● صحيح البخاري | 5455 | سويد بن النعمان | أكلنا فقام إلى الصلاة فتمضمض ومضمضنا |
● صحيح البخاري | 5390 | سويد بن النعمان | لاك منه فلكنا معه ثم دعا بماء فمضمض ثم صلى وصلينا ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 215 | سويد بن النعمان | مضمض ثم صلى لنا المغرب ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 4175 | سويد بن النعمان | كان رسول الله وأصحابه أتوا بسويق فلاكوه |
● صحيح البخاري | 2981 | سويد بن النعمان | مضمض ومضمضنا وصلينا |
● صحيح البخاري | 5384 | سويد بن النعمان | أكلنا منه ثم دعا بماء فمضمض ومضمضنا فصلى بنا المغرب ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 4195 | سويد بن النعمان | أكل وأكلنا ثم قام إلى المغرب فمضمض ومضمضنا ثم صلى ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 209 | سويد بن النعمان | أكل رسول الله وأكلنا ثم قام إلى المغرب فمضمض ومضمضنا ثم صلى ولم يتوضأ |
● سنن النسائى الصغرى | 186 | سويد بن النعمان | أكل وأكلنا ثم قام إلى المغرب فتمضمض وتمضمضنا ثم صلى ولم يتوضأ |
● سنن ابن ماجه | 492 | سويد بن النعمان | أكلوا وشربوا ثم دعا بماء فمضمض فاه ثم قام فصلى بنا المغرب |
● موطأ مالك رواية يحيى الليثي | 48 | سويد بن النعمان | أكل رسول الله وأكلنا ثم قام إلى المغرب فمضمض ومضمضنا ثم صلى ولم يتوضأ |
● مسندالحميدي | 441 | سويد بن النعمان | دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالزاد فلم يؤت إلا بسويق فلاكه رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكناه معه ثم مضمض رسول الله صلى الله عليه وسلم ومضمضنا معه ثم صلى بنا المغرب وصلينا معه ولم يتوضأ |
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5384
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ النور میں) فرمانا کہ ”اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر...`
«. . . حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَلَمَّا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ، قَالَ يَحْيَى: وَهِيَ مِنْ خَيْبَرَ عَلَى رَوْحَةٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ فَمَا أُتِيَ إِلَّا بِسَوِيقٍ فَلُكْنَاهُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ"، قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ عَوْدًا وَبَدْءًا . . .»
”. . . سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف (سنہ 7 ھ میں) نکلے جب ہم مقام صہباء پر پہنچے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ صہباء خیبر سے دوپہر کی راہ پر ہے تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے اسی کو سوکھا پھانک لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی، ہم نے بھی کلی کی۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا (مغرب کے لیے کیونکہ پہلے سے باوضو تھے)۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے اس حدیث میں یوں سنا کہ آپ نے نہ ستو کھاتے وقت وضو کیا نہ کھانے سے فارغ ہو کر۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5384]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5384کا باب: «بَابُ: {لَيْسَ عَلَى الأَعْمَى حَرَجٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ مقصد ہے کہ اکھٹے ہو کر کھانا پینا کیا جائے یا الگ الگ ہو کر۔ شرعی دلائل کے حوالے سے دونوں طریقے جائز ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے اسی چیز کو ثابت فرمایا ہے اور جو آیت نقل فرمائی ہے، اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ:
«ليس عليكم جناح ان تأكلوا جميعا او اشتاتا»
”آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ سب اکٹھے ہو کر کھاؤ یا الگ الگ۔“
لہٰذا ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت واضح ہے، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مل کر ستو پھانکا تھا، لہٰذا اس جزء کا بآسانی ترجمۃ الباب سے ربط موجود ہے، مگر آیت مبارکہ کا وہ حصہ جس میں نابینا، لنگڑے اور مریض کا ذکر ہے تو وہ اس حدیث میں کس طرح سے شامل ہوں گیں؟ کیونکہ بظاہر آیت مبارکہ کا یہ حصہ باب سے مناسبت نہیں رکھتا، لہٰذا اس کا جواب دیتے ہوئے ابن بطال رحمہ اللہ نے مھلب رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایا کہ:
