● صحيح البخاري | 239 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل فيه |
● صحيح مسلم | 657 | عبد الرحمن بن صخر | لا تبل في الماء الدائم الذي لا يجري ثم تغتسل منه |
● صحيح مسلم | 656 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ثم يغتسل منه |
● جامع الترمذي | 68 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ثم يتوضأ منه |
● سنن أبي داود | 69 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ثم يغتسل منه |
● سنن أبي داود | 70 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ولا يغتسل فيه من الجنابة |
● سنن النسائى الصغرى | 58 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ثم يغتسل منه |
● سنن النسائى الصغرى | 221 | عبد الرحمن بن صخر | لا يغتسل أحدكم في الماء الدائم وهو جنب |
● سنن النسائى الصغرى | 222 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الراكد ثم يغتسل منه |
● سنن النسائى الصغرى | 332 | عبد الرحمن بن صخر | لا يغتسل أحدكم في الماء الدائم وهو جنب |
● سنن النسائى الصغرى | 400 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل منه |
● سنن النسائى الصغرى | 399 | عبد الرحمن بن صخر | يبال في الماء الراكد ثم يغتسل منه |
● سنن النسائى الصغرى | 398 | عبد الرحمن بن صخر | أن يبال في الماء الدائم ثم يغتسل فيه من الجنابة |
● سنن النسائى الصغرى | 396 | عبد الرحمن بن صخر | لا يغتسل أحدكم في الماء الدائم وهو جنب |
● سنن النسائى الصغرى | 57 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ثم يتوضأ منه |
● سنن النسائى الصغرى | 397 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن الرجل في الماء الدائم ثم يغتسل منه أو يتوضأ |
● سنن ابن ماجه | 605 | عبد الرحمن بن صخر | لا يغتسل أحدكم في الماء الدائم وهو جنب |
● سنن ابن ماجه | 344 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الراكد |
● صحيح ابن خزيمة | 66 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الذي لا يجري ثم يغتسل منه |
● بلوغ المرام | 5 | عبد الرحمن بن صخر | لا يغتسل احدكم في الماء الدائم وهو جنب |
● مسندالحميدي | 999 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم، ثم يغتسل منه |
● مسندالحميدي | 1000 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل منه |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 5
´کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا يغتسل احدكم في الماء الدائم وهو جنب . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص حالت جنابت میں ہو وہ کھڑے (ساکن) پانی میں غسل نہ کرے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 5]
� لغوی تشریح:
«الدَّائِمِ» ایسا ساکن جو بہتا نہ ہو۔
«جُنُبٌ» ”جیم“ اور ”نون“ کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ جسے جنابت لاحق ہو جائے۔ جنابت ایسی کیفیت ہے جو جماع یا احتلام کی وجہ سے انزال کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
«ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ» اس میں «ثُمَّ» استبعاد، یعنی دوری ظاہر کرنے کے لیے ہے، یعنی عقل مند آدمی سے یہ بعید ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اور «يَغْتَسِلُ» کے آخر میں پیش (رفع) بھی جائز ہے، مبتدا محذوف «ھُوَ» کی خبر ہونے کے اعتبار سے۔ اور سکون (جزم) بھی جائز ہے، اس صورت میں اس کا عطف «لَا یَبُولَنَّ» میں نہی کے محل پر ہو گا اور «اَنْ» مقدر ماننے کی صورت میں اس پر نصب (زبر) بھی جائز ہے۔
فوائد ومسائل:
➊ مسلم کی روایت میں «فِیهِ» کی جگہ «مِنْهُ» ہے۔ اگر «فِیهِ» ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس پانی میں داخل ہونا اور غوطہ لگانا منع ہے۔ اور «مِنْهُ» ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس میں سے کسی برتن میں پانی لے کر الگ طور پر غسل کرنے کی بھی نہی ہے۔ بہر حال صحیح مسلم کی روایت سے صرف غسل کرنے کی ممانعت نکلتی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس میں پیشاب کرنے اور اس میں غسل کرنے دونوں کے جمع کرنے کی ممانعت ہے جبکہ ابوداؤد کی روایت کی رو سے دونوں کی انفرادی طور پر بھی ممانعت ہے، یعنی اس میں پیشاب کرنا بھی ممنوع ہے اور اس پانی میں سے کچھ لے کر نہانا دونوں کی ممانعت ہے۔ تمام روایات سے حاصل یہ ہوا کہ یہ تمام عمل ہی ممنوع ہیں۔
