الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
The Book of Loans, Freezing of Property, and Bankruptcy
7. بَابُ حُسْنِ الْقَضَاءِ:
7. باب: قرض اچھی طرح سے ادا کرنا۔
(7) Chapter. Repaying debts handsomely.
حدیث نمبر: 2393
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن سلمة، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل فجاءه يتقاضاه، فقال صلى الله عليه وسلم: اعطوه فطلبوا سنه، فلم يجدوا له إلا سنا فوقها، فقال: اعطوه، فقال: اوفيتني وفى الله بك، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن خياركم احسنكم قضاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنٌّ مِنَ الْإِبِلِ فَجَاءَهُ يَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْطُوهُ فَطَلَبُوا سِنَّهُ، فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ إِلَّا سِنًّا فَوْقَهَا، فَقَالَ: أَعْطُوهُ، فَقَالَ: أَوْفَيْتَنِي وَفَى اللَّهُ بِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ نے تلاش کیا لیکن ایسا ہی اونٹ مل سکا جو قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے میرا حق پوری طرح دیا اللہ آپ کو بھی اس کا بدلہ پورا پورا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بھی سب سے بہتر ہو۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet owed a camel of a certain age to a man who came to demand it back. The Prophet ordered his companions to give him. They looked for a camel of the same age but found nothing but a camel one year older. The Prophet told them to give it to him. The man said, "You have paid me in full, and may Allah pay you in full." The Prophet said, "The best amongst you is he who pays his debts in the most handsome manner."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 578


   صحيح البخاري2606عبد الرحمن بن صخرلصاحب الحق مقالا وقال اشتروا له سنا فأعطوها إياه فقالوا إنا لا نجد سنا إلا سنا هي أفضل من سنه قال فاشتروها فأعطوها إياه من خيركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2609عبد الرحمن بن صخرأفضلكم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2390عبد الرحمن بن صخرخيركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2393عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2392عبد الرحمن بن صخرخيار الناس أحسنهم قضاء
   صحيح البخاري2306عبد الرحمن بن صخرخيركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2305عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   صحيح مسلم4111عبد الرحمن بن صخرخياركم محاسنكم قضاء
   صحيح مسلم4110عبد الرحمن بن صخرلصاحب الحق مقالا فقال لهم اشتروا له سنا فأعطوه إياه فقالوا إنا لا نجد إلا سنا هو خير من سنه قال فاشتروه فأعطوه إياه من خيركم أو خيركم أحسنكم قضاء
   صحيح مسلم4112عبد الرحمن بن صخرخيركم أحسنكم قضاء
   جامع الترمذي1317عبد الرحمن بن صخرلصاحب الحق مقالا ثم قال اشتروا له بعيرا فأعطوه إياه فطلبوه فلم يجدوا إلا سنا أفضل من سنه فقال اشتروه فأعطوه إياه خيركم أحسنكم قضاء
   جامع الترمذي1316عبد الرحمن بن صخرخياركم أحاسنكم قضاء
   سنن النسائى الصغرى4697عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   سنن النسائى الصغرى4622عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   سنن ابن ماجه2423عبد الرحمن بن صخرخيركم أحاسنكم قضاء
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2393 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2393  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قرض خواہ کو اس کے حق سے زیادہ دے دینا بڑا کار ثواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2393   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2393  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مقروض کو خوش دلی اور فیاضی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ادائیگی کے وقت بدمزگی پیدا کرنا یا تنگ دلی کا اظہار، اخلاق اور مروت کے منافی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2393   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4622  
´جانور میں بیع سلم یا ادھار معاملہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ایک شخص کا ایک جوان اونٹ باقی تھا، وہ آپ کے پاس تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے (صحابہ سے) فرمایا: اسے دے دو، انہیں اس سے زیادہ عمر کے ہی اونٹ ملے تو آپ نے فرمایا: اسی کو دے دو، اس نے کہا: آپ نے پورا پورا ادا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4622]
اردو حاشہ:
خاص عمر کا اونٹ اس نے آپ سے دو دانتا اونٹ لینا تھا۔ آپ نے اسے رباعی اونٹ دیا جسے ہماری زبان میں چوگا کہتے ہیں جس کا رباعی دانت نیا نکلنے لگے۔ رباعی چھ سال کے اونٹ کو کہتے ہیں اور دو دانتا (جسے ہماری زبان میں دوندا کہتے ہیں) چار سال کے اونٹ کو۔ گویا آپ نے کافی بہتر اور قیمتی اونٹ دیا۔ معلوم ہوا اگرمقروض اپنی خوشی سے قرض خواہ کو اس کے مال سے اچھا یا زیادہ مال دے دے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ کوئی ایسی شرط نہ لگائی گئی ہو۔ جانوروں میں عین برابری ممکن بھی نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جیسا جانور لیا گیا تھا، بالکل ویسا ہی جس میں بال برابر بھی فرق نہ ہو، دیا جائے، لہٰذا دینے والا بہتر دینے کی کوشش کرے۔ خوشی سے زائد یا بہتر دینے کو سود نہیں کہیں گے بلکہ یہ حسن خلق ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4622   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4110  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ حق (قرض) تھا، تو اس نے آپﷺ سے سخت لہجہ سے تقاضا کیا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب حق کو بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا: (اس کی عمر کا) اونٹ خرید کر اسے دے دو۔ انہوں نے عرض کیا، نہیں اس کے جانور کی عمر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4110]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مقروض،
