صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز تراویح پڑھنے کا بیان
The Book of Tarawih Prayers.
1. بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:
1. باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔
(1) Chapter. The superiority of praying (Nawafil) at night in Ramadan.
حدیث نمبر: 2013
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن سعيد المقبري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، انه سال عائشة رضي الله عنها:" كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت: ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا، فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا، فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، فقلت: يا رسول الله، اتنام قبل ان توتر، قال: يا عائشة، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Salama bin `Abdur Rahman: that he asked `Aisha "How was the prayer of Allah's Apostle in Ramadan?" She replied, "He did not pray more than eleven rak`at in Ramadan or in any other month. He used to pray four rak`at ---- let alone their beauty and length----and then he would pray four ----let alone their beauty and length ---- and then he would pray three rak`at (witr)." She added, "I asked, 'O Allah's Apostle! Do you sleep before praying the witr?' He replied, 'O `Aisha! My eyes sleep but my heart does not sleep."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 32, Number 230


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3569عائشة بنت عبد اللهتنام عيني ولا ينام قلبي
   صحيح البخاري1147عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   صحيح البخاري2013عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   صحيح مسلم1723عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   جامع الترمذي439عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   سنن النسائى الصغرى1698عائشة بنت عبد اللهعيني تنام ولا ينام قلبي
   صحيح ابن خزيمة49عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم159عائشة بنت عبد الله إن عيني تنامان ولا ينام قلبي
   بلوغ المرام298عائشة بنت عبد الله يا عائشة إن عيني تنامان ولا ينام قلبي

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2013 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2013  
حدیث حاشیہ:
وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّةُ الْوَاحِدَةُ مِنَ الرَّاحَةِ كَتَسْلِيمَةٍ مِنَ السَّلَامِ سُمِّيَتِ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ فِي لَيَالِي رَمَضَانَ التَّرَاوِيحَ لِأَنَّهُمْ أَوَّلَ مَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهَا كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ بَيْنَ كُلِّ تَسْلِيمَتَيْنِ وَقَدْ عَقَدَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ بَابَيْنِ لِمَنِ اسْتَحَبَّ التَّطَوُّعَ لِنَفْسِهِ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ وَلِمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ وَحَكَى فِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ عَنِ اللَّيْثِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ قَدْرَ مَا يُصَلِّي الرَّجُلُ كَذَا كَذَا رَكْعَة۔
خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحة کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔
رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔
علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔
ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔
اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔
اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔
اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر ؓ کا اقدام مذکور ہے۔
پھر حضرت امام ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔
اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ ؓ کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم ﷺ رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔
رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔
اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ ؓ کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔
عجیب دلیری:
حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔
اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل داد ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔
اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔
اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:
جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔
(تفہیم البخاری، پ8، ص: 30)
یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواد اعظم کا عمل ہے۔
آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔
جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔
یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔
عائشہ ؓ کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی ؒ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔
(تفہیم البخاری، پ8، ص: 31)
اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
حدیث ابن عباس ؓ جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے:
عن ابن عباس قال کان النبيُ صلی اللہ علیه وسلم یُصلِي في شهر رمضانَ في غیرجماعة بعشرین رکعة والوتر۔
تفردبه أبوشبیة إبراهیم بن عثمان العبسي الکوفي وهوضعیف۔
یعنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔
اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔
لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔
امام سیوطی ؒ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
هذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم به الحجة۔
(المصابیح للسیوطي)
آگے علامہ سیوطی ؒ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں:
ومن اتفق هولاء الأئمة علی تضعیفه لایحل الاحتجاج بحدیثه۔
یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔
علامہ ابن حجر ؒ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
وهومعلول بأبي شیبة إبراهیم بن عثمان جدا لإمام أبي بکر بن أبي شیبة و هومتفق علی ضعفه ولینه ابن عدي في الکامل ثم إنه مخالف للحدیث الصحیح عن أبي سلمة بن عبدالرحمن أنه سأل عائشة الحدیث (نصب الرایة، ص493)
یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے۔
اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔
اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔
اوریہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔
لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔
علامہ ابن ہمام حنفی ؒ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔
اورعلامہ عینی ؒ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔
علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص: 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔
اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری ؒ فرماتے ہیں:
وأما النبي صلی اللہ علیه وسلم فصح عنه ثمان رکعات وأماعشرون رکعة فهوعنه بسند ضعیف وعلی ضعفه اتفاق۔
(العرف الشذي)
یعنی نبی ﷺ سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔
بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔
اوجزالمسالک، جلداول، ص: 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں:
لاشك في أن تحدیدالتراویح في عشرین رکعة لم یثبت مرفوعاً عن النبي صلی اللہ علیه وسلم بطریق صحیح علی أصول المحدثین وماورد فیه من روایة ابن عباس فمتکلم فیها علی أصولهم انتهی۔
یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم ﷺ سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔
اورجو روایت ابن عباس ؓ سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔
یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔
باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی ؒ کی کتاب مستطاب انوارالمصابیح کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے ماله وماعلیه پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔
جزی اللہ عناخیر الجزاء وغفراللہ له آمین۔
مزیدتفصیلات پ3 میں دی جاچکی ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2013   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 2013  
فقہ الحدیث
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
«كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ [صحيح مسلم: 254/1 ح 1718]

