صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
21. بَابُ مَا قِيلَ فِي اللَّحَّامِ وَالْجَزَّارِ:
21. باب: گوشت بیچنے والے اور قصاب کا بیان۔
(21) Chapter. What is said about the meat seller and the butcher.
حدیث نمبر: 2081
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، قال: حدثني شقيق، عن ابي مسعود، قال:" جاء رجل من الانصار يكنى ابا شعيب، فقال لغلام له قصاب: اجعل لي طعاما يكفي خمسة؟ فإني اريد ان ادعو النبي صلى الله عليه وسلم خامس خمسة، فإني قد عرفت في وجهه الجوع، فدعاهم فجاء معهم رجل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن هذا قد تبعنا، فإن شئت ان تاذن له فاذن له، وإن شئت ان يرجع رجع، فقال: لا، بل قد اذنت له.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُكْنَى أَبَا شُعَيْبٍ، فَقَالَ لِغُلَامٍ لَهُ قَصَّابٍ: اجْعَلْ لِي طَعَامًا يَكْفِي خَمْسَةً؟ فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَدْعُوَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَإِنِّي قَدْ عَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الْجُوعَ، فَدَعَاهُمْ فَجَاءَ مَعَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذَا قَدْ تَبِعَنَا، فَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ فَأْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ يَرْجِعَ رَجَعَ، فَقَالَ: لَا، بَلْ قَدْ أَذِنْتُ لَهُ.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہ انصار میں سے ایک صحابی جن کی کنیت ابوشعیب رضی اللہ عنہ تھی، تشریف لائے اور اپنے غلام سے جو قصاب تھا۔ فرمایا کہ میرے لیے اتنا کھانا تیار کر جو پانچ آدمی کے لیے کافی ہو۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ اور چار آدمیوں کی دعوت کا ارادہ کیا، کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر بھوک کا اثر نمایاں دیکھا ہے۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اور صاحب بھی آ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ ایک اور صاحب زائد آ گئے ہیں۔ مگر آپ چاہیں تو انہیں بھی اجازت دے سکتے ہیں، اور اگر چاہیں تو واپس کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بلکہ میں انہیں بھی اجازت دیتا ہوں۔

Narrated Abu Mas`ud: An Ansari man, called Abu Shu'aib, came and told his butcher slave, "Prepare meals sufficient for five persons, for I want to invite the Prophet along with four other persons as I saw signs of hunger on his face." Abu Shu'aib invited them and another person came along with them. The Prophet said (to Abu Shu'aib), This man followed us, so if you allow him, he will join us, and if you want him to return, he will go back." Abu Shu'aib said, "No, I have allowed him (i.e. he, too, is welcomed to the meal).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 295


   صحيح البخاري2456عقبة بن عمروهذا قد اتبعنا أتأذن له قال نعم
   صحيح البخاري5461عقبة بن عمروتبعنا فإن شئت أذنت له وإن شئت تركته قال لا بل أذنت له
   صحيح البخاري5434عقبة بن عمروهذا رجل قد تبعنا فإن شئت أذنت له وإن شئت تركته قال بل أذنت له
   صحيح البخاري2081عقبة بن عمروإن هذا قد تبعنا فإن شئت أن تأذن له فأذن له وإن شئت أن يرجع رجع فقال لا بل قد أذنت له
   جامع الترمذي1099عقبة بن عمرواتبعنا رجل لم يكن معنا حين دعوتنا فإن أذنت له دخل
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2081 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2081  
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ طفیلی بن کر چلا آیا، اس شخص کا نام معلوم نہ ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب خانہ سے اجازت لی تاکہ اس کا دل خوش ہو اور ابوطلحہ کی دعوت میں آپ نے یہ اجازت نہ لی کیوں کی ابوطلحہ نے دعوتیوں کی تعداد مقرر نہیں کی تھی اور اس شخص نے پانچ کی تعداد مقرر کر دی تھی۔
اس لیے آپ نے اجازت کی ضرورت سمجھی۔
حدیث میں قصاب کا ذکر ہے اور گوشت بیچنے والوں کا۔
اسی سے اس پیشہ کا جواز ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2081   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2081  
حدیث حاشیہ:
(1) (الحكام)
گوشت بیچنے والے کواور (جزار)
اونٹ ذبح کرنے والے کو کہتے ہیں، جبکہ قصاب بکریاں وغیرہ ذبح کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔
جب جوازیا کراہت کا حکم ایک قسم میں ثابت ہوگیا تو عموم علت کی وجہ سے باقی قسموں میں بھی ثابت ہوگا۔
(2)
حدیث میں قصاب کا ذکر ہے کہ اس کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں،اس بنا پر گوشت بیچنے اور اونٹ ذبح کرنے کا پیشہ اختیار کرنا بھی جائز ہے،البتہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ذوق کے مطابق اس حدیث کی وضاحت بایں طور ہوگی کہ جب ملی جلی کھجوروں کی خریدوفروخت جائز ہے تو گوشت کا ہڈیوں سمیت بیچنا بھی جائز ہے۔
آپ نے پہلے عنوان سے کچھ ترقی کی ہے کیونکہ روی اور عمدہ کھجوریں ایک ہی جنس سے تھیں جبکہ پٹھے اور ہڈیاں،گوشت کی قسم نہیں ہیں،اس کے باوجود گوشت کے ساتھ پٹھے اور ہڈیاں فروخت کرنا جائز ہے۔
(3)
واضح رہے کہ بن بلائے مہمان کو طفیلی کہا جاتا ہے۔
اگر صاحب خانہ اسے اجازت دے تو وہ شامل ہوسکتا ہے بصورت دیگر اسے واپس جانا ہوگا۔
والله اعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2081   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1099  