«مناسبة الاية لحديث سويد ما ذكره اهل التفسير انهم كانوا اذا اجتمعوا للأكل عذل الأعمى على حدة والاعرج على حدة والمريض على حدة لتقصيرهم عن أكل الأصحاء فكانوا يتحرجون أن يتفضلوا عليهم .» [فتح الباري لابن حجر: 452/10]
”حدیث سوید کے ساتھ آیت کی مناسبت جو اہل تفسیر نے بیان کی کہ جب کھانے کے لیے جمع ہوتے تھے تو اندھوں کو الگ بٹھا لیتے، لنگڑوں کو الگ اور مریضوں کو الگ بٹھا لیتے تھے، تاکہ جو لوگ ایسے نہیں وہ ان سے زیادہ نہ کھا جائیں اور ان کی حق تلفی نہ ہو۔“
یعنی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو مجتمع ہو کر کھایا کرتے تھے تو ممکن ہے ان کے ساتھ نابینا حضرات، لنگڑے اور مریض وغیرہ بھی ہوں گے تو پس باب کی مناسبت ثابت ہوئی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 126
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 186
´ستو کھا کر کلی کرنے کا بیان۔`
سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ خیبر کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب لوگ مقام صہبا (جو خیبر سے قریب ہے) میں پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر ادا کی، پھر توشوں کو طلب کیا، تو صرف ستو لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، تو اسے گھولا گیا، آپ نے کھایا اور ہم نے بھی کھایا، پھر آپ مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے کلی کی اور ہم نے (بھی) کلی کی، پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 186]
186۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ ستو منہ میں رہ جاتے ہیں۔ کلی کے بغیر منہ صاف نہیں ہوتا، لہٰذا اس کے بعد کلی کر لینی چاہیے تاکہ منہ صاف ہو جائے اور نماز کی ادائیگی میں خلل نہ پڑے۔
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا ضروری نہیں۔
➌ سفر میں زاد راہ لینا تو کل کے منافی نہیں۔
➍ ایک وضو سے ایک سے زیادہ نمازیں پڑھنا درست ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 186
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث492
´آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنے کا بیان۔`
سوید بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی جانب نکلے، جب مقام صہباء ۱؎ میں پہنچے تو عصر کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا منگایا تو صرف ستو لایا گیا لوگوں نے اسے کھایا، پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا، اور کلی کی، پھر اٹھے اور ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 492]
اردو حاشہ:
ستو، بھنے ہوئے جَو پیس کر بنائے جاتے ہیں اس لیے اس سے بھی ثابت ہوا کہ آگ سے تیار کردہ چیز کھا پی کر وضو کرنا ضروری نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 492
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:441
441- سیدنا سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے، جب ہم صہباء کے مقام پر پہنچے اور ہمارے اور ان کے درمیان ایک منزل کا فاصلہ رہ گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زاد سفر منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ستو پیش کئے گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی چبا لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی چبا لئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی کلی کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:441]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر چکنائی والی چیز کھانے کے بعد نماز پڑھنی ہو تو پہلے کلی کر لینی چاہیے تا کہ نماز مکمل یکسوئی کے ساتھ ادا کی جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 441
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:209
