الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1992
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا منع ہے، خواہ وہ روزہ نذر کا ہو یا کفارے کا اور وہ نفلی ہو یا قضا کا، الغرض ہر قسم کا روزہ رکھنا منع ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر کسی نے ایک روزے کی نذر مانی، اتفاق سے وہ نذر عید کے دن آ پڑی، مثلا: کسی نے کہا کہ جس دن زید آیا میں اس دن روزہ رکھوں گا۔ زید عید کے دن آیا تو نذر صحیح ہو گی یا نہیں؟ جمہور کے نزدیک اس قسم کی نذر صحیح نہیں کیونکہ اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت ہے ہاں، احناف کے ہاں نذر صحیح ہو گی لیکن اس کے ذمے اس دن کی قضا دینا ہو گی۔ بہرحال اس دن کی نذر صحیح نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ (فتح الباري: 304/4)(2) حدیث مذکور میں اس علت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر ان دو دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے۔ ایک روزوں سے افطار کی وجہ سے اس دن روزے رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ روزہ اور افطار دونوں متضاد ہیں جو بیک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے، اسی طرح قربانی کا گوشت کھانے کے دن بھی روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ قربانی کا گوشت تناول کرنے کا تقاضا ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھا جائے۔ (3) ان دو دنوں کے علاوہ ایام التشریق (ذوالحجہ کی گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ) کے روزے رکھنے بھی ممنوع ہیں، البتہ حج تمتع کرنے والے جس حاجی کے پاس قربانی نہ ہو وہ ان دنوں میں روزے رکھ سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1992