ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، اور یحییٰ بن بکیر کے علاوہ نے بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری نے، اور ان سے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا۔ پھر دونوں کی گفتگو تیز ہونے لگی۔ اور آواز بلند ہو گئی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے کعب! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے گویا یہ فرمایا کہ آدھے قرض کی کمی کر دے۔ چنانچہ انہوں نے آدھا لے لیا اور آدھا قرض معاف کر دیا۔
Narrated `Abdullah bin Ka`b bin Malik Al-Ansari from Ka`b bin Malik: That `Abdullah bin Abi Hadrad Al-Aslami owed him some debt. Ka`b met him and caught hold of him and they started talking and their voices grew loudest. The Prophet passed by them and addressed Ka`b, pointing out to him to reduce the debt to one half. So, Ka`b got one half of the debt and exempted the debtor from the other half.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 606
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2424
حدیث حاشیہ: لفظ حدیث فلزمه سے ترجمہ باب نکلا کہ حضرت کعب ؓ اپنا قرض وصول کرنے کے لیے عبداللہ ؓ کے پیچھے چمٹے اور کہا کہ جب تک میرا قرض ادا نہ کر دے گا میں تیرا پیچھا نہ چھوڑوں گا، اور جب آنحضرت ﷺ نے ان کو دیکھا اور اس طرح چمٹنے سے منع نہیں فرمایا تو اس سے چمٹنے کا جواز نکلا۔ آنحضرت ﷺ نے آدھا قرض معاف کرنے کی سفارش فرمائی، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مقروض اگر تنگ دست ہے تو قرض خواہ کو چاہے کہ کچھ معاف کردے، نیک کام کے لیے سفارش کرنا بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2424
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2424
حدیث حاشیہ: (1) عنوان میں ملازمت کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی نوکری کرنا نہیں بلکہ کسی کے پیچھے پڑنا اور نگرانی کرنا ہیں۔ آپ نے کسی سے کچھ لینا ہے تو آپ اس کا تعاقب کر سکتے ہیں، اسے اپنی نگرانی میں لے سکتے ہیں، چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مقروض کو پابند کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام ناجائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے منع فرما دیتے۔ آپ ﷺ کا اس کے متعلق انکار نہ کرنا اس کے جواز کی دلیل ہے۔ ہاں اگر مقروض غریب اور نادار ہو تو اس کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے۔ اسے نگرانی میں لینے کے بجائے اسے مزید مہلت دی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر اس کی تلقین فرمائی ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک کام کے لیے سفارش کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض معاف کر دینے کی سفارش کی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2424