دلیل نمبر
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: «ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة» إلخ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ الخ۔ [صحيح بخاري: 229/1 ح 2013، عمدة القاري: 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
ایک اعتراض:
اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے؟
جواب: تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً:
● صحیح بخاری، «كتاب الصوم» (روزے کی کتاب) «كتاب صلوة التراويح» (تراویح کی کتاب) «باب فضل من قام رمضان» (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی: [ص 141]، باب «قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل»
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے:
«قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح»
یعنی: قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] «باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان» ۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً:
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه: 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه: 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير: 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري: 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف: ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ:
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا وتران فى ليلة» ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔ [ترمذي: 107/1 ح 470، ابوداود: 1439، نسائي: 1678، صحيح ابن خزيمه: 1101، صحيح ابن حبان: 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا:
«هذا حديث حسن غريب»
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے: [فیض الباری 420/2]، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے: [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي: بحواله فيض الباري: 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت: «صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر» الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
«وتلك عشرة كاملة» ۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ 5، حدیث/صفحہ نمبر: 28   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح بخاری 2013  
گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) کا ثبوت اور دلائل
اس مختصر مضمون میں گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) کا ثبوت اور (بعض تحقیقی اور بعض الزامی) دلائل پیشِ خدمت ہیں:
1) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
«ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره علٰي احديٰ عشرة ركعة …»
رمضان ہو یا غیر رمضان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
(صحیح بخاری ج 1ص 269 ح 2013، عمدۃ القاری ج 11 ص 128، کتاب التراویح باب فضل من قام رمضان)
اس حدیث پر امام بخاری اور محدث بیہقی رحمہمااللہ نے قیام رمضان (اور تراویح) کے عنوانات لکھے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 495۔ 496)
نیز بہت سے حنفی وغیر حنفی علماء نے اس حدیث سے استدلال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سے مراد قیامِ رمضان (تراویح) ہے۔ مثلاً دیکھئے نصب الرایہ للزیلعی (2/ 153) الدرایہ لابن حجر العسقلانی (1/ 203) عمدۃ القاری للعینی (11/ 128) فتح القدیر لابن ہمام (1/ 467) اور الحاوی للسیوطی (1/ 348)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے …… آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم ج 1 ص 254 ح 736)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات دو دو کر کے (2 2 2 2 2) اور آخر میں ایک وتر (کل 11) پڑھنا ثابت ہے۔

2) سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں نماز پڑھائی، آپ نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے۔
(صحیح ابن خزیمہ 2/ 138 ح 1070، وسندہ حسن، صحیح ابن حبان، الاحسان 4/ 62، 64 ح 2401، 2406)
اس حدیث کے راوی عیسیٰ بن جاریہ رحمہ اللہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہیں۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات ج 1 ص 525۔ 532)

دوسری روایت میں آیا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں نے رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے کچھ نہیں کہا، پس یہ رضا مندی والی سنت بن گئی۔
(مسند ابی یعلیٰ 3/ 236 ح 1801، وسندہ حسن، مجمع الزوائد 2/ 74 وقال الہیثمی: رواہ أبو یعلیٰ و الطبرانی بنحوہ فی الأوسط و إسنادہ حسن)

3) سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ (خلیفۂ راشد و امیر المومنین) نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری (رضی اللہ عنہما) کو حکم دیا، لوگوں کو گیاہ رکعات پڑھائیں۔ (موطأ امام مالک روایۃ یحییٰ 1/ 114ح 249، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 496)
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضطراب نہیں بلکہ جب طحاوی نے اس روایت کو دو سندوں سے بیان کیا تو عینی حنفی نے کہا:
«ما أخرجه عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه من طريقين صحيحين»
جو انھوں (طحاوی) نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے دو صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار ج 5 ص 103)
نیموی نے کہا: و إسنادہ صحیح (آثار السنن ص 250)

ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی نے فرمایا:
ہم (سیدنا) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
(سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی 1/ 349 وقال السیوطی: بسند في غایۃ الصحۃ)

دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا اُبئ بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 392 ح 7670 وسندہ صحیح)

4) طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی نے لکھا ہے:
«لأن النبى عليه الصلٰوة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني»
بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔
(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 1/ 295 واللفظ لہ، حاشیۃ کنز الدقائق ص 36 حاشیہ نمبر 4)

5) انور شاہ کاشمیری دیوبندی نے کہا:
«وأما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و علٰي ضعفه اتفاق»
اور جو بیس رکعات ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضعیف سند کے ساتھ (مروی) ہیں اور اس (روایت) کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔
(العرف الشذی ج 1 ص 166)

انور شاہ صاحب نے مزید کہا:
اور اس بات کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں……
رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعات صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ (روایت) ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔
(العرف الشذی ج 1 ص 166، مترجماً)
نیز دیکھئے فیض الباری (ج 2 ص 420)

6) ابو بکر بن العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے کہا:
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں (یہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں۔
(عارضۃ الاحوذی شرح الترمذی ج 4 ص 19)

7) خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے:
اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے
(براہین قاطعہ ص 195)

8) ابن ہمام حنفی نے کہا:
اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیامِ رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر (اور) جماعت کے ساتھ سنت ہے۔
(فتح القدیر شرح الہدایہ ج 1 ص 407، نیز دیکھئے البحر الرائق ج 2 ص 67)

9) دیوبندیوں کے منظورِ نظر عبد الشکور لکھنوی نے لکھا ہے:
اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر……
(علم الفقہ ص 198، حاشیہ)
عرض ہے کہ صحیح حدیث اور آثارِ صحیحہ کے بعد اگر مگر کی کوئی ضرورت نہیں اور صحیح حدیث پر عمل میں ہی نجات ہے۔

