(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الوارث، عن ابي التياح، عن انس رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا بني النجار، ثامنوني بحائطكم وفيه خرب ونخل".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ وَفِيهِ خِرَبٌ وَنَخْلٌ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے، ان سے ابوالتیاح نے، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے بنو نجار! اپنے باغ کی قیمت مقرر کر دو۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کو مسجد کے لیے خریدنا چاہتے تھے) اس باغ میں کچھ حصہ تو ویرانہ اور کچھ حصے میں کھجور کے درخت تھے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2106
حدیث حاشیہ: یعنی مال کی قیمت پہلے وہی بیان کرے، پھر خریدار جو چاہے کہے، اس کا مطلب نہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے، کیوں کہ اوپر جابر کی حدیث میں گزرا ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2106
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2106
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ سامان کے مالک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے سامان کی قیمت بتائے اور اس کی مقدار مقرر کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے پوچھا: تم اپنے باغ کی قیمت سے مجھے آگاہ کرو،اس لیے چیز کا مالک یا اس کا وکیل قیمت طے کرے گا اس کے بعد خریدار جوڑ توڑ کرکے اسے نتیجے تک پہنچائے گا۔ لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اونٹ خریدا تو اس کی قیمت بھی از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے طے کی تھی،آپ نے فرمایا: \" مجھے ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کرو۔ \"(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2097)(2) واضح رہے کہ حدیث میں ذکر کردہ وہی باغ ہے جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے۔ (فتح الباری: 4/412) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2106
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1868
1868. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے اورمسجد بنانے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے بنو نجار!تم مجھ سے زمین کی قیمت وصول کرو۔“ انھوں نے عرض کیا کہ ہم اس کامعاوضہ اللہ تعالیٰ سے وصول کریں گے۔ الغرض آپ نے وہان مشرکین کی قبریں اکھاڑنے کا حکم دیا تو انھیں کھوداگیا۔ پھر گڑھوں کوبرابر کرنے کا حکم دیا تو انھیں ہموار کردیاگیا۔ پھر آپ نے کھجوریں کاٹنے کاحکم دیا تو انھیں کاٹ دیاگیا۔ پھر ان تنوں کو مسجد کے قبلے کی طرف قطار میں گاڑ دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1868]
حدیث حاشیہ: اس سے بعض حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ اگر مدینہ حرم ہوتا تو وہاں کے درخت آپ کیوں کٹواتے؟ ان کا جواب یہ ہے کہ یہ فعل ضرورت سے واقع ہوا یعنی مسجد نبوی بنانے کے لیے اورآنحضرت ﷺ نے جو کیا بحکم الٰہی کیا۔ آپ ﷺ نے تو مکہ میں بھی قتال کیا، کیا حنفیہ بھی اس کو کسی اور کے لیے جائز کہیں گے۔ مسلم کی روایت میں ہے آنحضرت ﷺ نے مدینہ کے ارد گرد بارہ میل تک حرم کی حد قرار دی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1868
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1868
1868. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے اورمسجد بنانے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے بنو نجار!تم مجھ سے زمین کی قیمت وصول کرو۔“ انھوں نے عرض کیا کہ ہم اس کامعاوضہ اللہ تعالیٰ سے وصول کریں گے۔ الغرض آپ نے وہان مشرکین کی قبریں اکھاڑنے کا حکم دیا تو انھیں کھوداگیا۔ پھر گڑھوں کوبرابر کرنے کا حکم دیا تو انھیں ہموار کردیاگیا۔ پھر آپ نے کھجوریں کاٹنے کاحکم دیا تو انھیں کاٹ دیاگیا۔ پھر ان تنوں کو مسجد کے قبلے کی طرف قطار میں گاڑ دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1868]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے حرم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، البتہ جہاں تک کھجوریں کاٹنے کا معاملہ ہے تو وہ ایک ضرورت کے پیش نظر تھا، یعنی اس سے مسجد نبوی کی تیاری مقصود تھی اور یہ بھی اللہ کے اذن سے ایسا ہوا جیسا کہ حرم مکہ میں ضرورت کے پیش نظر قتال کی اجازت دی گئی تھی، نیز حرم کے ایسے درختوں کو کاٹنا منع ہے جو وہاں خود بخود اُگے ہوں۔ جن درختوں کو خود کاشت کیا گیا ہو جیسا کہ باغات میں کھجوروں کے درخت لگائے جاتے ہیں تو ایسے درختوں کو کاٹنا منع نہیں۔ جن کھجوروں کو کاٹا گیا وہ بنو نجار کی خود کاشتہ تھیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کھجوریں کاٹنے کی ضرورت ہجرت کے فورا بعد پیش آئی جبکہ مدینہ کو حرم قرار دینے کا واقعہ غزوۂ خیبر سے واپسی کا ہے، اس لیے بھی یہ واقعہ ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا جو اس کے پیش نظر حرم مدینہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ (فتح الباري: 108/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1868
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2779
2779. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے بنو نجار!تم اپنا باغ میرے ہاتھ فروخت کردو۔“ تو انھوں نے عرض کیا: ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2779]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وقف کے لیے خاص الفاظ کا ادا کرنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح بھی یہ مقصد حاصل ہو جائے کافی ہے، اس کے لیے لفظ وقف استعمال کرنا لازمی نہیں۔ دراصل وقف کے الفاظ کی دو قسمیں ہیں: ٭ صريح: اس کے لیے وقف، حَبَس اور اَسبِل کے الفاظ ہیں۔ ٭ كنايه: جس سے بھی مقصود حاصل ہو جائے، بلکہ اس میں عرف کا بھی اعتبار ہوتا ہے۔ بہرحال حدیث میں مذکور الفاظ سے بھی وقف ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) وقف کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ مساجد میں وقف شدہ مال اگر لوازمات نماز کے لیے ہو تو باعث اجروثواب ہے، اس سے کسی مسلمان کو ذاتی غرض پوری کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر محض تزئین اور آرائش کے لیے ہے تو اسے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات میں صرف کر دینا چاہیے۔ اسی طرح قبروں کو پختہ کرنے یا ان پر مساجد بنانے، چادریں اور پھول چڑھانے کے لیے کوئی وقف کیا تو یہ بھی جائز نہیں، نیز کسی ایسے کام کے لیے وقف جو لوگوں کے عقائد خراب کرنے کا باعث ہو ایسے اوقاف بھی حرام ہیں۔ اللہ تعالی ان سے محفوظ رکھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2779