(مرفوع ، موقوف) وعن حبيب بن ابي عمرة، عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة ام المؤمنين، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ساله نساؤه عن الجهاد، فقال: نعم الجهاد الحج".(مرفوع ، موقوف) وَعَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَأَلَهُ نِسَاؤُهُ عَنِ الْجِهَادِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْجِهَادُ الْحَجُّ".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے معاویہ نے یہی حدیث اور ابوسفیان نے حبیب بن ابی عمرہ سے یہی روایت کی جو عائشہ بنت طلحہ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے ہے (اس میں ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ازواج مطہرات نے جہاد کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج بہت ہی عمدہ جہاد ہے۔
Narrated `Aisha: the mother of the faithful believers: The Prophet was asked by his wives about the Jihad and he replied, "The best Jihad (for you) is (the performance of) Hajj."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 128
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2876
حدیث حاشیہ: سفر حج بس عورتوں کے لئے جہاد سے کم نہیں ہے مگر خود جہاد میں بھی عورتوں کی شرکت ثابت ہے بلکہ بحری جہاد کے لئے ایک اسلامی خاتون کے لئے آنحضرتﷺ کی پیش گوئی موجود ہے جس کے پیش نظر مجتہد مطلق حضرت امام بخاریؒ نے نیچے عورتوں کا بحری جہاد میں شریک ہونے کا باب منعقد فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2876
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2876
حدیث حاشیہ: مذکورہ عنوان کے دومعنی ہیں: ایک یہ عورتوں کا جہاد کیا ہے؟ دوسرا عورتوں کے لیے جہاد کا جواز ثابت کرنا ہے۔ یہ دونوں روایات اس پردلالت کرتی ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺنے سائلہ کے سوال پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس لیے عورتوں کا جہاد آپ کی خاموشی سے ثابت ہوا لیکن اس جواز کوعدم فتنہ سے مشروط کیا جائے گا۔ اگر کوئی عورت جہاد میں شریک نہ ہو سکے۔ بلکہ وہ صرف حج کرتی ہے تو اس سفر میں اسے جہاد ہی کا ثواب دیا جائے گاکیونکہ سفر حج عورتوں کے لیے جہاد سے کم نہیں البتہ عورتوں کا جہاد میں جانا بھی احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ آئندہ عنوان کے تحت اسے بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2876
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 580
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں! ان پر وہ جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں (یعنی) حج اور عمرہ۔“ اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 580]
580 لغوی تشریح: «عَلَي النَّسَاءِ جِهَادٌ» کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ اس میں حرف استفہام محذوف ہے اور حج و عمرہ پر جہاد کا اطلاق مجازاً ہے کیونکہ ان میں بھی جہاد کی طرح مشقت و تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ آپ نے بڑے حکیمانہ اسلوب میں جواب دیا۔ «وَاَصَلُهُ فِي الصَّحِيحِ» اس کی اصل صحیح میں ہے۔ صحیح سے یہاں صحیح بخاری مراد ہے۔ یہ حدیث عمرے کے وجوب کی دلیل ہے۔٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 580
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1082
´(جہاد کے متعلق احادیث)` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا خواتین پر بھی جہاد ہے؟ فرمایا ” ہاں! جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں۔ اور وہ ہے حج اور عمرہ۔“ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1082»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، المناسك، باب الحج جهاد النساء، حديث:2901، والبخاري، الجهاد، حديث:2875.»
تشریح: 1. اس حدیث میں مذکور ہے کہ خواتین کا جہاد‘ قتال کرنا نہیں بلکہ ان کے لیے حج اور عمرہ جہاد ہے۔ 2.جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں‘ مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ حج و عمرہ میں بھی ان مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے‘ اس لیے خواتین کو حج و عمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے‘ اسی بنا پر حج و عمرہ کو خواتین کے لیے جہاد قرار دیا گیا ہے‘ گویا خواتین پر جہاد بالسیف فرض نہیں‘ اس کا ثواب انھیں حج اور عمرہ ادا کرنے سے مل جاتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1082
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2901
´حج عورتوں کا جہاد ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن ان پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج اور عمرہ ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2901]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جہاد قتال عورتوں پر فرض نہیں۔
(2) عورتوں کے لیے حج اور عمرے کی اتنی اہمیت ہے جتنی مردوں کے لیے جہاد کی۔
(3) حج وعمرہ کو عورتوں کا جہاد اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں بھی اللہ کی رضا کے لیے سفر کی مشقت برداشت کی جاتی ہے مال خرچ کیا جاتا ہے اور کئی طرح کی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2901
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2875
2875. ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”تمہارا جہاد حج ہے۔“(راوی حدیث) عبداللہ بن ولید نے کہا: ہم سے سفیان نے انھوں نے معاویہ سے یہ حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2875]
حدیث حاشیہ: یہ امام وقت کی بصیرت پر موقوف ہے کہ وہ جنگی کوائف کی بنا پر عورتوں کی شرکت ضروری سمجھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی مسلمان عورت جہاد میں نہ شریک ہوسکے بلکہ وہ حج ہی کرسکتی ہے تو اس سفر میں اس کے لئے بھی اس کو جہاد ہی کا ثواب ملے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2875