10) محمد یوسف بنوری دیوبندی نے تسلیم کیا:
پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہیں۔
(معارف السنن ج 5 ص 543 مترجماً)

11) امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس رکعات کو پسند کرنے کے بعد فرمایا:
اس چیز (تراویح) میں ذرہ برابر تنگی نہیں اور نہ کوئی حد ہے، کیونکہ یہ نفل نماز ہے، اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر رکعتیں زیادہ ہوں تو بھی بہتر ہے۔
(مختصر قیام اللیل للمروزی ص 202۔ 203)

1: بعض آلِ تقلید نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بیس رکعتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں لیکن یہ دعویٰ کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں، بلکہ ہماری پیش کردہ دلیل نمبر 3 کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

2: بعض آلِ تقلید نے بس رکعات تراویح پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ اجماع کا یہ دعویٰ باطل ہے۔ (دیکھئے میری کتاب: تعداد رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 84۔ 87)

3: درج ذیل حنفی اور دیوبندی علماء نے آٹھ رکعات تراویح کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے:
ابن ہمام، طحطاوی، ملا علی قاری، حسن بن عمار شرنبلانی۔
محمد احسن نانوتوی، عبدالشکور لکھنوی، عبدالحی لکھنوی، خلیل احمد سہارنپوری، احمدعلی سہارنپوری، انور شاہ کاشمیری اور محمد یوسف بنوری۔
تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب: تعدادِ رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 5 صفحہ 167 تا 170)
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 167   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 2013  
´گیارہ رکعت تراویح `
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ/ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:/ ح: 2013]

فوائد و مسائل
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں:
اہل سنت بیس تراویح سے کم کے قائل نہیں۔
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
7 تبصرہ: 7
قاضی ابوبکر بن العربی المالکی (متوفی ۵۴۳؁ھ) فرماتے ہیں:
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں۔
[عارضة الاحوذي ۴/۱۹ ح ۸۰۶، تعداد ركعاتِ قيام ر مضان كا تحقيقي جائزه ص ۸۶]
کیا قاضی صاحب اہل سنت سے خارج تھے؟

علامہ قرطبی (متوفی ۶۵۶؁ھ) لکھتے ہیں:
اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں۔
[المفهم من تلخيص كتاب مسلم ۲/۳۹۰، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۶]

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے …
[مختصر قيام الليل للمروزي ص ۲۰۲، ۲۰۳، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۵]
کیا یہ سب اہل سنت سے خارج تھے؟
   مذید تشریحات، حدیث/صفحہ نمبر: 0   

  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2013  
فوائد و مسائل:
اعتراض: اور اگر کوئی کہے کہ یہاں تہجد مراد ہے نہ کہ تراویح۔
جواب: تو کہا جائے گا کہ قدیمی اصطلاح میں قیام رمضان تراویح ہی کو کہا جاتا تھا۔ [ملاحظه هو كتب فقه مثلاً هدايه وغيره]
اور یہاں جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام رمضان کے متعلق دریافت کیا گیا تھا، اس سے مراد تراویح ہی ہے، جس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ آپ گیارہ ہی پڑھتے تھے اور غیر رمضان کی قید لگانے سے یہ بات ظاہر کر دی گئی کہ جو آپ کا غیر رمضان میں تہجد تھا، وہی آپ کی رمضان میں تراویح تھیں۔

نیز صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں بھی ایک حدیث شریف مروی ہے جس سے بالکل واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ تراویح آٹھ ہی پڑھتے تھے۔ [صحيح ابن حبان 920، صحيح ابن خزيمه 1070، ابن منذر الاوسط 2606، طبراني جامع صغير: 1901] گو اس حدیث شریف کی سند میں ایک راوی بنام عیسٰی بن جاریہ واقع ہے اور اس کے متعلق کچھ جرحیں منقول ہیں لیکن حافظ ذہبی جو «من اهل استقراء التام في نقد الرجال» ہیں، انہوں نے اس حدیث شریف کے حق میں فرمایا ہے کہ «اسناده وسط» ۔ [ميزان الاعتدال 311/3]

باقی رہی وہ حدیث جو مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے وہ بالکل ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے اور اس کے متعلق:
◈ شیخ ابن ہمام حنفی نے یوں لکھا ہے کہ:
«واما ما روي ابن ابي شيبة والطبراني وعند البيهقي من حديث ابن عباس انه عليه الصلوة والسلام كان يصلي فى رمضان عشرين ركعة سوي الوتر فضعيف بابي شيبة ابراهيم بن عثمان متفق على ضعفه مع مالفته للصحيح» [فتح القدير: 467/1، علامه زيلعي نصب الرايه:153/2]
ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور طبرانی نے اور بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان واقع ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔
↰ علاوہ ازیں یہ حدیث باوجود ضعیف ہونے کے صحیح حدیث (یعنی بخاری شریف کی مذکورہ حدیث شریف) کے مخالف بھی ہے۔

