حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تین چیزیں بیان کی ہیں:
۔
منی کا دھونا منی کا کھرچ دینا اور عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت کا دھونا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے خون پیشاب اور مذی کے ساتھ لفظ غسل لا کر ان کے ناپاک ہونے پر تنبیہ کی تھی، اسی طرح یہاں بھی منی اور رطوبت فرج کے ساتھ لفظ غسل لا کر ان کے نجس ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ منی کی نجاست سے طہارت حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں، اگر آلودہ کپڑا ترہے تو اسے دھویا جائے۔
اگر منی خشک ہو چکی ہے تو اسے کھرچ دیا جائے۔
بعض روایات میں تر کپڑے سے منی کو تنکے وغیرہ سے دور کر دینے کا ذکر ہے۔
اس کا ذکر ہم آئندہ کریں گے۔
2۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تین امور کا ذکر کیا ہے، لیکن حدیث میں صرف غسل منی کا حکم ہے، باقی دو یعنی فرک
(کھرچنے) اور رطوبت فرج
(شرم گاہ کی تری) کا کیا حکم ہے؟ اس کے متعلق کوئی حدیث ذکر نہیں کی۔
اس کے متعلق شارحین بخاری نے مختلف توجیہات ذکر کی ہیں۔
تاہم ہمارے نزدیک عنوان کے ہر سہ اجزاء حدیث الباب سے ثابت ہیں۔
البتہ ہر جز کے لیے اس کی دلالت الگ الگ نوعیت کی ہے، غسل منی تو عبارت نص سے ثابت ہے اور فرک منی اس طرح ثابت ہے کہ بقائے اثر کا غیر مضر ہونا، حدیث الباب سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے اور فرک میں بھی ظاہری اجزاء زائل تو ہو جاتے ہیں اس کا خفیف سا اثر باقی رہتا ہے جو چنداں نقصان دہ نہیں۔
اور رطوبت فرج کا ذکر حدیث کے الفاظ "أغسل الجنابة" میں ہے کہ جنابت سے مراد عام منی ہے، خواہ مرد کی ہو یا عورت کی اس کا دھونا متعین ہے۔
اس سے اس کی نجاست ثابت ہو گئی۔
3۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرک منی کے متعلق چند احادیث ذکر کی ہیں:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے خشک منی کو اپنے ناخن سے کھرچ دیتی تھیں۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 674 (290)
حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ایک مہمان ٹھہرا، اسے رات کو احتلام ہو گیا تو اس نے بستر کی چادر دھودی۔
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس نے ہمارے کپڑے کو خواہ مخواہ خراب کردیا ہے، صرف اتنا کافی تھا کہ وہ منی کو کھرچ دیتا۔
میں خود رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اسے کھرچ دیتی تھی۔
(جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 116)
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اذخر کے تنکوں کے ذریعے سے منی کو دور کردیتی تھیں، پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔
(صحیح ابن خزیمة: 149/1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جن کپڑوں سے منی کو کھرچا جاتا تھا وہ نیند کے کپڑے تھے، ان میں نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ موقف صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی کو کھرچ ڈالتی تو آپ اس میں نماز ادا کر لیتے۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 668 (288)
ان احادیث کے پیش نظر یہ موقف غلط ہے کہ مفروک کپڑوں میں نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
(فتح الباري: 434/1)