(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا المعتمر بن سليمان، عن ابيه، عن ابي عثمان، عن عبد الرحمن بن ابي بكر رضي الله عنهما، قال:"كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثين ومائة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هل مع احد منكم طعام؟ فإذا مع رجل صاع من طعام او نحوه، فعجن، ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: بيعا ام عطية او قال ام هبة، قال: لا، بل بيع، فاشترى منه شاة، فصنعت، وامر النبي صلى الله عليه وسلم بسواد البطن ان يشوى، وايم الله ما في الثلاثين والمائة إلا قد حز النبي صلى الله عليه وسلم له حزة من سواد بطنها، إن كان شاهدا اعطاها إياه، وإن كان غائبا خبا له، فجعل منها قصعتين، فاكلوا اجمعون وشبعنا، ففضلت القصعتان، فحملناه على البعير او كما قال".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ؟ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ، فَعُجِنَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً، قَالَ: لَا، بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، وَايْمُ اللَّهِ مَا فِي الثَّلَاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ، فَأَكَلُوا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا، فَفَضَلَتِ الْقَصْعَتَانِ، فَحَمَلْنَاهُ عَلَى الْبَعِيرِ أَوْ كَمَا قَالَ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا کسی کے ساتھ کھانے کی بھی کوئی چیز ہے؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا (آٹا) تھا۔ وہ آٹا گوندھا گیا۔ پھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان حال بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بیچنے کے لیے ہیں۔ یا کسی کا عطیہ ہے یا آپ نے (عطیہ کی بجائے) ہبہ فرمایا۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی پھر وہ ذبح کی گئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا۔ قسم اللہ کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا۔ جو موجود تھے انہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا۔ پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا گیا اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے۔ او کما قال۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abu Bakr: We were one-hundred and thirty persons accompanying the Prophet who asked us whether anyone of us had food. There was a man who had about a Sa of wheat which was mixed with water then. A very tall pagan came driving sheep. The Prophet asked him, "Will you sell us (a sheep) or give it as a present?" He said, "I will sell you (a sheep)." The Prophet bought a sheep and it was slaughtered. The Prophet ordered that its liver and other Abdominal organs be roasted. By Allah, the Prophet gave every person of the one-hundred-and-thirty a piece of that; he gave all those of them who were present; and kept the shares of those who were absent. The Prophet then put its meat in two huge basins and all of them ate to their fill, and even then more food was left in the two basins which were carried on the camel (or said something like it).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 787
هل مع أحد منكم طعام فإذا مع رجل صاع من طعام أو نحوه فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي بيعا أم عطية أو قال أم هبة قال لا بل بيع فاشتر
هل مع أحد منكم طعام فإذا مع رجل صاع فجئ به فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنيمة يسوقها فقال النبي أبيع أم عطية أم هبة قال لا بل بيع فاشترى منه شاة فصنعت وأمر رسول الله بسواد البطن يشوى وايم الله ما من الثلاثين ومائة إلا قد حز له حزة من سواد بطنها إن كان
هل مع أحد منكم طعام فإذا مع رجل صاع من طعام أو نحوه فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي أبيع أم عطية أو قال أم هبة فقال لا بل بيع فاشترى منه شاة فصنعت وأمر رسول الله بسواد البطن أن يشوى قال وايم الله ما من الثلاثين ومائة إلا حز له رسول
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2618
حدیث حاشیہ: اس سے بھی کسی کافر مشرک کا ہدیہ قبول کرنا یا اس سے کوئی چیز خریدناجائز ثابت ہوا اور آنحضرت ﷺ کا ایک عظیم معجزہ بھی ثابت ہوا کہ آپ کی دعاءسے وہ قلیل گوشت سب کے لیے کافی ہوگیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2618
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2618
