ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی مجالد نے (تیسری سند) اور ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے۔ (دوسری سند) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے محمد اور عبداللہ بن ابی مجالد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد اور ابوبردہ میں بیع سلم کے متعلق باہم اختلاف ہوا۔ تو ان حضرات نے مجھے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں گیہوں، جَو، منقی اور کھجور کی بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
Narrated Shu`ba: Muhammad or `Abdullah bin Abu Al-Mujalid said, "Abdullah bin Shaddad and Abu Burda differed regarding As-Salam, so they sent me to Ibn Abi `Aufa and I asked him about it. He replied, 'In the lifetime of Allah's Apostle, Abu Bakr and `Umar, we used to pay in advance the prices of wheat, barley, dried grapes and dates to be delivered later. I also asked Ibn Abza and he, too, replied as above.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 35, Number 446
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2242
حدیث حاشیہ: حافظ فرماتے ہیں: أجمعوا علی أنه إن کان في السلم ما یکال أو یوزن فلا بد فیه من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فإن کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیه من عدد معلوم۔ یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔ فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔ اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ کوفہ کے باشندے ہیں۔ بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔ بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔ فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ صحابی ہیں۔ حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ 87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔ کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام ؓ کو دیکھا۔ حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔ جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔ بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمه اللہ رحمة واسعة۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2242
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2242
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ اور وزن کے قابل ہیں ان کا ماپ اور وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے، نیز اوصاف کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوسکے اور آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہو۔ (فتح الباري: 543/4) (2) دراصل کاریگروں اور کاشت کاروں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسا کام جائز نہ ہوتو وہ کاروبار نہیں کرسکیں گے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا لین دین مدینہ طیبہ میں بہت عام تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر اسے جاری رکھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2242