اگر قرض خواہ کا قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول یا تاخیری حربے اختیار کرے،
تو قرض خواہ سخت رویہ اختیار کر سکتا ہے،
لیکن اگر مقروض منصفانہ رویہ اختیار کرے،
یا جائز عذر پیش کرے تو پھر بلا وجہ شدت برتنا جائز نہیں ہے،
لیکن پھر بھی مقروض کو،
قرض خواہ کی سخت کلامی کو جو بلا محل اور نامناسب ہو،
حتی الوسع برداشت کرنا چاہیے،
کیونکہ وہ صاحب حق ہے،
غصہ میں آ سکتا ہے،
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ کا جو بقول امام قرطبی،
یہودی تھا،
یا بقول علامہ ملا علی قاری بدو یا ضعیف الایمان تھا،
اس کا نامعقول رویہ برداشت کیا،
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ٹال مٹول یا تاخیری حربہ سے کام نہیں لیا تھا اور اس کے باوجود آپ نے صحابہ کرام کو اس کو کچھ کہنے سے روک دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4110   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4111  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کم عمر جانور قرض لیا اور اس سے بڑی عمر کا دیا، اور فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں، جو قرض ادا کرنے میں بہترین ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4111]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
محاسن:
محسن یا أحسن کی جمع ہے،
جس کو عام طور پر احاسن ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4111   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2306  
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھرآپ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔
اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب ؒ پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔
حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔
نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفهم۔
(وحیدی)
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2306   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2609  
2609. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک خاص عمر کا اونٹ کسی سے بطور قرض لیا۔ قرض خواہ نے آکرسختی سے تقاضا کیا تو (صحابہ رضوان اللہ عنھم أجمعین نے اسے مارنے کاارادہ کیا)آپ نے فرمایا: حقدار کو ایسی گفتگو کرنے کاحق پہنچتا ہے۔ پھر آپ نے اسے ایک بہتر عمر کااونٹ اداکیا اورفرمایا: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو(اپنے ذمے قرض کی) ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ اس زیادتی میں دوسرے لوگ جو وہاں بیٹھے تھے شریک نہیں ہوئے۔
بلکہ اسی کو ملی جس کا اونٹ آپ پر قرض تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2609   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2305  
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: وہی اس کو دے دو۔ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔
اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔
بلکہ وہ ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمن: 60)
کے تحت ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2305   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2606  
2606. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2606]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ابورافع ؓ کو وکیل کیا تھا۔
انہوں نے اونٹ خریدا، تو ان کا قبضہ آنحضرت ﷺ کا قبضہ تھا اس لیے قبضہ سے پہلے یہ ہبہ نہ ہوا تواس کا جواب یہ ہے کہ ابورافع صرف خریدنے کے لیے وکیل ہوئے تھے نہ ہبہ کے لیے، تو ان کا قبضہ ہبہ کے احکام میں آنحضرت ﷺ کا قبضہ نہ تھا۔
پس امام بخاری ؒ کا مطلب حدیث سے نکل آیا اور غیر مقبوض کا ہبہ ثابت ہوا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2606   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2305  
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: وہی اس کو دے دو۔ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے وکیل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی عذر نہیں ہے تو فریق ثانی کی رضامندی سے وکیل کرنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ تکلف محض ہے۔
جو شخص شہر میں موجود ہے، اسے کوئی عذر نہیں وہ بھی وکیل کرسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے موجود صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا:
اسے اونٹ دےدو۔
اگرچہ یہ خطاب حاضرین کےلیے ہے لیکن عرف کے اعتبار سے ہر وکیل کو شامل ہے۔
خواہ وہ غائب ہو یا حاضر، نیز رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام ؓ کو وکیل بنایا، حالانکہ آپ مقیم اور تندرست تھے، نہ آپ غائب تھے اور نہ آپ بیمار اور مسافر ہی تھے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ جب حاضر کےلیے وکیل کرنا جائز ہے، حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہے،اس لیے کہ وہ اس کا محتاج ہے۔
(فتح الباري: 608/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2305   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2306  
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھرآپ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
(1)
حق طلب کرنے میں سخت رویہ اختیار کرنا اس وقت روا ہے جب فریق ثانی ٹال مٹول سے کام لے اور واجبات کی ادائیگی میں اچھا رویہ اختیار نہ کرے لیکن جو شخص انصاف پسند اور معاملات کا اچھا ہو اور اگر پاس نہ ہو تو معذرت کرے، ایسے شخص کے ساتھ سخت کلامی درست نہیں۔
(2)
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے قرض خواہ کی سخت کلامی کا مطلقاً کوئی اثر نہیں لیا بلکہ خندہ پیشانی سے قبل از وقت اس کا قرض ادا کردیا۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ اپنانے کی توفیق دے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؓ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے اس عنوان کی فقاہت بایں الفاظ بیان کی ہے:
