ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابی بکر بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا تھا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2237
حدیث حاشیہ: عرب میں کاہن لوگ بہت تھے جو آئندہ کی باتیں لوگوں کو بتلایا کرتے تھے۔ آج کل بھی ایسے دعویدار بہت ہیں۔ ان کو اجرت دینا یا شیرینی پیش کرنا قطعاً جائز نہیں ہے نہ ان کا پیسہ کھانا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2237
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 593
´کتے کی قیمت حرام ہے` «. . . عن ابى مسعود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن . . .» ”. . . سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے، زانیہ کی خرچی سے اور کاہن نجومی کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 593]
تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري، 2237، و مسلم، 1567، من حديث مالك به]
تفقہ: ➊ یہ حدیث ان لوگوں کا زبردست رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کتا بیچنا جائز ہے۔! ➋ اس پر اجماع ہے کہ زانیہ کی خرچی اور کاہن کی مٹھائی حرام ہے۔ [التمهيد 398/8] ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثمن الکلب خبیث ومھر البغی خبیث وکسب الحجام خبیث» ”کتے کی قیمت خبیث ہے اور زانیہ کی خرچی خبیث ہے اور حجام کی کمائی خبیث ہے۔“[صحيح مسلم: 1568/41 [4012] ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا یحل ثمن الکلب» ”کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔“[سنن ابي داود: 3484 وسنده حسن] ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔ [سنن ابي داود: 3482 وسنده صحيح] ➍ جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیا گیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔ مثلاً: ① «عن جابر أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن السنور و الكلب إلا كلب صيد»[سنن النسائي 7/191 ح 4300 و قال: ليس هو بصحيح 7/309 ح 672 و قال: ”هذا منكر“] یہ روایت ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کے «عن» کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابوالزبیر مشہور مدلس تھے۔ ديكهئے: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص62، 61 رقم 3/101] ② «عن ابي هريرة نهى عن مهر البغي و عسب الفحل وعن ثمن السنور وعن الكلب إلا كلب صيد»[السنن الكبري للبيهقي 6/6] یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ محمد بن یحییٰ بن مالک الضبی کی توثیق نامعلوم ہے۔ ➋ حماد بن سلمہ اور قیس بن سعد دونوں ثقہ ہیں لیکن حماد کی قیس سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ قال البیہقی: «ورواية حماد عن قيس فيها نظر»[ايضاً 6/6] حماد بن سلمہ عن قیس بن سعد والی یہی روایت صحیح ابن حبان میں موجود ہے لیکن اس میں کتا بیچنے کی اجازت نہیں بلکہ لکھا ہوا ہے کہ «إنّ مهر البغي وثمن الكلب والسنور وكسب الحجام من السحت»[الاحسان 217/7 ح 4920] سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے کتے اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: «زجر النبى صلى الله عليه وسلم عن ذالك» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔“[صحيح مسلم، 42/1569، 4015] اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔ ③ سنن دار قطنی [72/3، 73 ح 3045، 3046، 3047] میں بعض روایتیں مروی ہیں جن سے بعض کتوں کی فروخت کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ساری روایتیں ضعیف و مردود ہیں اور ان میں سے بعض کے راویوں کو خود امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ آل تقلید کی پیش کردہ بعض مزید روایات کی تحقیق درج ذیل ہے۔ ④ «ابوحنیفة عن الهيثم عن عكرمة عن ابن عباس قال: رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمن کلب الصید»[مسند ابي حنيفه راوية الحصكفي ص 169، اردو مترجم ص 319، جامع المسانيد للخوارزمي 10/2، 11] مسند الحصکفی [متوفيٰ 650 هجری] کا ایک سابق راوی ابومحمد عبد اللہ بن یعقوب الحارثی تھا۔ [اردو مترجم ص24 مسند الحصكفي ص 27] عبدالله بن محمد بن یعقوب الحارثی محدثین کرام کے نزدیک سخت مجروح ہے۔ ابوزرعہ أحمد بن الحسین الرازی نے کہا: ”ضعیف“[سوالات حمزه بن يوسف السهمي: 318] ابو احمد الحافظ اور حاکم نیشاپوری نے کہا: «الأستاذ ينسج الحديث»”یہ استاد تھا، حدیث بناتا تھا۔“[كتاب ال قرأت خلف الامام للبيهقي ص178، ح388] یعنی یہ شخص حدیثیں گھڑنے میں پورا استاد تھا۔ اس پر خطیب بغدادی، خلیلی، ابن جوزی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ نے جرح کی ہے۔ [تاريخ بغداد 126/10 ت 5262، الارشاد للخليلي، 972/3 ت 899، كتاب الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 141/2، ديوان الضعفاء للذهبي 63/2 ت 2297] نیز دیکھئے: [ميزان الاعتدال 496/2، و لسان الميزان 349، 348/3] اس کی توثیق کسی قابل اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے۔ جامع المسانید للخوارزمی کی سندوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ⓵ خوارزمی بذات خود غیر موثق و مجہول التوثیق ہے۔ ⑤ ابومحمد البخاری الحارثی کذاب ہے۔ «كما تقدم» ➌ أحمد بن محمد بن سعید عرف ابن عقدہ جمہور محدثین کے نزدیک مجروح راوی ہے۔ امام دارقطنی نے اس کی تعریف کے باوجود فرمایا کہ یہ خراب آدمی یعنی رافضی تھا۔ [تاريخ بغداد 22/5 ت 2365 و سنده صحيح] اور فرمایا: یہ منکر روایتیں کثرت سے بیان کرتا تھا۔ [ايضاً وسنده صحيح] ابوعمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص جامع براثا میں صحابہ کرام یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وغیرہما پر تنقیدیں لکھوایا کرتا تھا لہٰذا میں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا۔ [سوالات حمزةالسهمي: 166، وسنده صحيح] یہ (ابن عقدہ) چور بھی تھا، اس نے عثمان بن سعید المری کے بیٹے کے گھر سے کتابیں چرالی تھیں۔ [الكامل فى الضعفاء لابن عدي 209/1 وسنده صحيح، محمد بن الحسين بن مكرم البغدادي ثقه وثقه الدارقطني وغيره] معلوم ہوا کہ ابن عقدہ چور، ساقط العدالت اور رافضی تھا۔ ➍ أحمد بن عبدالله بن محمد الکندی اللجلاج نے امام ابوحنیفہ کے لئے منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔ [الكامل لابن عدي 197/1] امام ابوحنیفہ ایسی منکر حدیثوں کے محتاج نہیں ہیں۔ والحمدللہ أحمد بن عبدالله الکندی کی اس کتے والی روایت کو حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے باطل حدیث قرار دیا ہے۔ [الاحكام الوسطي 249/3، لسان الميزان 199/1] ➎ محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کے بارے میں اسماء الرجال کے امام یحیی بن معین نے فرمایا: «ليس بشئ»”وہ کچھ چیز نہیں ہے۔“[تاريخ ابن معين: 1770] امام ابن معین نے مزید فرمایا: «جھمی کذاب»”محمد بن الحسن الشیبانی جہمی کذاب ہے۔“[كتاب الضعفاء للعقيلي 82/4 وسنده صحيح] دوسری سند میں أحمد بن عبدالله الکندی اور محمد بن الحسن الشیبانی دونوں مجروح ہیں اور الحسن بن الحسین الانطاکی نامعلوم ہے۔ تیسری سند میں ابن عقدہ چور، عبد اللہ بن محمد البخاری کذاب اور أحمد بن عبد اللہ الکندی و محمد بن الحسن دونوں مجروح ہیں۔ چوتھی سند میں حسین بن محمد بن خسرو البلخی، الحسین بن الحسین انطاکی (؟) أحمد بن عبد اللہ اور محمد بن الحسن مجروح ہیں۔ پانچویں سند میں ابن خسرو، حسین بن حسین، أحمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن ہیں۔ چھٹی اور آخری سند میں ابن خسرو معتزلی مجروح ہے۔ دیکھئے: [لسان الميزان 312/2، وسير اعلام النبلاء 592/19] قاضی ابونصر بن اشکاب اور عبداللہ بن طاہر نامعلوم اور محمد بن الحسن الشیبانی مجروح ہے۔
خلاصۃ التحقیق: یہ روایت باطل و مردود ہے اور امام ابوحنیفہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بعض کتوں کی فروخت کے جواز والی سب روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔ کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [الهدايه للمرغيناني 2/101، واللفظ له، 3/79] [القدوري ص74 قبل باب الصرف،] [فتح القدير لابن همام 6/345،] [بدائع الصنائع 5/142،] [كنز الدقائق ص 257،] [البحر الرائق 172/6،] [الدر المختار مع كشف الاستار 50/2،] [رد المختار المعروف بفتاويٰ شامي 238/4، 239،] [حاشية الطحاوي على الدر المختار 127/3،] [كتاب الفقه على المذاهب الاربعه 232/2،] اور [الفقه الاسلامي و ادلته 446/4،] وغیرہ، بلکہ بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتاويٰ عالمگيري 3/115] ! یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ملا مرغینانی نے لکھا ہے کہ «واذا ذبح مالا يؤكل لحمه طهر جلده و لحمه الا الآدمي و الخنزير»”آدمی اور خنزیر کے علاوہ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا، اسے ذبح کرنے سے اس کا گوشت اور چمڑا پاک ہوتا ہے۔“[الهدايه 441/2 دوسرا نسخه 69/4] یہ فتویٰ بھی بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 57
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 651
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، بدکار و فاحشہ عورت کی اجرت و کمائی اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 651»
تخریج: «أخرجه البخاري، الإجارة، باب كسب البغي والإماء، حديث:2282، ومسلم، المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، حديث:1567.»