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک سے پوچھا: ”تم یہ بکریاں بطور ہدیہ لائے ہو یا انہیں فروخت کرنے کا ارادہ ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت کیوں کرتے؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں رحم آ جاتا ہے اور اس میں طمع اور لالچ کے جذبات نہیں ہوتے، مسلمانوں کا قافلہ دیکھ کر ممکن ہے کہ مشرک کو خیال آئے، اس موقع پر کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہیے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ہدیہ لائے ہو یا فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔ (2) اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں کوئی طمع تھی، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے مشرکین کے ہدایا قبول کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ “(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3057) اس میں تطبیق یوں ہے کہ آپ ان مشرکین کا ہدیہ قبول کرتے تھے جن سے ایمان کی توقع ہوتی تھی، اور جس ہدیے میں مشرکین سے دوستی بڑھانا مقصود ہو تو وہ جائز نہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ کفار و مشرکین سے ہدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حالات سازگار ہوں، سیاسی اور معاشرتی طور پر کوئی پیچیدگی نہ ہو، البتہ اس مشرک کا ہدیہ قبول کرنا منع ہے جو دوستی اور محبت کی بنا پر ہو جس سے محبت اور تعلقات بڑھانا مقصود ہو۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 284/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2618
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5364
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس افراد تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی شخص کے پاس کھانا ہے؟“ تو ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے قریب آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، پھر ایک مشرک آدمی پراگندہ بال یا لمبا تڑنگا، بکریاں ہانکتے ہوئے، آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچتے ہو یا عطیہ ہے یا فرمایا ہبہ ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بیچوں گا، آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5364]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مشحان: پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والا، دراز قد جیسا کہ راوی نے تفسیر کی ہے۔ (2) حزة: ٹکڑا، حصہ۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور اس سے تحفہ بھی قبول کیا جا سکتا ہے، اور اس سے آپ کے معجزہ کا اظہار ہو رہا ہے کہ آپ نے ایک بکری کی کلیجی کو ایک سو تیس آدمیوں میں تقسیم فرمایا اور وہ سب ایک بکری کے گوشت سے سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا، جبکہ آٹا صرف ایک صاع (ڈھائی کلو یا بقول احناف چار کلو) تھا، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اکٹھے کھانا باعث برکت ہے، کیونکہ اتفاق و اتحاد میں برکت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5364
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2216
2216. حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ اس دوران پراگندہ بال لمبے قد والا ایک مشرک آیا اور وہ کچھ بکریاں ہانک کر لایا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا: ”یہ بکریاں بیچنے کے لیے ہیں یا عطیہ دینے کے لیے ہیں؟“ راوی کو شک ہے کہ عطیہ یا ہبہ کالفظ کہا۔ اس نے کہا: کچھ نہیں، بلکہ فروخت کے لیے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2216]
حدیث حاشیہ: حافظ ؒ فرماتے ہیں: معاملة الکفار جائزة إلا بیع ما یستعین به أهل الحرب علی المسلمین و اختلف العلماء في مبایعة من غالب ماله الحرام و حجة من رخص فیه قوله صلی اللہ علیه وسلم للمشرك ”أبیعا أم ہبة“ و فیه جواز بیع الکافر و إثبات ملکه علی ما في یدہ و جواز قبول الهدیة منه۔ (فتح) یعنی کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے میں مدد پاسکیں۔ اور اس حدیث کی رو سے کافر کی بیع کو نافذ ماننا بھی ثابت ہوا۔ اور یہ بھی کہ اپنے مال کا وہ اسلامی قانون میں مالک ہی مانا جائے گا اور اس حدیث سے کافر کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ یہ جملہ قانونی امور ہیں جن کے لیے اسلام میں ہر ممکن گنجائش رکھی گئی ہے۔ مسلمان جب کہ ساری دنیا میں آباد ہیں، ان کے بہت سے لین دین کے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان سب کو قانونی صورتوں میں بتلایا گیا اور اس سلسلہ میں بہت فراخدلی سے کام لیا گیا ہے جو اسلام کے دین فطرت اور عالمگیر مذہب ہونے کی واضح دلیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2216
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5382