اور لیجئیے فاروق اعظم عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
چنانچہ موطا امام مالک میں سائب بن یزید سے مروی ہے کہ:
«أمر عمر بن الخطاب أبي بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس بإحدى عشرة ركعة» [موطا امام مالك: 98]
عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان شریف میں گیارہ رکعت پڑھائیں۔
معلوم ہوا کہ مسنون آٹھ ہی رکعتیں ہیں نہ اس سے کم نہ اس سے بیش۔
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 46   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2013  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے تراویح کی تعداد کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں کس قدر نماز تراویح پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، چنانچہ سائل نے حضرت عائشہ ؓ سے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرتے تھے، آخر میں ایک وتر ادا کرتے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1718(736)
حضرت جابر ؓ کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے تھے۔
(صحیح ابن خزیمة: 138/2)
اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ آج رات میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔
آپ نے دریافت فرمایا:
وہ واقعہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا:
ہم قرآن نہیں پڑھتیں، اس لیے تمہاری اقتدا میں نماز ادا کریں گی تو میں نے انہیں آٹھ رکعت پڑھائیں، اس کے بعد وتر ادا کیے۔
آپ خاموش رہے، اس پر کسی قسم کا تبصرہ نہ کیا، گویا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا۔
(مسند أبي یعلیٰ: 236/3)
حضرت عمر ؓ نے بھی اس سنت کا احیاء کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھائیں۔
(الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك: 105/1)
اس روایت کو بیان کرنے والے صرف امام مالک ہی نہیں بلکہ یحییٰ بن سعید القطان نے بھی اسے بیان کیا ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
اسی طرح امام عبدالعزیز بن محمد نے بھی محمد بن یوسف سے اس روایت کو بیان کیا ہے، ان کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔
(2)
الغرض امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نماز تراویح کی مسنون تعداد گیارہ رکعت ہیں۔
واضح رہے کہ اس تعداد کے خلاف بیس رکعات تراویح کے اثبات میں پیش کی جانے والی تمام روایات کمزور اور ناقابل حجت ہیں۔
(تحفةالأحوذي: 612/3،616)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2013   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 159  
´تعداد رکعات قیام رمضان`
. . . ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ... [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 159]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2013، ومسلم 738، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ رمضان میں تراویح کی نماز گیارہ رکعتیں ہے اور یہی نماز غیر رمضان میں تہجد کہلاتی ہے۔ اس حدیث سے درج ذیل علماء نے تراویح مسئلہ ثابت کیا ہے:
◄ بخاری [صحيح بخاري مع عمدة القاري ج11 ص128 ح2013]
◄ بیہقی [2/495، 496]
◄ زیلعی [نصب الرايه 2/153،]
◄ ابن حجر العسقلانی [الدرايه 1/203]
◄ عینی [عمدة القاري 11/128]
◄ سیوطی [الحاوي للفتاوي 1/348] اور ابن ہمام [فتح القدير 1/467]
◄ ابوالعباس أحمد بن ابراہیم القرطبی (متوفی 656ھ) فرماتے ہیں: اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، انہوں نے اس (مسئلے) میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم ج2 ص390]
➋ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب تعداد رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ اور الموطا احادیث ِ سابقہ: 36، 417
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 417   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1698  
´تین رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان؟`
... پھر آپ تین رکعت پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا ... [سنن نسائي حدیث: 1698]
1698۔ اردو حاشیہ:
➊ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ایک سلام سے پڑھتے تھے، پھر چار ایک سلام سے، پھر تین ایک سلام سے۔ یہ طریقہ بھی درست ہے، اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے تین وتر کا باب باندھا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد کے متعلق مختلف طریقے منقول ہیں۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ان میں سے کوئی سا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ عمل میں تنوع ہو، کبھی یہ، کبھی وہ، اصل اتباع سنت یہی ہے۔ عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد گیارہ رکعات، دودوکر کے اور آخر میں وتر ایک رکعت کی صورت میں منقول ہے، اور یہ طریقہ افضل ہے۔ لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رکعات اکٹھی اور بعد میں دورکعات، کبھی سات اور کبھی تیرہ رکعات، آٹھ دو دو کر کے اور پانچ وتر اکٹھے بھی پڑھے ہیں، لہٰذا دودورکعات والی عام روایات کی روشنی میں ان میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح چار چار رکعات نماز تہجد میں بھی کوئی حرج نہیں، نہ یہ ممنوع ہیں بلکہ مذکورہ بالاحدیث اس کی مشروعیت کے لیے کافی ہے۔ بعض کا یہ کہنا کہ چار چار س اکٹھی چار چار مراد نہیں بلکہ دیگر احادیث کی روشنی میں دودورکعات ہی مراد ہیں لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ جب احادیث میں ایک ہی نہیں بلکہ کچھ اور طریقے بھی منقول ہیں تو انہیں تسلیم کرنے سے اس طریقے کو بھی ماننے یا عمل میں لانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ نماز تہجد کے متعددطریقوں کے لیے دیکھیے: (صلاۃ التراویح، للالبانی، ص: 86۔ 93)
زائد نہیں پڑھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گیارہ رکعات ہی تھا۔ گیارہ سے کم بھی پڑھی جا سکتی ہیں کیونکہ کم پڑھنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
دل نہیں سوتا اور یہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے اور وحی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل حالت نیند میں بھی چونکہ بیدار ہوتا تھا، اس لیے آپ کو حدث (بے وضو ہونا) وغیرہ کا پتا چل جاتا تھا۔ گویا نیند صرف خروج ریح کے خطرے کی بنا پر ناقض وضو ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1698   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 298  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں ایسی حسن اور خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعات ادا فرماتے بس ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کیا پوچھتے ہو پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ وتر ادا کئے بغیر سو جاتے ہیں۔ فرمایا عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 298»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب قيام النبي صلي الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره، حديث:1147، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:738.»
تشریح:
1.اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوتے ہیں: 1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نہیں سوتا تھا‘ صرف آنکھیں سوتی تھیں۔
اور یہ آپ کی خصوصیت تھی بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: تمام انبیاء کے دل جاگتے اور آنکھیں سوتی ہیں۔
(صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولاینام قلبہ‘ حدیث: ۳۵۷۰) 2. گہری نیند جس میں دل غافل ہو جائے‘ ناقض وضو ہے۔
3. نماز تہجد عمدہ طریقے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہیے۔
4.ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح گیارہ رکعت ہی پڑھی ہے۔
اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت قابل ترجیح ہے‘ اس لیے کہ آپ یہ نماز گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔
آپ کے وہ اعمال جو آپ عموماً گھر میں سرانجام دیتے تھے بالخصوص رات کے اعمال ‘ ان کی صحیح خبر اہل خانہ ہی کو ہو سکتی ہے۔
بیس رکعت تراویح کے متعلق ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔
عبد بن حمید اور طبرانی نے ابوشیبہ‘ ابراہیم بن عثمان‘ عن الحکم‘ عن مقسم‘ عن ابن عباس کے طریق سے جو روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تراویح پڑھی‘ وہ سخت ضعیف ہے کیونکہ ابوشیبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام احمد‘ ابن معین‘ امام بخاری‘ امام مسلم‘ ابوداود‘ ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ سبھی کی یہ رائے ہے کہ یہ شخص ضعیف ہے۔
امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب قرار دیا ہے۔
اس کے مقابل صحیح مرفوع روایات میں آٹھ رکعت تراویح کا ذکر ہے‘ اس لیے تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں یہی کہا ہے کہ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ رکعات ہے اور اس سے زائد مستحب اور نفل ہیں۔
اسی طرح علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے عرف الشذی میں کہا ہے کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے اور کسی روایت سے یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔
5. اس حدیث کے آخری حصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد کی دس رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور آخر میں ایک وتر پڑھا۔
یوں یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔
6. نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے کبھی تیرہ رکعت بھی پڑھیں ہیں۔
جس میں آٹھ نفل اور پانچ وتر ہوتے یا پھر فجر کی دو سنتیں ملا کر ۱۳ رکعتیں ہوتیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 298   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 439  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔`
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ۲؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 439]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ رکعت ہے،
اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔

2؎:
یہاں نہی (ممانعت) مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔

3؎:
دل نہیں سوتا کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا،
کیونکہ دل بیدار رہتا تھا،
یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے ہے،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے،
تہجد کے آخر میں پڑھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 439   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1723  
حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں نماز کیسے پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا، رمضان اور اس کے علاوہ مہینوں میں آپﷺ گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے، چار رکعات پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں مت پوچھیٔے پھر چار رکعات پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھیے، پھر تین رکعات پڑھتے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1723]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ رات کی نماز میں قیام بہت ہی لمبا فرماتے تھے اس لیے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ان کے حسن و طول کے بارے میں سوال کی ضرورت نہیں ہے۔
اس بنا پر آپﷺ چار رکعات پڑھنے کے بعد کچھ وقفہ فرماتے پھر چار رکعات کے بعد وقفہ فرماتے اور پھر آخر میں تین رکعات پڑھتے،
لیکن ان کے پڑھنے کی کیفیت وہی تھی جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پہلی روایت میں گزر چکی ہے کہ آپﷺ رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے۔
اور آخرمیں ایک وتر پڑھتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1723   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1147  
... رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے، ان کی طوالت اور خوبی کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق بھی سوال نہ کرو۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پرھتے تھے... [صحيح بخاري، حديث نمبر:1147]
حدیث حاشیہ:
ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں۔
رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیر رمضان میں تہجد کے نام سے پکاری گئی۔
پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کرنی ثابت ہیں۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔
عن جابر رضي اللہ عنه قال صَلی بِنَا رسولُ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم في رَمضانَ ثمان رکعات والوترَ۔
علامہ محمد بن نصر مروزی حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھادیا (یعنی کل گیارہ رکعات)
نیز حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کہ رسول اللہ ﷺ مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔
رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوگئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں۔
لہذا معلوم ہو ا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان (تراویح)
یا بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان (تراویح)
کو حدیث شریف میں قیام اللیل (تہجد)
بھی فرمایا ہے۔
رمضان میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تراویح پڑھا کر فرمایا:
مجھ کو خوف ہو اکہ تم پر صلوۃ اللیل (تہجد)
فرض نہ ہو جائے۔
دیکھئے آپ ﷺ نے تراویح کو تہجد فرمایا۔
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان (تراویح)
اور صلوۃ اللیل (تہجد)
ایک ہی نماز ہے۔
تراویح وتہجد کے ایک ہونے کی دوسری دلیل! عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:
صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْهُ، حَتَّى بَقِيَ سَبْعُ لَيَالٍ، فَقَامَ بِنَا لَيْلَةَ السَّابِعَةِ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ كَانَتِ اللَّيْلَةُ السَّادِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَلَمْ يَقُمْهَا، حَتَّى كَانَتِ الْخَامِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ثُمَّ قَامَ بِنَا حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ:
يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ. فَقَالَ:
«إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، فَإِنَّهُ يَعْدِلُ قِيَامَ لَيْلَةٍ» ثُمَّ كَانَتِ الرَّابِعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَلَمْ يَقُمْهَا، حَتَّى كَانَتِ الثَّالِثَةُ الَّتِي تَلِيهَا، قَالَ:
فَجَمَعَ نِسَاءَهُ وَأَهْلَهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ، قَالَ:
فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قِيلَ:
وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ:
السُّحُورُ، قَالَ:
ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ بَقِيَّةِ الشَّهْرِ۔
رواہ ابن ماجة۔
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، آپ ﷺ نے ہم کو آخر کے ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں، دوسری رات کو نصف شب میں، پھر نصف بقیہ سے۔
سوال ہواکہ اور نماز پڑھائیے!آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کا پوری رات کا قیام ہوگا۔
پھر تیسری رات کو آخر شب میں اپنے اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں، یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے۔
اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر لفظوں میں کئی جگہ نقل ہوئی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاءکے اخیر رات تک اپنے فعل (اسوہ حسنہ)
سے بتادیا۔
جس میں تہجد کا وقت آگیا۔
پس فعل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاءکے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔
نیز اس کی تائید حضرت عمر ؓ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا:
والتي تنامونَ عَنھَا أَفضَلُ مِنَ التي تقومون۔
یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سوتے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے۔
معلوم ہوا کہ نماز تراویح وتہجد ایک ہی ہے اور یہی مطلب حضرت عائشہ ؓ والی حدیث کا ہے۔
نیز اسی حدیث پر امام بخاری ؒ نے یہ باب باندھا ہے کہ باب فضل من قام رمضان اور امام بیہقی ؒ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے باب ما روي في عدد رکعات القیام في شھر رمضان اوراسی طرح امام محمد ؒ شاگرد امام ابو حنیفہ ؒ نے باب قیام شهررمضان کے تحت حدیث مذکور کو نقل کیا ہے۔
ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ صدیقہ سے تراویح ہی ہے اور اوپر مفصل گزر چکا کہ اول رات سے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔
اب رہا کہ ان تین راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں؟ سو عرض ہے کہ علاوہ وتر آٹھ ہی رکعتیں پڑھائی تھیں۔
اس کے ثبوت میں کئی روایات صحیحہ آئی ہیں جو ہدیہ ناظرین ہیں۔
علماء وفقہائے حنفیہ نے فرمادیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے! (1)
علامہ عینی ؒ عمدہ القاری (جلد: 3 ص: 597)
میں فرماتے ہیں:
فَإِن قلت:
لم يبين فِي الرِّوَايَات الْمَذْكُورَة عدد هَذِه الصَّلَاة الَّتِي صلاهَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي تِلْكَ اللَّيَالِي؟ قلت:
روى ابْن خُزَيْمَة وَابْن حبَان من حَدِيث جَابر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَ:
(صلى بِنَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي رَمَضَان ثَمَان رَكْعَات ثمَّ أوتر۔
اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ ﷺ نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔
(2)
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری (جلد: 1 ص: 597)
میں فرماتے ہیں کہ وَلَمْ أَرَ فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِهِ بَيَانَ عَدَدِ صَلَاتِهِ فِي تِلْكَ اللَّيَالِي لَكِنْ روى بن خُزَيْمَة وبن حِبَّانَ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَز۔
میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان تین راتوں میں کتنی رکعت پڑھائی تھیں۔
لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علاوہ وتر آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔
(3)
علامہ زیلعی حنفی ؒ نے نصب الرایة في تخریج أحادیث الھدایة (جلد: 1ص: 293)
میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ عند ابن حبان في صحیحه عن جابر ابن عبد اللہ أنه علیه الصلوة والسلام صلی بھم ثمان رکعات والوتر۔
ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے یعنی کل گیارہ رکعات۔
(4)
امام محمد شاگرد امام اعظم ؒ اپنی کتاب مؤطا امام محمد (ص: 93)
میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ:
مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرةَ رَكْعَةً
ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
رمضان وغیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔
پھر امام محمد ؒ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
محمد وبھذا نأخذ کله۔
یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے،ہم ان سب کو لیتے ہیں۔
(5)
ہدایہ جلد اول کے حاشیہ پر ہے:
السنة ما واظب علیه الرسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنة ھو ذلك القدر المذکور وما زاد علیه یکون مستحبا۔
سنت صرف وہی ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ کیا ہو۔
پس اس تعریف کے مطابق صرف مقدار مذکور (آٹھ رکعت ہی)
سنت ہوگی اور جو اس سے زیادہ ہو وہ نماز مستحب ہوگی۔
(6)
امام ابن الہمام حنفی ؒ فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:
فتحصل من ھذا کله أن قیام رمضان سنة إحدیٰ عشرة رکعة با لوتر في جماعة فعله صلی اللہ علیه وسلم۔
ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا قیام (تراویح)
سنت مع وتر گیارہ رکعت با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل (اسوہ حسنہ)
سے ثابت ہے۔
(7)
علامہ ملا قاری حنفی ؒ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں:
أن التراویح في الأصل إحدیٰ عشرة رکعة فعله رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ثم ترکه لعذر۔
در اصل تراویح رسول اللہ ﷺ کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔
جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
(8)
مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی ؒ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں:
وأخرج ابن حبان في صحیحه من حدیث جابر أنه صلی بھم ثمان رکعات ثم أوتر وھذا أصح۔
اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔
یہ حدیث بہت صحیح ہے۔
ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ رسول اکرم ﷺ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔
جن روایات میں آپ کا بیس رکعات پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔
صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ کا حضور ﷺ کے زمانہ میں آٹھ رکعت تراویح پڑھنا! (9)
امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے:
جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ:
يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ , قَالَ:
وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟ قَالَ:
«نِسْوَةُ دَارِي قُلْنَ إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي خَلْفَكَ بِصَلَاتِكَ , فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ. فَسَكَتَ عَنْهُ وَكَانَ شِبْهَ الرِّضَاءِ» ابی بن کعب ؓ رمضان میں رسول خدا ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات کو ایک خاص بات ہوگئی ہے۔
آپ نے فرمایا اے ابی! وہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھتی ہیں اس لیے تمہارے پیچھے نماز (تراویح)
تمہاری اقتدا میں پڑھیں گی۔
تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیا۔
آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر سکوت فرمایا۔
گویا اس بات کو پسند فرمایا۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ ؓ آپ کے زمانہ میں آٹھ رکعت (تراویح)
پڑھتے تھے۔
حضرت عمر خلیفہ ثانی ؓ کی نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت! (10)
عن سائب ابن یزید قال أمرعمر أبي بن کعب وتمیما الداري أن یقوما للناس في رمضان إحدیٰ عشرة رکعة الخ۔
سائب بن یزید نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیاکہ رمضان شریف میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔
(مؤطا امام مالك)
واضح ہواکہ آٹھ اور گیارہ میں وتر کا فرق ہے اور علاوہ آٹھ رکعت تراویح کے وتر ایک تین اور پانچ پڑھنے حدیث شریف میں آئے ہیں اور بیس تراویح کی روایت حضرت عمر فاروق ؓ سے ثابت نہیں اور جو روایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السند ہے۔
اس لیے کہ بیس کا راوی یزید بن رومان ہے۔
اس نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا۔
چنا نچہ علامہ عینی حنفی ؒ وعلامہ زیلعی حنفی ؒ عمدۃالقاری اور نصب الرایہ میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن رومان لم یدرك عمر۔
یزید بن رومان نے حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ نہیں پایا اور جن لوگوں نے سیدنا عمر ؓ کو پایا ہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں، ان میں حضرت سائب ؓ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔
اور حضرت اعرج ہیں جو کہتے ہیں:
کان القارئ یقرء سورة البقرة في ثمان رکعات۔
قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں ختم کرتا تھا۔
(مؤطا امام مالك)
فاروق اعظم ؓ نے ابی بن کعب وتمیم داری اور سلیمان بن ابی حثمہ ؓ کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا (مصنف ابن أبي شیبة)
غرض حضرت عمر ؓ کا یہ حکم حدیث رسول اللہ ﷺ کے موافق ہے۔
لہٰذا علیکم بسنتي وسنة الخلفاءالراشدین۔
سے بھی گیارہ پر عمل کرنا ثابت ہوا۔
فقہاء سے آٹھ کا ثبوت اور بیس کا ضعف! (11)
علامہ ابن الہمام حنفی ؒ فتح القدیر شرح ہدایہ (جلد: 1ص: 205)
میں فرماتے ہیں بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔
أنه مخالف للحدیث الصحیح عن أبي سلمة ابن عبد الرحمن أنه سأل عائشة الحدیث۔
علاوہ بریں یہ (بیس کی روایت)
صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔
(12)
شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی ؒ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں:
ولم یثبت روایة عشرین منه صلی اللہ علیه وسلم کما ھو المتعارف الآن إلا في روایة ابن أبي شیبة وھو ضعیف وقد عارضه حدیث عائشة وھو حدیث صحیح۔
جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے (جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں) (13)
شیخ عبد الحق حنفی محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب ماثبت با لسنة (ص: 217)
میں فرماتے ہیں:
والصحیح ما روته عائشة أنه صلی اللہ علیه وسلم صلی إحدیٰ عشرة رکعة کماھو عادته في قیام اللیل وروي أنه کان بعض السلف في عھد عمر ابن عبد العزیز یصلون إحدیٰ عشرة رکعة قصدا تشبیھا برسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صحیح حدیث۔
وہ ہے جس کو حضرت عائشہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔
جیسا کہ آپ ﷺ کی قیام اللیل کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعض سلف امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے تاکہ آنحضرت ﷺ کی سنت سے مشابہت پیدا کریں۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب ؒ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے اور سلف صالحین میں بھی یہ مشہور تھا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ خود جناب پیغمبرخدا ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھیں اور صحابہ کرام ؓ کو پڑھائیں۔
نیز ابی ابن کعب ؓ نے عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں تو حضور اکرم ﷺ نے پسند فرمایا۔
اسی طرح حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے نیز حضرت عمر بن عبد العزیز کے وقت میں لوگ آٹھ رکعت تراویح پرسنت رسول سمجھ کر عمل کرتے تھے۔
اور امام مالک ؒ نے بھی مع وتر گیا رہ رکعت ہی کو سنت کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ (14)
علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ إحدیٰ عشرة رکعة وھو اختیار مالك لنفسه۔
گیارہ رکعت کو امام مالک ؒ نے اپنے لیے اختیار کیا ہے۔
اسی طرح فقہاء وعلماء مثل علامہ عینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی، حافظ ابن حجر، علامہ محمد بن نصر مروزی، شیخ عبدا لحی صاحب حنفی محدث دہلوی، مولانا عبد الحق حنفی لکھنؤی ؒ وغیرہم نے علاوہ وتر کے آٹھ رکعت تراویح کو صحیح اور سنت نبوی فرمایا ہے جن کے حوالے پہلے گزر چکے۔
اور امام محمد شاگرد رشید امام ابوحنیفہ نے تو فرمایا کہ وبھذا نأخذ کله۔
ہم ان سب حدیثوں کو لیتے ہیں۔
یعنی ان گیارہ رکعت کی حدیثوں پر ہمارا عمل ہے۔
فالحمد للہ کہ مع وتر گیارہ رکعت تراویح کی مسنونیت ثابت ہوگئی۔
