقدس کتاب بخاری شریف پڑھنے پڑھانے والوں کا شمار اسی جماعت میں کر لے۔
(آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2873
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2739
2739. حضرت عمرو بن حارث ؓ سے روایت ہے جو رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتہ دار اور حضرت جویریہ بنت حارث ؓکے بھائی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے وفات کے وقت نہ کوئی درہم و دینار، نہ کوئی غلام لونڈی اور نہ کوئی اور چیز ہی چھوڑی۔ صرف ایک سفید خچر، ہتھیار اور کچھ زمین چھوڑی جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2739]
حدیث حاشیہ:
(1)
وہ زمین جسے رسول اللہ ﷺ نے بحالت صحت وقف کر دیا تھا وہ خیبر میں واقع تھی جیسا کہ صحیح بخاری ہی میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2912)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کی پیداوار مسافروں کے لیے وقف کر دی تھی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4461) (2)
وقف کا اثر بھی وصیت کی طرح مرنے کے بعد جاری رہتا ہے، اس لیے وقف کو وصیت کے تحت ذکر کیا ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کا کوئی ترکہ ایسا نہیں تھا جو قابل وصیت ہو، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے وفات کے وقت نہ کوئی درہم و دینار، نہ کوئی اونٹ بکری چھوڑی اور نہ آپ نے کسی قسم کی (مالی)
وصیت ہی فرمائی۔
(صحیح مسلم، الوصیة، حدیث: 4229(1635)
رسول اللہ ﷺ کا وفات کے وقت کوئی مال نہ تھا اور نہ وصیت ہی ہوئی، البتہ کتاب اللہ کی اتباع کے متعلق ضرور وصیت فرمائی جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2739
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2873
2873. حضرت عمرو بن حارث ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (وفات کے وقت) صرف اپنا سفید خچر، اپنے ہتھیار اور وہ زمین چھوڑی تھی جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2873]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرات انبیاء ؑ کے ترکے میں اثبات جاری نہیں ہوتی بلکہ وہ امت کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓنے فدک کی زمین کو وارثت بنانے سے معذرت کر لی تھی۔
2۔
واضح رہے کہ حضرت عمرو بن حارث ؓحضرت جویریہ ؓکے بھائی ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2873
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3098
3098. حضرت عمرو بن حارث ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے وفات کے بعد اپنے ہتھیار، ایک سفید خچر اور کچھ زمین کے سوا کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ آپ ﷺ زمین بھی خود صدقہ کر گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3098]
حدیث حاشیہ:
1۔
زمین سے مراد بنو نضیر فدک اور خیبر کی زمین ہے جس کی پیداوار سے ازواج مطہرات ؓ کا خرچ نکال کر باقی مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔
2۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات ؓ کا خرچ رسول اللہ ﷺ کی چھوڑی ہوئی زمین سے پورا کیا جاتا تھا جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3098
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4461
4461. حضرت عمرو بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے نہ دینار نہ درہم اور نہ کوئی لونڈی اور غلام چھوڑا، صرف ایک سفید خچر تھا جس پر آپ سواری فرمایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہتھیار اور زمین چھوڑی تھی جسے آپ نے مسافروں کے لیے صدقہ کر دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4461]
حدیث حاشیہ:
راوی حدیث حضرت عمرو بن حارث ؓ ام المومنین حضرت جویریہ ؓ کے بھائی ہیں۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصودیہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خلافت وغیرہ کے متعلق کسی کو کوئی وصیت نہیں کی، اگر وصیت کی ہے تو اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی ہے یا اپنے چھوڑے ہوئے مال کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرا سارا مال صدقہ ہو گا۔
اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
اس حدیث کی تشریح ہم کتاب الوصایا کے آغاز میں کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4461