209. حضرت سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، وہ فتح خیبر کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے۔ جب مقام صہباء پر پہنچے جو خیبر کے قریب تھا، تو آپ نے نماز عصر ادا کی، پھر زاد سفر طلب فرمایا تو صرف ستو لائے گئے۔ آپ نے انھیں تیارکرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ تیار شدہ ستو رسول اللہ ﷺ اور ہم سب نے کھائے۔ اس کے بعد آپ نماز مغرب کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے صرف کلی فرمائی اور ہم نے بھی کلی کی۔ پھر آپ نے نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:209]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے۔
(1)
۔
آگ کی تیار کردہ اشیاء کے استعمال سے نہ تو نقض وضو ہوتا ہے اور نہ تجدید وضو ہی کی ضرورت ہے۔
(2)
۔
کھانے کے بعد کلی کے ذریعے سے منہ صاف کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے تاکہ منہ سے چکناہٹ کے اثرات ختم یا ستو وغیرہ کے اجزاء صاف ہو جائیں۔
(3)
۔
دوران سفر میں اشیائے خور و نوش کا سامان ساتھ لے کر جانا چاہیے، ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔
(4)
۔
سفر میں بوقت ضرورت تمام شرکاء اپنے اپنے زاد سفر ایک جگہ جمع کر لیں، کیونکہ جماعت پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور برکت بھی نازل ہوتی ہے۔
(5)
۔
امام وقت کو چاہیے کہ غذا کی کمی کے موقع پر ذخیرہ اندوزوں سے جبراً اشیائے خوردنی بر آمد کر کے انھیں بازار میں لائے تاکہ ضرورت مند حضرات بازار سے بسہولت حاصل کر سکیں۔
(6)
۔
سر براہ مملکت کو چاہیے کہ وہ فوجیوں کی ضرورت کا خیال رکھے اور لوگوں سے حاصل کر کے انھیں مہیا کرے تاکہ جس کے پاس خور ونوش کا سامان نہ ہو وہ بھی اپنی ضرورت پوری کر سکے۔
(فتح الباري: 408/1)
2۔
اس حدیث سے علامہ خطابی نے آگ سے تیار کردہ اشیاء کے استعمال پر وضو کے منسوخ ہونے کی دلیل لی ہے، کیونکہ یہ حکم پہلے کا ہے اور فتح خیبر اس سے متاخر ہے جو ہجرت کے ساتویں سال ہوا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
یہ استدلال صحیح نہیں، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فتح خیبر کے بعد مسلمان ہوئے ہیں اور وہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال پر وضو کرنے والی حدیث کے راوی ہیں۔
(صحیح مسلم، حدیث: 788 (352)
اور حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اس کے متعلق فتوی دیتے تھے۔
(فتح الباري: 408/1)
اس پر علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ علامہ خطابی کا استدلال صحیح ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے وضو کا حکم کسی دوسرے صحابی کے واسطے سے معلوم کیا ہو، پھر اس حکم کو اس واسطے کے بغیر بیان کردیا ہو۔
(عمدة القاري: 581/2)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض اور علامہ خطابی کے دفاع پر دل مطمئن نہیں، اگرچہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ آگ سے تیارشدہ اشیاء کے استعمال پر وضو کرنے کا حکم منسوخ ہے یا اس سے لغوی وضو مراد ہے یا اس وضو کو استحباب پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 209
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2981
2981. حضرت سوید بن نعمان ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ وہ غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ہمراہ نکلے۔ جب مقام صہباء میں پہنچے۔۔۔ یہ مقام خیبر کے بہت قریب ہے۔۔۔ تو لوگوں نے نماز عصر پڑھی، نبی ﷺ نے کھانا طلب فرمایا تو نبی ﷺ کو صرف ستوپیش کیے گئے، ہم نے بھی انھیں پانی میں ملا کر منہ میں ڈالا۔ الغرض ہم نے انھیں کھایا اور پیا۔ اس کے بعد نبی ﷺ اٹھے اور کلی فرمائی۔ اور ہم نے بھی کلی کی اور نماز پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2981]
حدیث حاشیہ:
1۔
سفر میں راشن اور توشہ رکھنا اس لیے مستحسن ہے کہ یہ انسانی ضرورت ہے۔
اس قسم کی حاجات انسانی کا شریعت نے پورا پورا خیال رکھا ہے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کا کوئی سفر ایسا نہیں ہے جس میں آپ نے توشہ یا زاد سفر کا اہتمام نہ کیا ہو۔
چنانچہ اس حدیث میں ہے دوران سفر میں جب آپ کو کھانے کی ضرورت پڑی تو آپ کو ستو پیش کیے گئے۔
