ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں سحری اپنے گھر کھاتا پھر جلدی کرتا تاکہ نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائے۔
Narrated Sahl bin Sa`d: I used to take my Suhur meals with my family and then hurry up for presenting myself for the (Fajr) prayer with Allah's Apostle.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 143
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1920
حدیث حاشیہ: یعنی سحری وہ بالکل آخر وقت کھایا کرتے تھے پھر جلدی سے جماعت میں شامل ہوجاتے کیوں کہ آنحضرت ﷺ فجر کی نماز ہمیشہ طلوع فجر کے بعد اندھیرے ہی میں پڑھا کرتے تھے ایسا نہیں جیسا کہ آج کل حنفی بھائیوں نے معمول بنا لیا ہے کہ نماز فجر بالکل سورج نکلنے کے وقت پڑھتے ہیں، ہمیشہ ایسا کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے۔ نماز فجر کو اول وقت ادا کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1920
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1920
حدیث حاشیہ: (1) ہمارے پیش نظر صحیح بخاری کا جو نسخہ ہے اس میں أدرك السحور کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہم نے ”نماز فجر“ کیے ہیں کیونکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المواقیت، حدیث: 577) بخاری کے دیگر نسخوں میں السجود کے الفاظ ہیں اور یہی صحیح ہے۔ (فتح الباري: 176/4)(2) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ سحری کھانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کے اور نماز فجر کے درمیان بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے، اگر دیر سے فراغت ہو تو خطرہ ہے نماز فجر رہ جائے، اس لیے جلدی فارغ ہو کر جماعت میں شمولیت کرنی چاہیے۔ حضرت سعد ؓ بھی اسی مقصد کے پیش نظر جلدی کرتے تھے جیسا کہ امام مالک حضرت ابوبکر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم صلاۃ اللیل سے فارغ ہو کر سحری کھانے میں جلدی کرتے مبادا نماز فجر رہ جائے۔ (3) ابن بطال نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کو اس حدیث پر تأخير السحور کا عنوان قائم کرنا چاہیے تھا، چنانچہ علامہ عینی ؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تأخير السحور کو ہی بیان کیا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان صحیح ہے اور اسی میں جامعیت ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1920