´بغیر دعوت کے ولیمہ میں جانے کا حکم۔`
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوشعیب نامی ایک شخص نے اپنے ایک گوشت فروش لڑکے کے پاس آ کر کہا: تم میرے لیے کھانا بنا جو پانچ آدمیوں کے لیے کافی ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھوک کا اثر دیکھا ہے، تو اس نے کھانا تیار کیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ جو لوگ بیٹھے تھے سب کو کھانے کے لیے بلایا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (چلنے کے لیے) اٹھے، تو آپ کے پیچھے ایک اور شخص بھی چلا آیا، جو آپ کے ساتھ اس وقت نہیں تھا جب آپ کو دعوت دی گئی تھی۔ جب رسول اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1099]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ بغیردعوت کے کسی کے ساتھ طفیلی بن کر دعوت میں شریک ہو نا غیراخلاقی حرکت ہے،
تاہم اگر صاحب دعوت سے اجازت لے لی جائے تواس کی گنجائش ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1099   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2456  
2456. حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ ابو شعیب نامی انصاری کاایک غلام تھا جو گوشت پکانے میں مہارت ر کھتاتھا۔ ابوشعیب نے اس سے کہا: پانچ آدمیوں کاکھانا تیار کرو، میں نبی کریم ﷺ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ پانچ اشخاص میں سے پانچویں ہوں گے، اس نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور میں بھوک کے آثار دیکھے تھے، چنانچہ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دعوت دی تو آپ کے ساتھ ایک صاحب اور آگئے جس کو کھانے کی دعوت نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ صاحب ہمارے ساتھ آگئے ہیں۔ کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں؟ ابو شعیب نے کہا: جی ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2456]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس باب کا مطلب بھی اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بن بلائے دعوت میں جانا اور کھانا کھانا درست نہیں، مگر جب صاحب خانہ اجازت دے تو درست ہوگیا۔
اس حدیث سے حضور نبی کریم ﷺ کی رافت اور رحمت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ﷺ کو کسی کا بھوکا رہنا گوارا نہ تھا۔
ایک باخدا بزرگ انسان کی یہی شان ہونی چاہئے۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2456   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5434  
5434. سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار کے ایک آدمی کو ابو شعیب کہا جاتا تھا اسکا ایک گوشت فروش غلام تھا۔ ابو شعیب ؓ نے اپنے غلام سے کہا: تم میری طرف سے کھانا تیار کرو، میری خواہش ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں، چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کو دعوت دی تو ایک آدمی مزید ان کے پیچھے لگ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے ہم پانچ آدمیوں کی دعوت کی ہے مگر یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اگر چاہو تو اسے اجازت دو اور اگر چاہو تو اسے روک دو۔ ابو شعیب ؓ نے کہا: میں نے اسے بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ محمد بن اسماعیل بخاری ؓ نے فرمایا کہ جب لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس امر کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دسترخوان والے دوسرے دسترخوان والوں کو کوئی چیز دیں، البتہ ایک ہی دسترخوان کے شرکاء کو کوئی چیز نہ دینے یا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5434]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس سے نکلی کہ اس نے خاص پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کرایا تو ضرور اس میں تکلف کیا ہوگا۔
معلوم ہواکہ میزبان کو اختیار ہے کہ جو بن بلائے چلا آئے اس کو اجازت دے یا نہ دے۔
بن بلائے دعوت میں جانا حرام ہے مگر جب یہ یقین ہو کہ میزبان اس کے جانے سے خوش ہوگا اور دونوں میں بے تکلفی ہو تو درست ہے۔
اسی طرح اگر عام دعوت ہے تو اس میں بھی جانا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5434   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5461  
5461. سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار میں ایک ابو شعیب نامی آدمی تھے اور انکا غلام گوشت فروش تھا۔ (ابو شعیب ؓ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صحابہ کرام‬ ؓ م‬یں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کشی کا اندازہ لگایا، چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس آئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا كهنانا تيار كر دو،ميں نبی ﷺ چار دوسرے ٓدميوں كے ہمراہ دعوت دینے والا ہوں۔ اس (غلام) نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ہمراہ ایک اور آدمی بھی چلنے لگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اے شعیب!یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر چاہو تو اسے چھوڑو۔ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ میں اسے بھی اجازت دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5461]
حدیث حاشیہ:
مگر اس طرح ہر کسی کے گھر چلے جانا یا کسی کو اپنے ساتھ میں لے جانا جائز نہیں ہے، کوئی مخلص دوست ہو تو بات الگ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5461   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2456  