ستو کھانے اور پینے دونوں طرح کام آتے ہیں۔
جیسا کہ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ستو استعمال کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2981
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4175
4175. حضرت سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے اور وہ اصحاب شجرہ سے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے پاس ستو لائے گئے جسے انہوں نے نوش کیا۔ معاذ نے شعبہ سے روایت کرنے میں ابن عدی کی متابعت کی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:4175]
حدیث حاشیہ:
1۔
اصحاب شجرہ کی مناسبت سے اس حدیث کو بیان کیا گیا ہے۔
2۔
اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ مقام صہباء میں رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر کے بعد ستونوش کیے، پھرآپ نے کلی کی اور نماز مغرب پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 209)
3۔
بہرحال اس مقام پر کسی فقہی مسئلے کا بیان مقصود نہیں بلکہ صرف حضرت سوید بن نعمان ؓ کے متعلق یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بیعت رضوان میں شریک تھے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4175
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4195
4195. حضرت سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ وہ خیبر کے سال نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ فرماتے ہیں کہ جب ہم مقام صہباء پر پہنچے جو خیبر کے قریب ہے تو آپ ﷺ نے وہاں نماز عصر ادا کی، پھر کھانا طلب فرمایا۔ آپ کو صرف ستو پیش کیے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق انہیں پانی میں گھول دیا گیا۔ پھر آپ نے وہ تیار شدہ ستو کھائے اور ہم نے بھی کھائے۔ اس کے بعد آپ نماز مغرب ادا کرنے کے لیے اٹھے۔ آپ نے صرف کلی کی اور ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھر آپ نے نماز مغرب ادا کی اور نئے سرے سے وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4195]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ جب صلح حدیبیہ سے واپس ہوئے تو راستے میں سورہ فتح نازل ہوئی جس میں خیبر فتح ہونے کی بشارت تھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنھیں تم حاصل کرو گے، پھر اس نے یہ (فتح خیبر)
تمھیں جلد ہی دے دی۔
“ (الفتح: 48۔
20)
2۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ پہنچنے کےبعد جلد ہی خیبر پر چڑھائی کی، آپ نے غزوہ خیبر کے لیے صرف انھی صحابہ کرام ؓ کو ساتھ رکھا جو بیعت رضوان میں شامل تھے۔
3۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر جانے کے لیے جو راستہ منتخب کیا تھا وہ مقام صہباء سے ہو کر جاتا تھا راستےمیں نمازوں کی پابندی اور خورد نوش کا بھی اہتمام تھا جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4195
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5384
5384. سیدنا سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کے طرف روانہ ہوئے، جب ہم صہباء مقام پر پہنچے۔۔۔ (راوئ حدیث) یحییٰ نے کہا: صہباء، خیبر سے نصف منزل پر واقع ہے۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں پہنچ کر کھانا طلب فرمایا تو آپ کو ستو پیش کیے گئے۔ ہم نے انہیں پانی کے بغیر ہی کھا لیا، کھانے کے بعد آپ نے پانی طلب کیا، کلی کی اور ہم نے بھی کلی پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ سفیان نے کہا کہ میں نے اپنے استاد یحییٰ سے اس حدیث کو یوں سنا کہ آپ نے نہ تو ستو کھاتے وقت وضو کیا اور نہ کھانے سے فراغت کے بعد ہی اس کا اہتمام کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5384]
حدیث حاشیہ:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ستو کھانے کے لیے جمع ہوئے، ان میں تندرست، بیمار، بینا اور نابینا وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ تھی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آگے آیت کریمہ میں ہے:
”اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر کھاؤ یا علیحدہ علیحدہ۔
“ (النور: 61)
