صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: بیع سلم کے بیان میں
The Book of As-Salam
3. بَابُ السَّلَمِ إِلَى مَنْ لَيْسَ عِنْدَهُ أَصْلٌ:
3. باب: اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو۔
(3) Chapter. As-Salam to a person who has got nothing (to pay for the prices he receives in advance).
حدیث نمبر: 2244
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، حدثنا محمد بن ابي المجالد، قال: بعثني عبد الله بن شداد، وابو بردة، إلى عبد الله بن ابي اوفى رضي الله عنه، فقالا: سله، هل كان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون في الحنطة؟ قال عبد الله:" كنا نسلف نبيط اهل الشام في الحنطة، والشعير، والزيت، في كيل معلوم إلى اجل معلوم"، قلت: إلى من كان اصله عنده، قال: ما كنا نسالهم عن ذلك، ثم بعثاني إلى عبد الرحمن بن ابزى، فسالته، فقال: كان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولم نسالهم الهم حرث ام لا. حدثنا إسحاق، حدثنا خالد بن عبد الله، عن الشيباني، عن محمد بن ابي مجالدبهذا، وقال: فنسلفهم في الحنطة، والشعير، وقال عبد الله بن الوليد، عن سفيان، حدثنا الشيباني، وقال والزيت، حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن الشيباني، وقال: في الحنطة، والشعير، والزبيب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْمُجَالِدِ، قَالَ: بَعَثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، وَأَبُو بُرْدَةَ، إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَا: سَلْهُ، هَلْ كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْلِفُونَ فِي الْحِنْطَةِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" كُنَّا نُسْلِفُ نَبِيطَ أَهْلِ الشَّأْمِ فِي الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالزَّيْتِ، فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ"، قُلْتُ: إِلَى مَنْ كَانَ أَصْلُهُ عِنْدَهُ، قَالَ: مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ عَنْ ذَلِكَ، ثُمَّ بَعَثَانِي إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْلِفُونَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ نَسْأَلْهُمْ أَلَهُمْ حَرْثٌ أَمْ لَا. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مُجَالِدٍبِهَذَا، وَقَالَ: فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، وَقَالَ وَالزَّيْتِ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، وَقَالَ: فِي الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالزَّبِيبِ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی مجالد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کے یہاں بھیجا اور ہدایت کی کہ ان سے پوچھو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے زمانے میں گیہوں کی بیع سلم کرتے تھے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم شام کے انباط (ایک کاشتکار قوم) کے ساتھ گیہوں، جوار، زیتون کی مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے سودا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا صرف اسی شخص سے آپ لوگ یہ بیع کیا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے متعلق پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد ان دونوں حضرات نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے عہد مبارک میں بیع سلم کیا کرتے تھے اور ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے کھیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے یہی حدیث۔ اس روایت میں یہ بیان کیا کہ ہم ان سے گیہوں اور جَو میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے شیبانی نے بیان کیا، اس میں انہوں نے زیتون کا بھی نام لیا ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، اور اس میں بیان کیا کہ گیہوں، جَو اور منقی میں (بیع سلم کیا کرتے تھے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Muhammad bin Al-Mujalid: `Abdullah bin Shaddad and Abu Burda sent me to `Abdullah bin Abi `Aufa and told me to ask `Abdullah whether the people in the lifetime of the Prophet used to pay in advance for wheat (to be delivered later). `Abdullah replied, "We used to pay in advance to the peasants of Sham for wheat, barley and olive oil of a known specified measure to be delivered in a specified period." I asked (him), "Was the price paid (in advance) to those who had the things to be delivered later?" `Abdullah bin `Aufa replied, "We did not use to ask them about that." Then they sent me to `Abdur Rahman bin Abza and I asked him. He replied, "The companions of the Prophet used to practice Salam in the lifetime of the Prophet; and we did not use to ask them whether they had standing crops or not."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 35, Number 447


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2244 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2244  
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔
معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔
مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔
اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔
اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔
حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔
لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
جَمْعُ نُبَيْطٍ:
وَهُمْ قَوْمٌ مَعْرُوفُونَ كَانُوا يَنْزِلُونَ بِالْبَطَائِحِ بَيْنَ الْعِرَاقَيْنِ قَالَهُ الْجَوْهَرِيُّ، وَأَصْلُهُمْ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ دَخَلُوا فِي الْعَجَمِ وَاخْتَلَطَتْ أَنْسَابُهُمْ وَفَسَدَتْ أَلْسِنَتُهُمْ، وَيُقَالُ لَهُمْ:
النَّبَطُ بِفَتْحَتَيْنِ، وَالنَّبِيطُ بِفَتْحِ أَوَّلِهِ وَكَسْرِ ثَانِيهِ وَزِيَادَةِ تَحْتَانِيَّةٍ، وَإِنَّمَا سُمُّوا بِذَلِكَ لِمَعْرِفَتِهِمْ بِإِنْبَاطِ الْمَاءِ:
أَيْ:
اسْتِخْرَاجِهِ لِكَثْرَةِ مُعَالَجَتِهِمْ الْفِلَاحَةَ وَقِيلَ:
هُمْ نَصَارَى الشَّامِ، وَهُمْ عَرَبٌ دَخَلُوا فِي الرُّومِ وَنَزَلُوا بَوَادِي الشَّامِ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا قَوْلُهُ:
" مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ " وَقِيلَ:
هُمْ طَائِفَتَانِ:
طَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالْعَجَمِ وَنَزَلُوا الْبَطَائِحَ وَطَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالرُّومِ وَنَزَلُوا الشَّامَ (نیل الأوطار)
یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔
یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔
نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔
یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔
اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔
انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔
اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔
مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔
روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔
اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔
بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔
خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2244   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2244  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اصل سے مراد آئندہ ادا کی جانے والی چیز کی اصل ہے،چنانچہ گندم کی اصل کھیتی ہے اور پھلوں کی اصل درخت ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ بیع سلم میں کوئی شخص یہ شرط نہ لگائے کہ جس شخص سے معاملہ کیا جارہا ہے وہ مطلوبہ چیز کے ذرائع بھی رکھتا ہو،مثلاً:
یہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں سے انڈے لینے کا معاملہ کیاجارہا ہے ان کے پاس کوئی پولٹری فارم ہویا گندم کا معاملہ صرف کھیتی یا مالکان زمین سے ہوسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ کسی کے پاس ایک مرغی یا گندم کا ایک پودا بھی نہ ہو لیکن وہ ہزاروں درجن انڈے یا ہزاروں من گندم فراہم کرسکتا ہو۔
(2)
اس میں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس بیع میں دھوکا ممکن ہے، اس لیے کہ جب ذریعہ ہی نہیں تو کہاں سے فراہم ہوں گے، اس حدیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2244   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.