(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا هشام، وشيبان، عن يحيى، عن ابي سلمة، قال: سالت عائشة، اكان النبي صلى الله عليه وسلم يرقد وهو جنب؟ قالت:" نعم، ويتوضا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، وَشَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْقُدُ وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَتْ:" نَعَمْ، وَيَتَوَضَّأُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام اور شیبان نے، وہ یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں گھر میں سوتے تھے؟ کہا ہاں لیکن وضو کر لیتے تھے۔
Hum se Abu Nu’aim ne bayan kiya, kaha hum se Hishaam aur Shaibaan ne, woh Yahya se, woh Abu Salamah se kaha main ne Aisha Radhiallahu Anha se poocha ke kya Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam janabat ki haalat mein ghar mein sote the? Kaha haan lekin Wuzu kar lete the.
Narrated Abu Salama: I asked `Aisha "Did the Prophet use to sleep while he was Junub?" She replied, "Yes, but he used to perform ablution (before going to bed).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 284
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 286
� تشریح: ایک حدیث میں ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر یا جنبی ہو تو وہاں فرشتے نہیں آتے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لا کر بتلایا ہے وہاں جنبی سے وہ مراد ہے جو وضو بھی نہ کرے اور جنابت کی حالت میں بےپروا بن کر یوں ہی گھرمیں پڑا رہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 286
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:286
حدیث حاشیہ: صحیح مسلم کی روایت میں مزید وضاحت ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب بحالت جنابت سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو کر لیتے، جیسا کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، بلکہ خود امام بخاری ؒ نے اگلی روایت (288) میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز کے وضو جیسا وضوکرکے سو جاتے۔ دراصل بخاری حضرت علی ؓ سےمروی ایک حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا، تصویر اورجنبی موجود ہو۔ “(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 227) بعض حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ روایت ابی داؤد کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ روایت دوسری صحیح روایات کے مقابلے میں قابل عمل نہیں، لیکن حافظ ابن حجر ؒ اس موقف سے مطمئن نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ سے مروی روایت اس شخص کے بارے میں ہے جو غسل جنابت کے معاملے میں بے پروائی کا عادی ہو۔ ایسے شخص کی سزا یہی ہونی چاہیے کہ اس کے گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں، لیکن جو شخص عادی نہیں، وہ غسل جنابت کا پورا اہتمام کرتا ہے، لیکن بعض اوقات کسی عذر کی وجہ سے غسل میں تاخیر ہوجاتی ہے تو جب تک نماز کا وقت نہ ہوجائے اس وقت تک جنبی رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک توجیہ یہ بھی لکھی ہے کہ حدیث علی ؓ سے مراد وہ جنبی ہے جو وضو بھی نہیں کرتا ہے، اس لیے اگر غسل کا موقع نہ دو تو اتنے وقت کے لیے یہ تخفیفی طہارت کرلی جائے تاکہ فرشتوں کی آمد ورفت بھی ہو سکے اور طبیعت بھی ہلکی رہے۔ اس طرح ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ (فتح الباري: 508/1) ہمارے نزدیک بھی تطبیق کی یہی صورت بہتر ہے کہ جنبی بے وضو ہوتو رحمت کا فرشتہ گھر میں نہیں آئے گا۔ اگر وضو کر لے تو کم از کم فرشتے کی آمدورفت کے لیے راہ کھل جاتی ہے اوراتباع سنت کا شرف بھی حاصل ہوجائےگا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 286