(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: الذي حفظناه من عمرو بن دينار، سمع طاوسا، يقول: سمعت ابن عباس رضي الله عنه، يقول:" اما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام ان يباع حتى يقبض"، قال ابن عباس: ولا احسب كل شيء إلا مثله.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: الَّذِي حَفِظْنَاهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ طَاوُسًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" أَمَّا الَّذِي نَهَى عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ الطَّعَامُ أَنْ يُبَاعَ حَتَّى يُقْبَضَ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَا أَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا مِثْلَهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا جو کچھ ہم نے عمرو بن دینار سے (سن کر) یاد کر رکھا ہے (وہ یہ ہے کہ) انہوں نے طاؤس سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلہ کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، میں تو تمام چیزوں کو اسی کے حکم میں سمجھتا ہوں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4601
´اپنی ملکیت اور قبضہ میں لینے سے پہلے غلہ بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اناج خریدے تو اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے ناپ نہ لے۔“[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4601]
اردو حاشہ: تولنا بھی قبضے میں لینے کی صورت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4601
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4604
´اپنی ملکیت اور قبضہ میں لینے سے پہلے غلہ بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی گیہوں خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک اس کو اپنی تحویل میں نہ لے لے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ہر چیز گیہوں ہی کی طرح ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4604]
اردو حاشہ: حضرت ابن عباسؓ کا یہ خیال صحیح ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت میں عموم کے الفاظ آتے ہیں کہ تو کوئی چیز بھی نہ بیچ حتیٰ کہ اسے قبضے میں لے۔ سنن ابوداود میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: [أن النبي ﷺ نهى أن تُباعَ السلعُ حيث تُبتاعُ حتى يحوزها التجارُ إلى رحالهم]”بلا شبہ رسول اللہ ﷺ نے خریدنے کی جگہ ہی پر مال کو بیچنے سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ تاجر اسے اپنی منزل (دو کانوں اور سٹوروں وغیرہ) پر لے جائیں۔“(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3499) یہ حدیث مبارکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تفقہ فی الدین کی بڑی واضح اور صریح دلیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4604
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3496
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص گیہوں خریدے تو وہ اسے تولے بغیر فروخت نہ کرے۔“ ابوبکر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیوں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ لوگ اشرفیوں سے گیہوں خریدتے بیچتے ہیں حالانکہ گیہوں بعد میں تاخیر سے ملنے والا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3496]
فوائد ومسائل: ان تعلیمات کی حکمتیں واضح ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ منڈی میں جمود نہ رہے۔ مال اور سرمایا حرکت میں آئے۔ مزدوروں کو مزدوری اور لوگوں کو رزق آسانی اور ارزانی سے ملے۔ آج کل اشیاء کے مہنگے ہونے کا بڑا سبب ہی یہی ہے۔ کہ مال ایک جگہ سٹور میں پڑا ہوتا ہے۔ اورسرمایا دار اسے وہیں ا یک دوسرے کو فروخت کرتے چلے جاتے ہیں۔ یا مال ابھی ایک خریدار کے قبضے میں آیا نہیں ہوتا کہ وہ اسے آگے فروخت کردیتا ہے۔ اور وہ پھر اسے آگے فروخت کردیتا ہے۔ یہ سب صورتیں شرعی اصولوں سے متصادم ہیں۔ اوران کا حاصل کمرتوڑ مہنگائی ہے۔ ولاحول ولا قوة إلا باللہ
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3496
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1291
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا ناجائز ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے“۱؎، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں ہر چیز کو غلے ہی کے مثل سمجھتا ہوں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1291]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: خریدوفروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز پر خریدارجب تک مکمل قبضہ نہ کر لے اسے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے، اوریہ قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہوگا، نیز اس سلسلہ میں علاقے کے عرف (رسم ورواج) کا اعتباربھی ہوگا کہ وہاں کسی چیز پر کیسے قبضہ ماناجاتا ہے مثلاً منقولہ چیزوں میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو مشتری بائع کی جگہ سے اپنی جگہ میں منتقل کرلے یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے اور اندازہ کی جانے والی چیز کی جگہ بدل لے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1291