➋ یہ اس بنا پر ہے کہ کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا اور کثیر مقدار میں ہے تو یکے بعد دیگرے پیشاب اور غسل کرنا پانی کے اوصاف میں تغیر و تبدل کا موجب ہو گا، چنانچہ نہی تحریم کے لئے ہے جبکہ پانی کم مقدار میں ہو اور جب پانی مقدار میں کثیر ہو تو پھر نہی تنزیہی ہے کیونکہ کثیر مقدار والا پانی رواں اور جاری کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ناپاک ونجس نہیں ہوتا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 5
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 70
´کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَلَا يَغْتَسِلُ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں جنابت کا غسل کرے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 70]
فوائد و مسائل:
➊ حوض اور تالاب کے پانی کو پاک صاف رکھنا ازحد ضروری ہے، کیونکہ یہ عوام الناس کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔
➋ مستعمل پانی اگرچہ پاک رہتا ہے مگر گندا تو ضرور ہو جاتا ہے۔ نہانے کی ضرورت ہو تو الگ ہو کر نہانا چاہیے۔ لوگ اس میں اگر پیشاب کرنا شروع کر دیں تو یقیناً ناپاک ہو جائے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 70
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 57
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے وضو کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 57]
57۔ اردو حاشیہ:
➊ گویا اس روایت میں عوف کے دو استاذ ہیں، محمد بن سیرین اور خلاس اور یہ دونوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
➋ ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنے سے اس لیے منع کیا تھا کہ یہ پانی کی نجاست کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ بار بار پیشاب کرنے یا کئی اشخاص کے پیشاب کرنے سے پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ بدل سکتا ہے۔ اس طرح پانی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ وضو اور غسل کرنے والوں کو دقت پیش آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 57
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 58
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 58]
58۔ اردو حاشیہ: تعلیم حدیث پر اجرت لینے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اجرت لینا جائز نہیں اور بعض اسے جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب محدث تدریس حدیث کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کرے۔ یعقوب دو رقی کے نزدیک اس پر اجرت لینا جائز ہے، اس لیے وہ یہ حدیث بیان کرنے پر اجرت لیتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: «إن أحق ما أخذتم عليه اجرا كتاب الله» ”بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔“ [صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5737]
سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت کے پیش نظر تدریس حدیث پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بلاضرورت اور کشائش کے باوجود اس کی حرص و طمع رکھنا اخلاص کے منافی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 58
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 398
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کیا جائے پھر اس میں جنابت کا غسل کیا جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 398]
398۔ اردو حاشیہ: ٹھہرا پانی وضو یا غسل کے کام آسکتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصود اور استعمال ہے، لہٰذا اسے پیشاب کر کے ناقابل استعمال نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اجازت عامہ کی صورت میں آخر وہ پانی متعفن ہو ہی جائے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (کتاب المیاہ کا ابتدائیہ اور حدیث: 35، 221، 222 کے فوائدومسائل)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 398
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 400
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا نہ ہو ہرگز پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل بھی کرے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 400]
400۔ اردو حاشیہ:
➊ دراصل حضرت ہشام بن حساب اس حدیث کو مرفوع بیان فرماتے تھے اور حضرت ایوب اسے موقوف (حضرت ابوہریرہ کا اپنا فرمان) بیان کرتے تھے، اس لیے شاگردوں نے حضرت ہشام سے وضاحت طلب کی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع ثابت ہے۔ حضرت ایوب کا اسے موقوف بیان کرنا ان کی احتیاط ہے۔ بہت سے محدثین حدیث کو مرفوع بیان کرنے سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب نہ ہو جائے، اس لیے وہ تابعی، صحابی تک رک جایا کرتے تھے۔ مگر یہ ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے، اس لیے اس سے روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