قرض کی ادائیگی بروقت کرنا ضروری ہے اس بنا پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں وکالت صحیح نہیں کیونکہ مؤکل کی طرف سے وکیل اختیارکرنے میں دیر ہوسکتی ہے،اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممانعت ٹال مٹول کے قبیل سے نہیں ہے۔
(فتح الباري609/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2306   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2390  
2390. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضا کیا تو اس نے تقاضا کرنے میں سختی سے کام لیا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی طرف لپکے تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ صاحب حق کو بات کرنے کا حق ہے۔ اس کے لیے کوئی اونٹ خریدو اور اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہمیں تو اس کے اونٹ (کی عمر) سے زیادہ عمر کا اونٹ ملتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہی خرید لو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو ادائیگی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2390]
حدیث حاشیہ:
(1)
اجناس کے تبادلے میں، اگر وہ ہم جنس ہوں تو دو باتیں ضروری ہیں:
برابر ہونا اور نقد ہونا۔
اگر مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو ایک چیز کا ہونا ضروری ہے کہ سودا دست بدست ہو، البتہ کمی بیشی جائز ہے لیکن حیوانات میں کوئی پابندی نہیں۔
ان کا باہمی تبادلہ ادھار بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے اور ان میں کمی بیشی بھی درست ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ایک اونٹ لیتا اور صدقے کے دو اونٹ دینے کا وعدہ کرتا تھا۔
(مسند أحمد: 171/2)
البتہ بعض روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار پر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3356)
امام شافعی ؒ نے ان احادیث کے درمیان تطبیق اس طرح دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے، یعنی بيع الكالئ بالكالئ مراد ہے۔
(فتح الباري: 72/5)
بہرحال حیوانات کی خریدوفروخت کے متعلق وسعت ہے۔
ایک جانور کو دو یا اس سے زیادہ اسی جنس کے جانوروں کے عوض نقد اور ادھار پر فروخت کرنا جائز ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خریدا تھا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4113(1602)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2390   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2392  
2392. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنا اونٹ واپس لینے کا تقاضا کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے اونٹ دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہمیں تو اس کے اونٹ سے بڑی عمر کا بہتر اونٹ ملتا ہے۔ تب وہ شخص کہنے لگا: آپ نے میرا پورا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پورا پورا بدلہ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھی طرح قرض ادا کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2392]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت اگر کوئی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل سے زیادہ واپس کر دے تو یہ اس کی سخاوت اور فیاضی ہے۔
ایسا کرنا منع نہیں، البتہ چیز کی پابندی قبول یا عائد کرنا کہ اس قدر دے رہا ہوں اور اتنا وصول کروں گا، یہ صریح سود ہے۔
شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔
دراصل بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرض کی ادائیگی کے وقت وصف میں عمدہ دینا تو جائز ہے لیکن مقدار میں زیادہ دینا ممنوع ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں تنبیہ فرمائی کہ دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ عقد کرتے وقت اضافے کی شرط نہ ہو یا اُن کے ہاں طے شدہ دستور نہ ہو۔
اگر کوئی اپنی طرف سے عرف اور شرط کے بغیر زیادہ دیتا ہے تو یہ احسان ہے سود نہیں جیسا کہ مقروض آدمی اگر قرض خواہ کی کوئی ضرورت پوری کر دے تو ایسا کرنا سود نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2606  
2606. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2606]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت کیا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ نے اونٹ خرید کر اسے دے دینے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے اس خرید کردہ اونٹ پر قبضہ نہیں کیا تھا، لہذا غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت ہوا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2606   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2609  
2609. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک خاص عمر کا اونٹ کسی سے بطور قرض لیا۔ قرض خواہ نے آکرسختی سے تقاضا کیا تو (صحابہ رضوان اللہ عنھم أجمعین نے اسے مارنے کاارادہ کیا)آپ نے فرمایا: حقدار کو ایسی گفتگو کرنے کاحق پہنچتا ہے۔ پھر آپ نے اسے ایک بہتر عمر کااونٹ اداکیا اورفرمایا: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو(اپنے ذمے قرض کی) ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے قرض کے اونٹ کے عوض بہتر عمر والا اونٹ ادا کرنے کا حکم دیا، اس بہتری اور اضافے میں وہاں بیٹھنے والوں کو شریک نہیں کیا بلکہ اس کا حق دار صرف تقاضا کرنے والا تھا۔
اگر ہدیہ دینے والے کا مقصد دوسروں کو شریک کرنا ہو جیسا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں رواج ہوتا ہے یا قرائن سے معلوم ہو جائے تو ہم مجلس شریک ہوں گے، بصورت دیگر صرف وہی حق دار ہو گا جسے ہدیہ پیش کیا گیا ہے۔
اگر ہدیہ دینے والے کا مقصد کوئی معین ذات ہے تو اس میں غیر شریک نہیں ہو گا۔
(2)
حدیث سے مطابقت اس طرح ہے کہ تقاضا کرنے والے کو حق سے زیادہ دیا گیا تو اس کے لیے یہ ہدیہ ہوا جس میں دوسروں کو شریک نہیں کیا گیا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2609   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.