(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح، حدثنا إسماعيل بن زكرياء، حدثنا عاصم، قال: قلت لانس بن مالك رضي الله عنه: ابلغك ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا حلف في الإسلام"، فقال: قد حالف النبي صلى الله عليه وسلم بين قريش، والانصار في داري.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ"، فَقَالَ: قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ، وَالْأَنْصَارِ فِي دَارِي.
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے (غلط قسم کے) عہد و پیمان نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔
Narrated `Asim: I heard Anas bin Malik, "Have you ever heard that the Prophet said, 'There is no alliance in Islam?' " He replied, "The Prophet made alliance between Quraish and the Ansar in my house."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 37, Number 491
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2294
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ عہد و پیمان اگر حق اور انصاف اور عدل کی بنا پر ہو تو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری ہے مگر اس عہد وپمان میں صرف باہمی مدد و خیر خواہی مد نظر ہوگی۔ اور ترکہ کا ایسے بھائی چارہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا کہ وہ وارثوں کا حق ہے۔ یہ امردیگر ہے کہ ایسے مواقع پر حسب قائدہ شرعی مرنے والے کو وصیت کا حق حاصل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2294
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2294
حدیث حاشیہ: دور جاہلیت میں عقد حلف کسی دشمن سے لڑنے اور اس پر حملہ کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ اسلام میں اس طرح کے عہدوپیمان کی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کو حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6465(2530) چونکہ راوی نے عقد حلف کی ممانعت کا موقع ومحل متعین نہیں کیا تھا،اس طرح ہر قسم کا حتمی معاہدہ غلط قرار پاتا تھا، اس لیے حضرت انس ؓ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ ہمارے گھر کرایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاہدہ نیک مقاصد اور نصرت حق کے لیے اب بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ جاہلیت کے اطوار کہ تیراخون ہمارا خون، جس سے تم لڑو گے اس سے ہم لڑیں گے وغیرہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس میں حق اور ناحق کی تمیز نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے ہاں معاہدات کی بنیاد قبائلی عصیبت پر ہوتی تھی۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2294