تشریح: 1 .اس حدیث سے مذکورہ بالا چیزوں‘ یعنی کتے کی قیمت‘ بازاری عورت کے زنا اور کاہن کی کہانت کی اجرت کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ 2.کتا بذات خود نجس ہونے کی بنا پر حرام ہے اور حرام چیز کی قیمت لینا بھی حرام ہے‘ تاہم بعض ائمہ نے شکاری کتے کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اسے گھر میں رکھنا جائز ہے۔ اور اس کی تائید میں وہ سنن نسائی کی روایت (۴۶۷۲) پیش کرتے ہیں۔ اس قول کے مطابق اس کتے کی خرید و فروخت منع ہو گی جسے رکھنا حرام ہے‘ لیکن سنن نسائی کی اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے‘ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ ہر قسم کے کتے کی خرید و فروخت سے اجتناب کیا جائے‘ نیز جمہور علماء نے بھی مطلقاً کتے کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 3.زنا اسلام میں قطعی حرام ہے اور اس کی کمائی بھی حرام ہے۔ 4.پیشہ ٔکہانت حرام ہے تو اس کی اجرت بھی حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 651
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4297
´کتے کی قیمت لینے کی ممانعت کا بیان۔` ابومسعود عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎ زانیہ عورت کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی اجرت ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4297]
اردو حاشہ: (1) جمہور اہل علم کے نزدیک کتے کی خرید و فروخت منع ہے، خواہ اس کا رکھنا جائز ہو یا ناجائز، اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ کتا خریدنے یا بیچنے والی چیز نہیں کہ اس کو کمائی کا ذریعہ بنایا جائے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کتے کی خرید و فروخت کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ چونکہ ہر کتے سے شکار اور حفاظت کا کام لیا جاسکتا ہے، لہٰذا ہر کتے کی خرید و فروخت جائز ہے، عام کی نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات صریح حدیث کے مقابلے میں قابل تسلیم نہیں۔ وہ اس حدیث کو اس دور سے متعلق بتاتے ہیں جب آپ نے کتے مارنے کا حکم دیا تھا۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی۔ لیکن یہ صرف ایک احتمال ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (2)”زانیہ کی اجرت“ چونکہ زنا جرم ہے، لہٰذا اس کی اجرت بھی حرام ہے اور یہ متفقہ بات ہے۔ (3)”کاہن کی نذر ونیاز“ کاہن سے مراد غیب کی خبریں بتانے والا ہے۔ ان لوگوں کے جنات وشیا طین سے روابط ہوتے ہیں، لہٰذا یہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کام منع ہے، اس لیے اس پر ملنے والی چیز بھی منع ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ کسی سے غیب کی خبریں پوچھنا جائز ہے اور نہ بتانا کیونکہ جنات وشیا طین ایک سچ کے ساتھ کئی جھوٹ بھی بولتے ہیں، لہٰذا ان کی بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4297
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4670
´کتا بیچنے کا بیان۔` ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور نجومی کی آمدنی سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4670]
اردو حاشہ: تفصیلی بحث کے لیے ملا حظہ فرمائیں، فوائد حدیث: 4297۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4670
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3428
´کاہن اور نجومی کی اجرت کا بیان۔` ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ عورت کی کمائی ۲؎، اور کاہن کی اجرت ۳؎ لینے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3428]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ کاہن وہ ہیں جو لوگوں کو مستقبل کی خبریں اور قسمت کے احوال بتاتے ہیں۔ یہ کذاب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جانا ہی حرام ہے۔ اگر کوئی ان کی پیش گوئی کو سچ مانے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2230) انہیں کچھ دینا بھی حرام ہے۔ اور ان کی اپنی کمائی بھی حرام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3428
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3481
´کتے کی قیمت لینا منع ہے۔` ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کی کمائی سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3481]
