(مرفوع) حدثنا مسلم، حدثنا ابو عقيل، حدثنا ابو المتوكل الناجي، قال: اتيت جابر بن عبد الله الانصاري، فقلت له حدثني بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سافرت معه في بعض اسفاره، قال ابو عقيل: لا ادري غزوة او عمرة فلما ان اقبلنا، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من احب ان يتعجل إلى اهله فليعجل، قال جابر: فاقبلنا وانا على جمل لي ارمك ليس فيه شية والناس خلفي فبينا انا كذلك إذ قام علي، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم يا جابر استمسك فضربه بسوطه ضربة فوثب البعير مكانه، فقال: اتبيع الجمل، قلت: نعم، فلما قدمنا المدينة ودخل النبي صلى الله عليه وسلم المسجد في طوائف اصحابه فدخلت إليه، وعقلت الجمل في ناحية البلاط، فقلت له: هذا جملك فخرج فجعل يطيف بالجمل، ويقول الجمل: جملنا فبعث النبي صلى الله عليه وسلم اواق من ذهب، فقال: اعطوها جابرا ثم، قال: استوفيت الثمن، قلت: نعم، قال: الثمن والجمل لك".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيُّ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ، فَقُلْتُ لَهُ حَدِّثْنِي بِمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَافَرْتُ مَعَهُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ أَبُو عَقِيلٍ: لَا أَدْرِي غَزْوَةً أَوْ عُمْرَةً فَلَمَّا أَنْ أَقْبَلْنَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَتَعَجَّلَ إِلَى أَهْلِهِ فَلْيُعَجِّلْ، قَالَ جَابِرٌ: فَأَقْبَلْنَا وَأَنَا عَلَى جَمَلٍ لِي أَرْمَكَ لَيْسَ فِيهِ شِيَةٌ وَالنَّاسُ خَلْفِي فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذْ قَامَ عَلَيَّ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا جَابِرُ اسْتَمْسِكْ فَضَرَبَهُ بِسَوْطِهِ ضَرْبَةً فَوَثَبَ الْبَعِيرُ مَكَانَهُ، فَقَالَ: أَتَبِيعُ الْجَمَلَ، قُلْتُ: نَعَمْ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فِي طَوَائِفِ أَصْحَابِهِ فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ، وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلَاطِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا جَمَلُكَ فَخَرَجَ فَجَعَلَ يُطِيفُ بِالْجَمَلِ، وَيَقُولُ الْجَمَلُ: جَمَلُنَا فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَاقٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: أَعْطُوهَا جَابِرًا ثُمَّ، قَالَ: اسْتَوْفَيْتَ الثَّمَنَ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: الثَّمَنُ وَالْجَمَلُ لَكَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعقیل و بشر بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالمتوکل ناجی (علی بن داود) نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے، ان میں سے مجھ سے بھی کوئی حدیث بیان کیجئے۔ انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ابوعقیل راوی نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں (یہ سفر) جہاد کے لیے تھا یا عمرہ کے لیے (واپس ہوتے ہوئے) جب (مدینہ منورہ) دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر جلدی جانا چاہے وہ جا سکتا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم آگے بڑھے۔ میں اپنے ایک سیاہی مائل سرخ اونٹ بےداغ پر سوار تھا دوسرے لوگ میرے پیچھے رہ گئے، میں اسی طرح چل رہا تھا کہ اونٹ رک گیا (تھک کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر! اپنا اونٹ تھام لے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کوڑے سے اونٹ کو مارا، اونٹ کود کر چل نکلا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا ہاں! جب مدینہ پہنچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور ”بلاط“ کے ایک کونے میں، میں نے اونٹ کو باندھ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یہ آپ کا اونٹ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اونٹ کو گھمانے لگے اور فرمایا کہ اونٹ تو ہمارا ہی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اوقیہ سونا مجھے دلوایا اور دریافت فرمایا تم کو قیمت پوری مل گئی۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب قیمت اور اونٹ (دونوں ہی) تمہارے ہیں۔
Narrated Muslim from Abu `Aqil from Abu Al-Mutawakkil An-Naji: I called on Jabir bin `Abdullah Al-Ansari and said to him, "Relate to me what you have heard from Allah's Apostle ." He said, "I accompanied him on one of the journeys." (Abu `Aqil said, "I do not know whether that journey was for the purpose of Jihad or `Umra.") "When we were returning," Jabir continued, "the Prophet said, 'Whoever wants to return earlier to his family, should hurry up.' We set off and I was on a black red tainted camel having no defect, and the people were behind me. While I was in that state the camel stopped suddenly (because of exhaustion). On that the Prophet said to me, 'O Jabir, wait!' Then he