2456. حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ ابو شعیب نامی انصاری کاایک غلام تھا جو گوشت پکانے میں مہارت ر کھتاتھا۔ ابوشعیب نے اس سے کہا: پانچ آدمیوں کاکھانا تیار کرو، میں نبی کریم ﷺ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ پانچ اشخاص میں سے پانچویں ہوں گے، اس نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور میں بھوک کے آثار دیکھے تھے، چنانچہ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دعوت دی تو آپ کے ساتھ ایک صاحب اور آگئے جس کو کھانے کی دعوت نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ صاحب ہمارے ساتھ آگئے ہیں۔ کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں؟ ابو شعیب نے کہا: جی ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2456]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے دعوت کے آداب کا پتا چلتا ہے کہ میزبان جن لوگوں کو بلائے صرف انہی حضرات کو دعوت میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے، دعوت کے بغیر شریک ہونا ایک نامعقول حرکت ہے۔
اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو مہمان میزبان کو ضرور مطلع کر دے، تاہم مروت و اخلاق کا تقاضا ہے کہ میزبان ایسے شخص کو بے عزت نہ کرے بلکہ دعوت میں شمولیت کی اجازت دے دے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے میزبان کی اجازت سے عنوان ثابت کیا ہے کہ یہ اس کا حق ہے اور کھانے میں شمولیت کو اس کی اجازت پر موقوف رکھا ہے، اگر وہ اجازت دے تو جائز ہے بصورتِ دیگر دعوت میں شرکت کرنا اس کی حق تلفی ہے، جس کے متعلق دنیا اور آخرت میں باز پرس ہو سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2456   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5434  
5434. سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار کے ایک آدمی کو ابو شعیب کہا جاتا تھا اسکا ایک گوشت فروش غلام تھا۔ ابو شعیب ؓ نے اپنے غلام سے کہا: تم میری طرف سے کھانا تیار کرو، میری خواہش ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں، چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کو دعوت دی تو ایک آدمی مزید ان کے پیچھے لگ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے ہم پانچ آدمیوں کی دعوت کی ہے مگر یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اگر چاہو تو اسے اجازت دو اور اگر چاہو تو اسے روک دو۔ ابو شعیب ؓ نے کہا: میں نے اسے بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ محمد بن اسماعیل بخاری ؓ نے فرمایا کہ جب لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس امر کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دسترخوان والے دوسرے دسترخوان والوں کو کوئی چیز دیں، البتہ ایک ہی دسترخوان کے شرکاء کو کوئی چیز نہ دینے یا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5434]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو شعیب نامی صحابئ جلیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں انتہائی تکلف کیا کہ سپیشل ایک ماہر آدمی سے گوشت تیار کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چھٹے آدمی کو دعوت میں شریک کرنا تکلف ہے۔
(2)
بہرحال مہمانوں اور بھائیوں کی دعوت کے موقع پر تکلف کرنا جائز اور مباح ہے۔
ان کے لیے گوشت کا اہتمام کرنا ایک پسندیدہ خصلت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا و آخرت میں گوشت تمام کھانوں کا سردار ہے۔
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5434   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5461  
5461. سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار میں ایک ابو شعیب نامی آدمی تھے اور انکا غلام گوشت فروش تھا۔ (ابو شعیب ؓ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صحابہ کرام‬ ؓ م‬یں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کشی کا اندازہ لگایا، چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس آئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا كهنانا تيار كر دو،ميں نبی ﷺ چار دوسرے ٓدميوں كے ہمراہ دعوت دینے والا ہوں۔ اس (غلام) نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ہمراہ ایک اور آدمی بھی چلنے لگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اے شعیب!یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر چاہو تو اسے چھوڑو۔ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ میں اسے بھی اجازت دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5461]
حدیث حاشیہ:
کسی کے دعوت کرنے پر دوسرے کو ساتھ لے جانے کا اصرار کرنا حالات و ظروف پر منحصر ہے۔
ہر کسی کے گھر میں دوسرے کو ساتھ لے جانا جائز نہیں۔
کوئی مخلص دوست ہو تو الگ بات ہے، البتہ اس کے متعلق دعوت ملتے ہی کہہ دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا:
یہ بھی میرے ہمراہ ہو گی۔
اگر پہلے سے معاملہ نہیں ہوا تو اہل خانہ کی صوابدید پر موقوف ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔
اگر وہ چاہیں تو اسے اجازت دے دیں اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔
بہرحال موقع محل کو ضرور دیکھنا ہو گا۔
علی الاطلاق ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5461   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.