اس کے بعد سلف امت میں کچھ ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو بیس رکعات اور تیس رکعات اور چالیس رکعات تک بطور نفل نماز تراویح پڑھا کرتے تھے لہٰذا یہ دعویٰ کہ بیس رکعات پر اجماع ہوگیا، باطل ہے۔
اصل سنت نبوی آٹھ رکعت تراویح تین وتر کل گیارہ رکعات ہیں۔
نفل کے لیے ہر وقت اختیار ہے کوئی جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے۔
جن حضرات نے ہر رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کو خلاف سنت کہنے کا مشغلہ بنا لیا ہے اور ایسا لکھنا یا کہنا ان کے خیال میں ضروری ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں، بلکہ اسے بھی ایک طرح سے تلبیس ابلیس کہا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی سب کونیک سمجھ عطاکرے۔
آمین۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے جو رات کے نوافل چار چار رکعت ملا کر پڑھنا افضل کہا ہے، وہ اسی حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔
حالانکہ اس سے استدلال صحیح نہیں، کیونکہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ ﷺ چار چار کے بعد سلام پھیرتے۔
ممکن ہے کہ پہلے آپ ﷺ چار رکعات (دو سلام کے ساتھ)
بہت لمبی پڑھتے ہوں پھر دوسری چار رکعتیں (دو سلاموں کے ساتھ)
ان سے ہلکی پڑھتے ہوں۔
حضرت عائشہ ؓ نے اس طرح ان چار چار رکعتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ چار رکعتوں کا ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مراد ہو۔
اسی لیے علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں کہ وأما ما سبق من أنه کان یصلي مثنی مثنی ثم واحدة فمحمول علی وقت آخر فالأمران جائزان۔
یعنی پچھلی روایات میں جو آپ ﷺ کا دو دو رکعت پڑھنا مذکور ہوا ہے۔
پھر ایک رکعت وتر پڑھنا تو وہ دوسرے وقت پر محمو ل ہے اور یہ چار چار کر کے پڑھنا پھر تین وتر پڑھنا دوسرے وقت پر محمول ہے اس لیے ہر دو امر جائز ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1147   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3569  
3569. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں کس قدر اور کس طریقے سے نماز پڑھتے تھے؟انھوں نے فرمایا: آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کی خوبصورتی اورطوالت کا حال مت پوچھو۔ پھر چار رکعات پڑھتے ان کے بھی حسن اوردرازی کا حال مت پوچھیں۔ پھر تین رکعات پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ وترپڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟تو آپ نے فرمایا: میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3569]
حدیث حاشیہ:
رمضان شریف میں اسی نماز کو تراویح کے نام سے موسوم کیا گیا اور غیر رمضان میں یہ نماز تہجد کے نام سے مشہور ہوئی۔
ان کو الگ الگ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
آپ رمضان ہو یا غیر رمضان تراویح یا تہجد گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے جن میں آٹھ رکعت نفل نماز اور تین وتر شامل ہوتے تھے۔
اس صاف اور صریح حدیث کے ہوتے ہوئے آٹھ رکعت تراویح کو خلاف سنت کہنے والے لوگوں کو اللہ نیک سمجھ عطا فرمائے کہ وہ ایک ثابت شدہ سنت کے منکر بن کر فساد برپا کرنے سے باز رہیں۔
آمین۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3569   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1147  
1147. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے سوال کیا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسے ہوا کرتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے، ان کی طوالت اور خوبی کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق بھی سوال نہ کرو۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پرھتے تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو رہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عائشہ! میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں مگر میرا دل بیدار رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1147]
حدیث حاشیہ:
رمضان المبارک میں ان گیارہ رکعات کو نماز تراویح کہتے ہیں اور غیر رمضان میں ان کا نام نماز تہجد ہے، گویا وقت اور محل کے اعتبار سے اس کے دو نام ہیں۔
ان کی تعداد گیارہ رکعات ہے۔
جن روایات میں رسول اللہ ﷺ کا رمضان میں رات کے وقت بیس رکعات پڑھنا بیان ہوا ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔
نماز تراویح کی تعداد آٹھ رکعات اور تین وتر ہیں۔
ان کے متعلق تفصیل کتاب التراویح، حدیث: 2013 میں آئے گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1147   

  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 49  
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک یا رمضان المبارک کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں ادا کرتے، ان کی عمدگی اور طوالت کا مت پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں ادا کرتے ان کی خوبی... [صحيح ابن خزيمه ح: 49]
فوائد:
یہ انبیاء و رسل کا خاصہ ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی اور دل بیدار رہتے تھے، اسی وجہ سے نیند سے انبیائے کرام علیہم السلام کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا، آنکھوں کا سونا اور دل کا بیدار رہنا اونگھ کی کیفیت ہے اور تمام مکاتبِ فکر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اونگھ ناقض وضو نہیں ہے۔ اور تمام انبیاء اس کیفیت سے دو چار تھے، فرمان نبوی ہے:
«انا معشر الانبياء تَنَامُ اعْيُنَنَا وَلَا تَنَامُ قُلُوبُنَا»
ہم انبیاء کے گروہ کی ہماری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتے۔
[الصحيحه: 1705، صحيح الجامع: 2287]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 49   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.