87. باب: اگر کسی نے پختہ ہونے سے پہلے ہی پھل بیچے پھر ان پر کوئی آفت آئی تو وہ نقصان بیچنے والے کو بھرنا پڑے گا۔
(87) Chapter. If somebody sells fruits before their benefit is evident and free from blights and then they get afflicted with some defects, they will be given back to the seller.
(مرفوع) قال الليث:حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال: لو ان رجلا ابتاع ثمرا قبل ان يبدو صلاحه، ثم اصابته عاهة؟ كان ما اصابه على ربه اخبرني سالم بن عبد الله، عن ابن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تتبايعوا الثمر حتى يبدو صلاحها، ولا تبيعوا الثمر بالتمر".(مرفوع) قَالَ اللَّيْثُ:حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ ثَمَرًا قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، ثُمَّ أَصَابَتْهُ عَاهَةٌ؟ كَانَ مَا أَصَابَهُ عَلَى رَبِّهِ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَتَبَايَعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، وَلَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ بِالتَّمْرِ".
لیث نے کہا کہ مجھے سے یونس نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے اگر پختہ ہونے سے پہلے ہی (درخت پر) پھل خریدے، پھر ان پر کوئی آفت آ گئی تو جتنا نقصان ہوا، وہ سب اصل مالک کو بھرنا پڑے گا۔ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، اور نہ درخت پر لگی ہوئی کھجور کو ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں بیچو۔
Narrated Ibn Shihab: If somebody bought fruits before their benefit is evident and then the fruits were spoiled with blights, the loss would be suffered by the owner (not the buyer). Narrated Salim bin 'Abdullah from Ibn Umar: Allah's Apostle said, "Do not sell or buy fruits before their benefit was evident and do not sell fresh fruits (dates) for dried dates."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2199
حدیث حاشیہ: 1۔ پھلوں کی پختگی سے پہلے اگر باغ فروخت کیا گیا تو فروخت کرنے والا اس صورت میں نقصان کا ذمہ دار ہوگا جب کوئی آفت آجائے اور باغ تباہ کر دے۔ اگر کوئی نقصان نہ ہوا اور پھل صحیح طور پر تیار ہوگیا تو بیع صحیح ہوگی۔ اس تفصیل کے باوجود ہمارا رجحان یہ ہے کہ پھلوں کی پختگی سے پہلے سودا نہ کیا جائے کیونکہ احادیث کے ظاہر الفاظ کا یہی تقاضا ہے۔ خلاف ورزی کرنے کی صورت میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ جن احادیث میں ممانعت ہے وہ اسی احتیاط پر محمول ہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا رجحانِ جواز مشروط ہے کیونکہ جب پھل ضائع ہوگیا اور خریدار کی ادا کردہ قیمت کے مقابلے میں کوئی چیز نہ رہی تو بیچنے والے کا قیمت لینا باطل ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تونے اپنے بھائی کو پھل کا باغ فروخت کیا اور وہ کسی آفت کے آنے سے تباہ ہوگیا تو تیرے لیے اس سے کوئی قیمت وصول کرنا حلال نہیں۔ استحقاق کے بغیر مال لینا کیونکر تیرے لیے جائز ہوسکتا ہے؟“(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 3975(1554)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2199