نابینا، لنگڑے اور بیماروں نے تندرستوں کے ساتھ ایک برتن میں کھانے سے حرج محسوس کیا ہو کیونکہ اس طرح کمی بیشی کا امکان تھا۔
اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد یہ اندیشہ ختم ہو گیا اور حدیث سے اکٹھے مل کر کھانے کو ثابت کیا۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اس قسم کے اندیشوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5384
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5390
5390. سیدنا سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے کہ کچھ صحابہ کرام ؓ صہباء مقام پر نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ یہ مقام خیبر سے ایک منزل کے فاصلے پر ہے، نماز کا وقت ہوا تو آپ نے کھانا طلب فرمایا: ستو کے علاوہ اور کچھ دستیاب نہ ہوا تو آپ نے وہی تناول فرمائے۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ کھائے۔ پھر آپ نے پانی طلب کیا، کلی کی اور نماز پڑھی ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی اور آپ نے وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5390]
حدیث حاشیہ:
(1)
"لاك" کا لفظ لوک سے مشتق ہے۔
اس کے معنی ہیں:
کسی چیز کو نگلنے کے لیے اسے منہ میں پھیرنا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ستو کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، حالانکہ وہ آگ سے بھنے ہوئے ہیں۔
آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو کا ٹوٹ جانا منسوخ ہو چکا ہے۔
(عمدة القاري: 400/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5390
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5455
5455. یحییٰ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے بشیر سے سنا، ان سے سیدنا سوید بن نعمان ؓ نے بیان کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے۔ جب ہم صہباء پہنچے۔۔۔۔۔ یحییٰ نے کہا: یہ خیبر سے ایک منزل دور واقع ہے۔۔۔ تو آپ نے کھانا طلب کیا۔ آپ کو صرف ستو پیش کیے گئے۔ (آپ نے وہ کھائے) اور ہم نے بھی آپ کے ہمراہ کھائے۔ پھر آپ نے منگوایا اور کلی کی۔ ہم نے بھی آپ کے ہمراہ کلی کی، پھر آپ نے نماز مغرب پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔ سفیان نے کہا: گویا تم یہ حدیث یحییٰ ہی سے سن رہے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5455]
حدیث حاشیہ:
ستو استعمال کرنے کے بعد تازہ وضو کی ضرورت نہیں، البتہ لغوی وضو، یعنی کلی کر لی جائے تاکہ منہ سے ذرات ختم ہو جائیں۔
اسی طرح ہر کھانے کے بعد کلی کرنا کھانے کے آداب میں سے ہے تا کہ منہ کے اندر اگر کوئی چکناہٹ وغیرہ ہے تو کلی کرنے سے دور ہو جائے اور دوران نماز خشوع میں خلل واقع نہ ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستو کھانے سے پہلے اور ستو کھانے کے بعد وضو کا اہتمام نہیں کیا۔
(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5384)
بہرحال کھانے کے بعد وضو تازہ کرنے کے بجائے کلی کرنے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے تاکہ منہ صاف ہو جائے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5455
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 48
سیدنا سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ساتھ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس سال جنگِ خیبر ہوئی، یہاں تک کہ جب پہنچے صہباء میں (جو ایک جگہ ہے) پیچھے کی جانب خیبر سے مدینہ کی طرف، اُترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر عصر کی نماز پڑھی... [موطا امام مالك: 48]
فائدہ:
... سَتُو بھی در اصل آگ پر بھونے ہوئے دانوں کو پیس کر بنائے جاتے ہیں.....
یہ مختلف دلائل اس لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ کے دور میں اس مسئلے پر کافی اختلاف رہا تھا اور بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دلائل سامنے آنے سے سب کو یقین و اطمینان ہو گیا کہ بعد میں آقا علیہ السلام نے آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا ترک کر دیا تھا۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 48