➋ یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا۔ کسی راوی نے اسے انہیں کی طرف منسوب کر دیا۔ دوسرے راویوں سے بلاشک و شبہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بیان ہوا ہے۔
➌ عربی الفاظ میں «الْمَاءُ الدَّائِمُ» کے ساتھ «الَّذِي لَا يَجْرِي» کی قید مزید وضاحت کے لیے ہے۔
➍جاری پانی میں، جبکہ شدید حاجت ہو، پیشاب کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں نجاست پانی کے ساتھ ہی آگے چلی جائے گی، بلکہ تحلیل ہو جائے گی اور تعفن پیدا نہیں ہو گا، تاہم جہاں تک ہو سکے بچنا ہی بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 400
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 221
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی ہونے کی حالت میں غسل نہ کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 221]
221۔ اردو حاشیہ:
➊ ٹھہرے پانی میں داخل ہو کر جنبی کا نہانا پانی کو ناقابل استعمال بنا سکتا ہے۔ اگرچہ ایک آدمی کے نہانے سے رنگ، بو اور ذائقے میں تبدیلی نہیں ہو گی مگر اجازت کی صورت میں تو جتنے آدمی بھی چاہیں، نہا سکتے ہیں۔ اس طرح رنگ، بو اور ذائقہ بدلنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
➋ نجاست سے قطع نظر پینے والوں کے لیے اس پانی کا استعمال طبعاً گوارا نہ ہو گا جس میں جنبی لوگ نجاست سمیت نہاتے ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 221
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 222
´ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا اور اس سے غسل کرنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر یہ کہ اسی سے غسل بھی کرے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 222]
222۔ اردو حاشیہ:
جب ٹھہرے پانی میں جنبی کا غسل کرنا درست نہیں، تو اس میں پیشاب کرنا تو بدرجہ اولیٰ منع ہو گا، خواہ بعد میں غسل کرے یا نہ کرے، کیونکہ کوئی اور آدمی بھی تو غسل کر سکتا ہے۔ غسل کا ذکر تو تقبیح کے لیے ہے، یعنی یہ تصور کیسا قبیح ہو گا کہ وہیں پیشاب کیا ہو اور وہیں غسل شروع کر دے، خواہ یہ شخص کرے یا کوئی اور، بہرحال اس حدیث سے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: [حديث: 35]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 222
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 332
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 332]
332۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 35، 221 اور 222 اور ان کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 332
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث605
´کیا جنبی کا ٹھہرے ہوئے پانی میں غوطہٰ لگا لینا کافی ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے“، پھر کسی نے کہا: ابوہریرہ! تب وہ کیا کرے؟ کہا: اس میں سے پانی لے لے کر غسل کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 605]
اردو حاشہ:
(1)
ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرے سے ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ اگر اس میں ایک کے بعد دوسرا آدمی غسل کرے گا تو وہ جلد ہی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔
جب کہ الگ پانی لے کر نہانے سے باقی پانی صاف ستھرا رہے گا اور دوسرے لوگ اس سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
(2)
یہ اسلام کی خوبی ہے کہ طہارت و نظافت میں ان آداب کی طرف رہنمائی کی ہے جن کی عام طور پر توجہ مبذول نہیں ہوتی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 605
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 68
´ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ۱؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 68]
اردو حاشہ:
1؎:
ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد ایسا پانی ہے جو دریا کی طرح جاری نہ ہو جیسے حوض اور تالاب وغیرہ کا پانی،
ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہوگا،
یہ پانی کم ہو یا زیادہ اس میں نجاست ڈالنے سے بچنا چاہئے تاکہ اس میں مزید بدبو نہ ہو،
ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے بھی سرانڈ پیدا ہو جاتی ہے،
اگر اس میں نجاست (گندگی) ڈال دی جائے تو اس کی سرانڈ بڑھ جائے گی اور اس سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 68
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:999
999- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”کوئی بھی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ وہ پھر اسی میں غسل بھی کرلے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:999]
فائدہ:
کھڑے پانی میں پیشاب کر نامنع ہے، کھڑے پانی سے وضو یا غسل کرنا درست ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ پانی پاس ہونا چاہیے۔ کھڑے پانی میں عموماً لوگ غسل وغیرہ کرتے ہیں، اس لیے اس میں پیشاب نہیں کرنا چا ہیے، اور اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ چلتے پانی میں پیشاب کرنا درست ہے نہیں ہرگز نہیں، اس طرح پانی میں پاخانہ وغیرہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 999
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 657
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ساکن پانی جو چلتا نہیں ہے، میں پیشاب نہ کرو کہ پھر اس میں نہانے لگو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:657]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
احادیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے۔
کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہیں کرنا چاہیے آپﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی کے لیے قلیل یا کثیر مقدار بیان نہیں فرمائی۔
بلاقید فرمایا ہے کہ ساکن پانی میں پیشاب نہ کرو۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بہتے پانی میں پیشاب کر لیا کرو۔
چونکہ عام طور پر یہ صورتحال ٹھہرے ہوئے پانی میں پیش آتی ہے اس لیے آپﷺ نے اس کی تصریح فرما دی،
اس طرح پیشاب برتن میں کرنےکے بعد،
اس میں ڈالنا یا پھینک دینا بھی مقصد اورروح شریعت کے منافی ہے،
اس لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے۔
جو داؤد ظاہری کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ ممانعت پیشاب کرنے سے خاص ہے پاخانہ کرنا یا برتن میں پیشاب کر کے کھڑے پانی میں پھینک دینا منع نہیں ہے۔
(شرح نووی: 1/ 1138)
اس حدیث کا تعلق بھی آداب اخلاق سے ہے اس کے تحت پانی کے قلیل وکثیر ہونے کی بحث چھیڑنا،
حدیث کے اصل مقصد کے منافی ہے اس لیے ٹھہرا ہوا پانی قلیل ہو یا کثیر ہر دو صورت میں اس میں پیشاب وپاخانہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس پانی سے اس کو نہانے کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے پھر کہاں سے نہائے گا۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس میں پیشاب کرنا ہرصورت میں منع ہے نہانہ ہو یا نہ۔
(شرح نووی: 138/1)
مقصد تو یہ ہے پانی میں پیشاب کرنا آداب اور اخلاق کے منافی ہے۔
راکد ٹھہرے ہوئے کی تخصیص تو محض اس لیے کر دی کہ اگرنہانے کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر انسان اس سے کراہت ونفرت محسوس کرے گا۔
اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
بالاتفاق نہر کے قریب پیشاب کرنا جبکہ پیشاب اس میں جا سکتا ہو ممنوع اور ناپسندیدہ ہے۔
(شرح نووی: 138/1)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 657
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 66
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں ہر گز پیشاب نہ کرے، کہ (پیشاب کرنے کے بعد) پھر اس سے غسل کرے۔ مخزومی کی روایت میں یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں (پیشاب نہ کرے) کہ پھر اس سے غسل کرے۔ [صحيح ابن خزيمه: 66]
فوائد:
➊ مہلب رحمہ اللہ کہتے ہیں: کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کو اصول فقہ کے قواعد پر پرکھا جائے گا، چنانچہ اگر پانی کثیر دو مٹکوں سے زائد ہو تو کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی نہی تنزیہی ہے، کیونکہ ایسا پانی طاہر ہی رہتا ہے، تاوقتیکہ اس کے تینوں اوصاف میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو اور اگر پانی قلیل (دومٹکوں سے کم ہو) تو ایسے پانی میں پیشاب نہ کرنا واجب ہے کیونکہ اس میں نجاست گرنے سے پانی فاسد ہو جاتا ہے۔
[شرح ابن بطال: 377/1]
➋ نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں حدیث کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے اگر بہنے والا پانی کثیر ہو تو اس میں پیشاب کرنا حرام نہیں، لیکن اس میں پیشاب کرنے سے گریز کرنا افضل ہے، لیکن اگر بہتا پانی قلیل ہو تو ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت کا موقف ہے کہ اس میں پیشاب کرنا مکروہ ہے لیکن راجح یہ ہے کہ اس قلیل پانی میں پیشاب کرنا حرام ہے۔ کیونکہ مذہب شافعی کی رو سے پیشاب اس پانی کو نجس کر دے گا اور بے خبر شخص بے خبری میں اس نجس پانی کو استعمال کر لے گا۔
[نووي: 186/3]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 66