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:518
518- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، وہ ایسا اناج ہے، جسے پورا (ناپنے) سے پہلے فروخت کردیا جائے۔ یہاں سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کئے ہیں: ”یہاں تک کہ اسے ناپ لیا جائے۔“ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنی رائے یہ بیان کی ہے: ”میں یہ سمجھتا ہوں، ہر چیز کا حکم اس کی مانند ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:518]
فائدہ: اس حدیث میں خرید و فروخت کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ ایک جگہ مال پڑا ہوا ہے، وہاں سے خرید کر اس کو اپنے قبضے میں لے لے، پھر اس کو آگے کسی کو فروخت کر سکتا ہے، اس میں بے شمار حکمتیں ہیں، جن کا ہر کسی کو ادراک نہیں ہے۔ موجودہ دور میں اس مقبول حدیث کی بہت زیادہ مخالفت کی جا رہی ہے، الا مـن رحم ربی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 518
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3836
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے غلہ، اناج خریدا تو وہ اسے پورا پورا لینے سے پہلے فروخت نہ کرے۔“ ابن عباس کہتے ہیں، میرے نزدیک ہر چیز کا حکم ایسا ہی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3836]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: حتي يستوفيه: حتیٰ کہ اس کو ماپ یا تول یا گن لے، لیکن اس کا قبضہ میں لینا، اس معنی کی رو سے شرط نہیں ہے، لیکن یہاں یہ لفظ قبضہ کے معنی میں ہی ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی جگہ حتي يقبضه، حتیٰ کہ قبضہ میں لے لے کا لفظ موجود ہے۔ فوائد ومسائل: (1) قبضہ کا مفہوم: قبضہ یہ ہے کہ شئی مشتری کی حرز تحفظ وپناہ اور ضمانت (ذمہ داری) میں آ جائے، اس لیے امام مالک اور احناف کے ہاں قبضہ، تخلیہ یعنی بائع کا شئی سے دستبردار ہو جانا اور مشتری کو اپنے تحفظ میں لینے کا موقع دینے کا نام ہے اور شوافع و حنابلہ کے ہاں غیر منقولہ اشیاء میں قبضہ، تخلیہ کا نام ہے اور منقولہ اشیاء میں نقل و تحویل (خریدی ہوئی جگہ سے نقل کرتا ہے) اور امام بخاری کے نزدیک حق تصرف تسلیم کر لینا ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ منقول اشیاء میں قبضہ نقل و تحویل کا نام ہے، جیسا کے حضرت زید بن ثابت کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سامان خریدا ہے وہاں بیچنے سے منع کیا، جب تک کہ تاجرا سے اپنی جگہ میں محفوظ نہیں کر لیتا۔ (2) امام شافعی اور امام محمد بن الحسن کے نزدیک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح قبضہ سے پہلے کسی چیز کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے، کیونکہ خریدار جب تک سامان پر قبضہ نہیں کر لیتا، بائع کا حق تصرف پوری طرح ختم نہیں ہوتا اور وہ اگر اسے زیادہ منافع ملے تو سودا فسخ کر سکتا ہے یا قبضہ دینے سے ٹال مٹول کر سکتا ہے، اور آج کل بقول علامہ تقی یہ حکمت بھی ظاہر ہوئی ہے کہ اس سے سٹہ کو فروغ مل رہا ہے جس سے اشیاء بہت مہنگی ہو جاتی ہیں، مثلا ایک بحری جہاز جاپان سے کسی تاجر کا سامان لارہا ہوتا ہے اور سامان ابھی راستہ میں ہی ہوتا ہے کہ وہ منگوانے والا تاجر وہ سامان دوسرے تاجر کو بیچ دیتا ہے اور دوسرا تاجر تیسرے تاجر کو بیچ دیتا ہے اس طرح جہاز کے لنگر انداز ہونے سے پہلے پہلے سامان کئی دفعہ بک جاتا ہے، اس طرح وہ چیز جو جاپان سے دس روپے میں چلی تھی، راستہ میں ہی بار بار بکنے سے وہ چیز سو دو سو تک پہنچ جاتی ہے اور ابھی کسی کے قبضے میں نہیں آئی اور نہ وہ سامان کسی نے دیکھا ہے، حالانکہ یہ سامان راستہ میں تباہ بھی ہو سکتا ہے (تکلمۃ فتح الملھم: ج1، ص: 354) لیکن اس پر سوال یہ ہے کہ قبضہ کا مطلب، احناف کے نزدیک بائع کا سامان سے دستبردار ہو جانا ہی مشتری کو تصرف کاحق دے دینا ہے، اور یہاں ہر تاجر دوسرے کے حق میں دستبردار ہو گیا ہے اور اس کے حق ملکیت کو تسلیم کر لیا ہے، اس لیے اس نے آگے بیچا ہے، اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ یہ طریقہ اس حدیث کے خلاف ہے جسے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: لا تبع ما ليس عندك جو چیز تیرے پاس نہیں ہے اس کو فروخت نہ کرے، یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول صادق آتا ہے کہ جب ایک چیز خریدی ہے، لیکن وہ اپنے قبضہ میں نہیں لی، اور وہ آگے بیچ دی، تو یہ تو رقم کا رقم سے سودا ہوا ہے، کیونکہ سامان آیا نہیں ہے، نہ دیکھا ہے تو ایک تاجر نےاس کو مثلا بیس روپیہ میں خرید لیا، دوسرے کو پچیس میں بیچ دیا ہے، اس نے تیسرے کو تیس میں بیچ دیا ہے، اس طرح ہر تاجر، رقم کا رقم سے سودا کر رہاہے، سامان تو ابھی غائب ہے اور غرر کا بھی احتمال ہے کہ مال راستہ میں ضائع ہو جائے۔ امام احمد کا بھی ایک قول امام شافعی والا ہے، اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اس موقف کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم: ج 4/ص162)(3) امام احمد اور اسحاق کے نزدیک ماپ و تول سے تعلق رکھنے والی اشیاء کا قبضے سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے، باقی اشیاء بیچنا جائز ہے، اور بقول علامہ ابن قدامہ نہی کا تعلق امام احمد کے نزدیک صرف اناج اور غلہ سے ہے۔ (4) امام مالک کے نزدیک غلہ کیلی ہو یا وزنی۔ اس کا قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے اور قاضی عیاض مالکی نے ہر اس چیز کی قبضہ سے پہلے بیع ناجائز قرار دی ہے جس کا تعلق ناپ تول یا عدد سے ہو، اور سحنون اور ابن حبیب نے اس کے ساتھ غلہ ہونے کی شرط لگائی ہے اور ابن وہب نے کہا اس کا تعلق ربوی (سودی) اشیاء سے ہے۔ (5) امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک منع کا تعلق منقول اشیاء سے ہے، غیر منقول اشیاء سے نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3836
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3839
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اناج خریدا تو وہ اسے ناپ لینے تک فروخت نہ کرے۔“ طاؤس کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا: ممانعت کا کیا سبب ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ لوگ سونے کے عوض اناج فروخت کرتے ہیں حالانکہ وہ بعد میں ملنا ہوتا ہے، ابو کریب کی روایت میں مرجا [صحيح مسلم، حديث نمبر:3839]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا، ایک انسان نے غلہ خریدا لیکن ابھی وہ ملا نہیں ہے، اور اسے آگے فروخت کر دیا، تو یہ در حقیقت سونے کی سونے سے بیع ہوئی ہے اور اس میں کمی و بیشی جائز نہیں ہے حالانکہ اس نے مثلاً سو روپے میں خرید کر، اس کو ایک سو بیس کے عوض فروخت کر دیا، اور یہ رقم کا رقم سے تبادلہ ہوا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3839
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2132
2132. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی قبضہ کرنے سے پہلے غلہ فروخت کرے۔ (راوی حدیث حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ)میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ایسا کرنا کیوں منع ہے؟ فرمایا کہ یہ تو دراہم کے عوض دراہم فروخت کرنا ہے جبکہ غلہ بعد میں دیا جاتا ہے۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری)کہتے ہیں کہ قرآنی لفظ مُرْجَوْنَ کے معنی ہیں۔ ”ان کا معاملہ (اللہ کے حکم تک کے لیے)مؤخر کردیا گیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2132]
حدیث حاشیہ: اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے دو من گیہوں عمرو سے دو روپے کے بدلے خریدے اور عمرو سے یہ ٹھہرا کہ دو مہینے بعد گیہیوں دے۔ اب زید نے ہی گیہوں بکر کے ہاتھ سے چار روپیہ کو بیچ ڈالا تو درحقیقت زید نے گویا دو روپے کو چار روپیہ کے بدل میں بیچا جو صریحاً سود ہے کیوں کہ گیہوں کا ابھی تک وجود ہی نہیں وہ تو دو ماہ بعد ملیں گے اور روپیہ کے بدل روپیہ بک رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2132
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2132
2132. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی قبضہ کرنے سے پہلے غلہ فروخت کرے۔ (راوی حدیث حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ)میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ایسا کرنا کیوں منع ہے؟ فرمایا کہ یہ تو دراہم کے عوض دراہم فروخت کرنا ہے جبکہ غلہ بعد میں دیا جاتا ہے۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری)کہتے ہیں کہ قرآنی لفظ مُرْجَوْنَ کے معنی ہیں۔ ”ان کا معاملہ (اللہ کے حکم تک کے لیے)مؤخر کردیا گیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2132]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا مقصد اور استدلال پہلی حدیث کے فوائدمیں بیان ہوچکا ہے۔ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جس کی صورت یہ ہے کہ زید نے عمر سے دو من غلہ دوسوروپے میں خریدا اور یہ طے پایا کہ غلہ دوماہ بعد دیا جائے گا۔ اب زید نے خرید کردہ دو من غلہ بکر کو چار سوروپے میں فروخت کردیا۔ یہ صریح سود ہے کیونکہ غلے کا ابھی تک وجود نہیں وہ تو دوماہ بعد ملے گا اب تو روپوں کے عوض روپے فروخت کیے گئے ہیں۔ (2) چونکہ روایت میں (والطعام مُرْجُاً) کے الفاظ آئے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسی مناسبت سے قرآنی آیت ﴿وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّـهِ﴾ کی لغوی تشریح فرمائی کہ اس کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2132