فوائد ومسائل: اس حدیث میں کتے کالفظ اگرچہ عام ہے۔ شکاری ہویا غیر شکاری یا جاسوسی وغیرہ کے لئے ہو۔ اس عموم سے سب کی خریدوفروخت ناجائز ہونی چاہیے۔ لیکن اس عموم سے دوسرے دلائل کی رو سے وہ کتے مستثنیٰ ہوجایئں گے جن کے رکھنے کو احادیث میں جائز قراردیا گیا ہے۔ جیسے شکار کے لئئے رکھوالی کےلئے یا جیسے آج کل جاسوسی وغیرہ کے لئے کتے رکھنا ہے۔ جب ان کا رکھنا جائز ہے تو ان کی یقینا ً خریدوفروخت بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ اس کے بغیر مذکورہ کاموں کےلئے کتوں کا ملنا نا ممکن ہوجائےگا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں استثناء بھی آیا ہے۔ جیسے حدیث ہے۔ نهی عن ثمنِ الكلبِ والسنورِ إلاكلب صيدٍ (صحیح سنن نسائی، حدیث: 4682و الصحییحة، حدیث: 348) رسول اللہ ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔ سوائے شکاری کتے کے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شکاری کتے کی خریدوفروخت جائز ہے۔ اور اس کے جواز کو جوعلت ہے۔ وہ واضح ہے۔ اسی علت کی وجہ سے رکھوالی اور جاسوسی وغیرہ مقاصد کےلئے بھی کتوں کی خریدوفروخت جائز ہوگی۔ واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3481
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2159
´کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی، کاہن کی اجرت اور نر سے جفتی کرانے کی اجرت کے احکام کا بیان۔` ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2159]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حرام اشیاء کی خریدو فروخت بھی حرام ہے۔
(2) کاہن اسے کہتے ہیں جو مستقبل کے واقعات کی پشین گوئی کرے اور غیب کی باتیں بتانے کا دعویٰ کرے۔ اس میں نجومی، جوتشی، علم الاعداد، علم جعفر وغیرہ کے نام سے کام کرنے والے اور طوطے وغیرہ سے فال نکالنے والے سبھی شامل ہیں۔
(3) کاہن اور نجومی عوام کو دھوکا دے کر روزی کماتے ہیں، اس لیے ان کی کمائی حرام ہے۔ ایسے لوگوں سے مستقبل کی باتیں پوچھنا حرام ہےکیونکہ وہ توحید کے منافی ہیں۔
(4) جو لوگ قدموں کے نشان پہچان کر چور کو تلاش کر لیتے ہیں، وہ اس وعید میں شامل نہیں کیونکہ قیافہ شناسی ایک جائز فن ہے جس میں ذہانت کی مدد سے انسان کے ہاتھوں، پاؤں، چہرے وغیرہ کی بناوٹ اور شکل و صورت سے بعض چیزوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
(5) دور جاہلیت میں لوگ اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کا پیشہ کراتے تھے اور اسے آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسلام میں زنا حرام ہے، خواہ وہ پیسے دے کر کیا جائے، یا دوستی اور محبت کے نام پر باہمی رضامندی سے۔ ناجائز تعلقات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا فائدہ خواہ اجرت کے نام سے حاصل ہو، یا تحفے کے نام سے، وہ حرام ہے۔
(6) بعض لوگوں نے شکاری کتے کی خریدو فروخت کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اسے گھر میں رکھنا جائز ہے۔ اس قول کے مطابق اس کتے کی خریدو فروخت منع ہوگی جسے رکھنا حرام ہے، تاہم احتیاط اس میں ہے کہ ہر قسم کے کتے کی خریدو فروخت سے اجتناب کیا جائے واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2159
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1133
´زانیہ کی کمائی کی حرمت کا بیان۔` ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی مٹھائی ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1133]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خریدوفروخت اوراس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الا یہ کہ کسی اشدضرورت مثلاً گھر، جائداد اورجانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
2؎: چونکہ زنا کبیرہ گناہ اورفحش امورمیں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہو نے والی اجرت بھی ناپاک اورحرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزادعورت۔
3؎: علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑمیں کاہن اورنجومی عوام سے باطل طریقے سے جومال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1133
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1275