5382. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی ﷺ کے ہمراہ تھے نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس، کھانا ہے؟“ اچانک ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے لگ بھگ آٹا تھا جسے گوندھ لیا گیا۔ اس دوران میں ایک دراز قد مشرک جس کے بال پراگندہ تھے اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آنکلا۔ نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو فروخت کرتا یا عطیہ دیتا ہے؟“ اس نے کہا: عطیہ نہیں بلکہ فروخت کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ اسے ذبح کیا گیا تو آپ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ اللہ کی قسم! ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے آپ ﷺ نے اس کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو۔ جو وہاں موجود تھا اسے تو وہیں دے دیا گیا اور اگر وہ موجود نہ تھا تو اس کا حصہ محفوظ کر لیا گیا۔ پھر اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5382]
حدیث حاشیہ: یہ راوی کو شک ہے، یہ حدیث بیع اور ہبہ کے بیان میں گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5382
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2216
2216. حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ اس دوران پراگندہ بال لمبے قد والا ایک مشرک آیا اور وہ کچھ بکریاں ہانک کر لایا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا: ”یہ بکریاں بیچنے کے لیے ہیں یا عطیہ دینے کے لیے ہیں؟“ راوی کو شک ہے کہ عطیہ یا ہبہ کالفظ کہا۔ اس نے کہا: کچھ نہیں، بلکہ فروخت کے لیے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2216]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین اور اہل حرب کے ساتھ معاملہ اس عالم رنگ وبو کے باشندوں کی حیثیت سے ان کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے کیا جائے گا۔ ہاں، اگر ان سے جنگ کی نوبت آجائے تو ان کے لیے اسلام کا ایک جداگانہ ضابطہ ہے۔ اہل ذمہ اور اہل صلح کے لیے الگ الگ قاعدے ہیں۔ ان کا مال ہمارے اہل اسلام کے مال کی طرح اور ان کا خون ہمارے خون کی طرح محترم ہے۔ مشرک یا کافر کی اہل شرک یا اہل کفر ہونے کی حیثیت سے ان کی گردن مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ بہر حال مشرکین وکفار کے بھی حقوق ہیں۔ وہ بھی حق ملکیت رکھتے ہیں،ان سے خریدوفروخت کی جاسکتی ہے لیکن انتہا پسندوں کے خیال کے مطابق مشرک اور کافر جس حالت میں بھی ہو اس کا خون حلال اور مال و آبرو جائز ہے۔ بہر حال اسلام نے کفار ومشرکین کا انسان ہونے کے ناتے سے خیال رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مشرک سے بکری خریدی جبکہ ہمارے دور کے انتہا پسندوں کے ہاں ایسے حالات میں شاید بکریوں کے ریوڑ کو ذبح کردینا جائز ہو۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے خلاف جنگ کرنے میں مدد حاصل کرسکیں، نیز کافر کی خریدوفروخت صحیح ہے اور وہ اسلامی قانون کے اعتبار سے اپنے اموال کا مالک تسلیم کیا جائے گا۔ اس حدیث کی رو سے کافر سے ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 815/4) واضح رہے کہ مذکورہ روایت انتہائی مختصر ہے، تفصیلی روایت آئندہ بیان ہوگی۔ (صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2618)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2216
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5382
5382. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی ﷺ کے ہمراہ تھے نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس، کھانا ہے؟“ اچانک ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے لگ بھگ آٹا تھا جسے گوندھ لیا گیا۔ اس دوران میں ایک دراز قد مشرک جس کے بال پراگندہ تھے اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آنکلا۔ نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو فروخت کرتا یا عطیہ دیتا ہے؟“ اس نے کہا: عطیہ نہیں بلکہ فروخت کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ اسے ذبح کیا گیا تو آپ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ اللہ کی قسم! ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے آپ ﷺ نے اس کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو۔ جو وہاں موجود تھا اسے تو وہیں دے دیا گیا اور اگر وہ موجود نہ تھا تو اس کا حصہ محفوظ کر لیا گیا۔ پھر اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5382]
حدیث حاشیہ: (1) ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث سے پیٹ بھر کر کھانا ثابت ہوتا ہے اگرچہ کبھی کبھار بھوک برداشت کرنا افضل ہے۔ بہرحال پیٹ بھر کر کھانا اگرچہ مباح ہے لیکن اس کی ایک حد ہے، جب اس حد سے تجاوز ہو تو اسراف و فضول خرچی ہو گی۔ صرف اس حد تک کھائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مددگار ثابت ہو اور اس سے جسم بوجھل نہ ہو جو اللہ کی عبادت سے رکاوٹ کا باعث بنے۔ (فتح الباري: 654/9)(2) ہمارے رجحان کے مطابق پیٹ بھر کے کھانے کی حد یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے ہوں: ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک سانس کی آمد و رفت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اگر یہ معمول بنا لیا جائے تو انسان توانا و تندرست رہے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5382