hit it once with his lash and it started moving on a fast pace. He then said, 'Will you sell the camel?' I replied in the affirmative when we reached Medina, and the Prophet went to the Mosque along with his companions. I, too, went to him after tying the camel on the pavement at the Mosque gate. Then I said to him, 'This is your camel.' He came out and started examining the camel and saying, 'The camel is ours.' Then the Prophet sent some Awaq (i.e. an amount) of gold saying, 'Give it to Jabir.' Then he asked, 'Have you taken the full price (of the camel)?' I replied in the affirmative. He said, 'Both the price and the camel are for you.' ''
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 113
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2861
حدیث حاشیہ: امام احمد ؒ کی روایت میں یوں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ذرا اس کو بٹھا‘ میں نے بٹھایا پھر آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ لکڑی تو مجھ کو دے‘ میں نے دی‘ آپؐ نے اس لکڑی سے اس کو کئی گھونسے دئیے‘ اس کے بعد فرمایا کہ سوار ہو جا۔ میں سوار ہوگیا۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ آپؐ نے پرائے اونٹ یعنی جابر کے اونٹ کو مارا۔ بلاط وہ پتھر کا فرش مسجد کے سامنے تھا۔ یہ سفر غزوہ تبوک کا تھا۔ ابن اسحاق نے غزوہ ذات الرقاع بتلایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2861
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2861
حدیث حاشیہ: 1۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ”تم اپنے اونٹ کو بٹھاؤ۔ “ میں نے اسے بٹھایا تو آپ نے فرمایا: ”مجھے لکڑی دو۔ “ میں نے وہ لکڑی آپ کو تھمادی تو آپ نے اس سے اونٹ کو کئی ایک ٹھونسے دیے۔ اس کےبعد آپ ﷺنے فرمایا: ”اب اس پر سوار ہوجاؤ۔ “ تو میں اس پر سوار ہوگیا۔ (مسندأحمد 375/1، 376) 2۔ امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ کسی مصلحت کے پیش نظر دوسرے کی سواری کو مارنا جائز ہے۔ یہ ظلم یا زیادتی نہیں۔ واضح رہے کہ یہ سفر غزوہ تبوک سے واپسی کا تھا۔ جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث 2718)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2861
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 652
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک درماندہ تھکے ماندے اونٹ پر سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اتنے میں پیچھے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعا فرمائی اور اونٹ کو مارا تو وہ ایسی تیز روی سے چلنے لگا کہ اس سے پہلے ایسی تیز رفتاری سے نہیں چلا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے یہ اونٹ ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کر دو۔“ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ فرمایا ”مجھے یہ اونٹ بیچ دو۔“ تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا اور شرط یہ طے کی کہ اپنے گھر والوں تک (میں) سوار ہو کر جاؤں گا۔ پس جونہی (مدینہ) پہنچا تو میں وہ اونٹ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نقد قیمت مجھے ادا فرما دی۔ پھر میں (رقم وصول کر کے) واپس آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے (اونٹ) بھیج دیا اور فرمایا کہ ”تیرا خیال ہے کہ میں نے اونٹ کی قیمت کم کی تاکہ تیرا اونٹ لے لوں؟ اپنا اونٹ لے لو اور رقم بھی اپنے پاس رکھو یہ تیرے لئے ہے۔“(بخاری و مسلم) یہ سیاق مسلم میں ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 652»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب من ضرب دابة غيره في الغزو، حديث:2861، ومسلم، المساقاة، باب بيع البعير واستثناء ركوبه، حديث:715 بعد حديث:1599.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی سے ازخود یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی فلاں چیز اسے فروخت کردے‘ جائز ہے۔ 2.قیمت طے کرنا اور قیمت میں کسی شرط کا مطالبہ کرنا بھی جائز ہے۔ 3. اگر سواری ہو تو یہ شرط لگانا کہ میں اپنے گھر تک اس پر سوار ہو کر جاؤں گا‘ جائز ہے‘ بشرطیکہ اس میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو‘ یا رہائشی جگہ ہو تو خریدار سے کچھ مدت تک کے لیے رہائش کی شرط طے کرنا جائز ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مکان فروخت کیا تو خریدار سے ایک ماہ تک رہائش کی شرط طے کی تھی۔ (سبل السلام)4. اس حدیث سے یہ بھی مترشح ہو رہا ہے کہ کسی چیز کی قیمت کم کرانے میں اپنے اثر و رسوخ اور منصب کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ 5. اسوۂ رسول سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ ایثار سے کام لینا چاہیے اور اپنے بھائی کی حیثیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ 6. اونٹ کی تیز رفتاری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ثابت ہوا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 652