´کتے کی قیمت کا بیان۔` رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے ۱؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ۲؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے“۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1275]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: «كسب الحجام خبيث» میں خبیث کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اورغیرشریفانہ ہونے کے معنی میں ہے رسول اللہ ﷺنے محیصہ رضی اللہ عنہ کویہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اورغلام کوفائدہ پہنچاؤ، نیز آپ نے خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کواس کی اجرت بھی دی، لہٰذا پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق خبیث کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے لہسن اور پیاز کو خبیث کہا باوجودیکہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیرشریفانہ ہے۔ یہاں خبیث بمعنی حرام ہے۔
2؎: چونکہ زنا فحش اموراورکبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اورحرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد ہو۔
3؎: کتا چونکہ نجس اورناپاک جانورہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کوجس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کاحکم دیا ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب کتے کی خریدوفروخت اوراس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الا یہ کہ کسی شدید ضرورت سے ہو مثلاً گھر جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ پھر بھی قیمت لینا گھٹیا کام ہے، ہدیہ کردینا چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1275
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2071
´کاہن (نجومی) کی اجرت کا بیان۔` ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2071]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: غیب کا علم صرف رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعوی کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اسی لیے اس دعوی کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل اورغلط طریقے سے جو مال لوگوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ حرام ہے، زنا معصیت اورفحش کے اعمال میں سے سب سے بد ترین عمل ہے، اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت ناپاک اور حرام ہے، کتا ایک نجس جانور ہے اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ جس برتن میں یہ منہ ڈال دے شریعت نے اسے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے، اسی لیے کتے کی خرید وفروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، سوائے اس کے کہ گھر، جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2071
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:455
455- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، فاحشہ عورت کے معاوضے اور کاہن کی مٹھائی (یا معاوضے) سے منع کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:455]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کتے کو فروخت کرنا منع ہے، خواہ وہ کوئی بھی کتا ہو، شکاری ہو یا غیر شکاری، اس پر تفصیلی بحث راقم نے اپنی قیمتی کتاب”جانوروں کے احکام“ میں کر دی ہے، والحمد للہ۔ اب محمد بن قاسم، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبدالعزیز جیسوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو ہمت دے جو برائی کو ختم کر دے، آمین۔ کاہن بھی جھوٹ پھیلاتا، تو ہمات اور گمراہی کی تجارت کرتا ہے اس کی کمائی بھی حرام ہے۔ آج کل یہ کاروبار بھی پورے عروج پر ہے۔ اصول یہ سامنے آتا ہے کہ جو چیز یا کام بذتہٖ حرام ہے۔ اس کی قیمت بھی حرام ہے۔ اس کی تجارت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اصول خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔ [ســن ابـى داود: 3488] زنا کاری کا معاوضہ لینے والے حرام کا سودا کر رہے ہیں۔ اس کمائی کے حصول کے لیے آج دنیا بھر میں شرمناک ظلم وستم جاری ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کو فریب دے کر یا ز بردستی اس میں ملوث کیا جا تا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس کام کی اجازت دینا گندگی اور ظلم کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 455
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4009
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کے نذرانہ سے منع فرمایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4009]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: عراف: موجودہ پوشیدہ چیز کی خبر دینے والا یعنی چوری شدہ یا گم شدہ اشیاء کی معرفت کا دعویٰ کرنے والا اور نجومی بھی کاہن کے حکم میں ہیں۔ فوائد ومسائل: (1) جمہور فقہاء نے اس حدیث کی روشنی میں کتوں کی خرید و فروخت کو منع قرار دیا ہے، خواہ کتے شکاری ہوں یعنی ٹریننگ یافتہ ہوں یا عام، ان کا رکھنا جائز ہو یا ناجائز، ہر صورت میں ان کی قیمت لینا ناجائز ہے، امام شافعی، امام احمد، امام ربیعہ الرائے، امام اسحاق، محمد بن سیرین، حسن بصری، اوزاعی، حماد بن ابی سلیمان، (امام ابو حنیفہ کے استاد) وغیرھم کا یہی موقف ہے، اور امام مالک کا ایک قول یہی ہے، لیکن ائمہ احناف اور نخعی کے نزدیک، جن کتوں کو رکھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، ان کی قیمت لینے کی گنجائش ہے، لیکن یہ پسندیدہ کام نہیں ہے، دلیل کی رو سے جمہور کا موقف صحیح ہے، کیونکہ کتوں کی خرید و فروخت ایک ناپسندیدہ کام ہے، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ (2) زنا چونکہ ناجائز فعل ہے اس لیے اس کی اجرت و مزدوری کو مہر سے تعبیر کیا گیا ہے، بالاتفاق حرام ہے۔ (3) کاہن جو آئندہ زمانے کے بارے میں خبریں دیتا ہے اور غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہے، اس کا نذرانہ جس کو وہ بغیر محنت و مشقت کے حاصل کر لیتا ہے، اس وجہ سے اس کو شیرینی اور مٹھاس سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4009
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5761
5761. حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کتے کی قیمت بدکارہ عورت کی اجرت اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5761]
حدیث حاشیہ: یعنی ایک مومن مسلمان کے لیے ان کا کھانا لینا حرام ہے۔ کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی اجرت اور کاہنوں کے تحائف ان کا لینا اور کھانا قطعاً حرام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5761
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5346
5346. سیدنا ابو مسعود ؓ سےروایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے کتے کی قیمت، کاہن کی اجرت اور بدکار عورت کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5346]
حدیث حاشیہ: یہ سب کمائیاں حرام ہیں۔ بعضوں نے شکاری کتے کی بیع درست رکھی ہے۔ اب جو مولوی مشائخ رنڈیوں کی دعوت کھاتے ہیں یا فال تعویذ گنڈے کر کے رنڈیوں سے پیسہ لیتے ہیں وہ مولوی مشائخ نہیں بلکہ اچھے خاصے حرام خور ہیں وہ پیٹ کے بندے ہیں۔ فاحذروھم أیھا المؤمنون۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5346
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2282
2282. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت زانیہ کی کمائی اور کاہن کی شرینی سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2282]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے مطابق زانیہ عورت کی کمائی حرا م ٹھہرتی ہے، خواہ آزاد ہو یا لونڈی،اس طرح یہ حدیث عنوان کے ہر دو اجزاء سے مطابق ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی زانیہ اور لونڈی میں عموم خصوص من وجہ کی نسبت ہے کیونکہ زانیہ کبھی لونڈی ہوتی ہے تو کبھی آزاد عورت بھی یہ پیشہ اختیار کرلیتی ہے۔ بہر حال مذکورہ حدیث کے مطابق یہ پیشہ اختیار کرنا حرام اور اس کی کمائی باطل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2282
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5761
5761. حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کتے کی قیمت بدکارہ عورت کی اجرت اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5761]
حدیث حاشیہ: (1) دین اسلام میں کہانت کا پیشہ حرام اور اس کی کمائی بھی ناجائز ہے۔ اسے کسی صورت میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ (2) کہانت کی کئی قسمیں ہیں، جن میں حسب ذیل چار مشہور ہیں: ٭ شیاطین آسمانوں کی طرف چڑھتے اور فرشتوں کی گفتگو سے کچھ سن گن لیتے، پھر وہ کاہن کو بتاتے اور اس میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کرتے، اسلام کے بعد یہ سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا۔ ٭ جن ایسے دوستوں کو ایسی خبریں بتاتے جو عام انسانوں سے غائب ہوتیں، یا قریب سے پتا چلتا، دور سے نہیں چلتا تھا، ایسی باتیں جنوں کے ذریعے سے معلوم کر کے انسانوں کو بتائی جاتیں۔ ٭ محض گمان اور اٹکل پچو سے بات کی جاتی اور اتفاق سے کچھ صحیح نکل آتی، اس سے دوسروں کو شکار کیا جاتا تھا۔ ٭ اپنے تجربے سے اندازہ لگایا جاتا اور یہ آخری قسم جادو سے ملتی جلتی ہے۔ اسلام نے ان تمام قسموں کو حرام قرار دیا ہے اور ان کی کمائی بھی ناجائز ہے۔ (فتح الباري: 267/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5761