(مرفوع) حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك ابو بكر، وبلال، فكان ابو بكر إذا اخذته الحمى، يقول: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله وكان بلال إذا اقلع عنه الحمى يرفع عقيرته، يقول: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل وهل اردن يوما مياه مجنة وهل يبدون لي شامة وطفيل قال: اللهم العن شيبة بن ربيعة، وعتبة بن ربيعة، وامية بن خلف، كما اخرجونا من ارضنا إلى ارض الوباء، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة او اشد، اللهم بارك لنا في صاعنا وفي مدنا وصححها لنا، وانقل حماها إلى الجحفة"، قالت: وقدمنا المدينة وهي اوبا ارض الله، قالت: فكان بطحان يجري نجلا تعني ماء آجنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ، وَبِلَالٌ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى، يَقُولُ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ، يَقُولُ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ"، قَالَتْ: وَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهِيَ أَوْبَأُ أَرْضِ اللَّهِ، قَالَتْ: فَكَانَ بُطْحَانُ يَجْرِي نَجْلًا تَعْنِي مَاءً آجِنًا.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما بخار میں مبتلا ہو گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بخار میں مبتلا ہوئے تو یہ شعر پڑھتے: ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے: کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس) ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل (پہاڑوں) کو دیکھ سکتا۔ کہا کہ اے میرے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ! اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کر دے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی۔ انہوں نے کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔
Narrated `Aisha: When Allah's Apostle reached Medina, Abu Bakr and Bilal became ill. When Abu Bakr's fever got worse, he would recite (this poetic verse): "Everybody is staying alive with his People, yet Death is nearer to him than His shoe laces." And Bilal, when his fever deserted him, would recite: "Would that I could stay overnight in A valley wherein I would be Surrounded by Idhkhir and Jalil (kinds of goodsmelling grass). Would that one day I could Drink the water of the Majanna, and Would that (The two mountains) Shama and Tafil would appear to me!" The Prophet said, "O Allah! Curse Shaiba bin Rabi`a and `Utba bin Rabi`a and Umaiya bin Khalaf as they turned us out of our land to the land of epidemics." Allah's Apostle then said, "O Allah! Make us love Medina as we love Mecca or even more than that. O Allah! Give blessings in our Sa and our Mudd (measures symbolizing food) and make the climate of Medina suitable for us, and divert its fever towards Aljuhfa." Aisha added: When we reached Medina, it was the most unhealthy of Allah's lands, and the valley of Bathan (the valley of Medina) used to flow with impure colored water.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 113
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1889
حدیث حاشیہ: وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے، صحابہ کرام مہاجرین ؓ اگرچہ برضا و رغبت اللہ و رسول ﷺ کی رضا کی خاطر اپنے وطن، اپنے گھر در سب کو چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے مگر شروع شروع میں ان کو وطن کی یاد آیا ہی کرتی تھی اور اس لیے بھی کہ ہر لحاظ سے اس وقت مدینہ کا ماحول ان کے لیے ناساز گار تھا، خاص طور پر مدینہ کی آب و ہوا ان دنوں ان کے موافق نہ تھی۔ اسی لیے وہ بخار میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت بلال ؓ کے درد انگیز اشعار ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ شریف کا ماحول وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک ان کو کس قدر محبوب تھی مگر اللہ و رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی، حضرت بلال ؓ کے اشعار میں ذکر کردہ جلیل اور اذخر دو قسم کی گھاس ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی ہیں اور شامہ اور طفیل مکہ سے تین میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ مجنہ مکہ سے چند میل مر الظہران کے قریب ایک مقام ہے جہاں کا پانی بے حد شیریں ہے، حضرت بلال ؓ نے اپنے ان اشعار میں ان ہی سب کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے بلالی اشعار کا اردو ترجمہ اشعار میں یوں فرمایا: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً کاش! پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ سب طرف میرے اگے ہوئےں واں إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ اور پیؤں پانی مجنہ کے جو آب حیات وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ کاش! پھر دیکھوں میں شامہ کاش! پھر دیکھوں طفیل اللہ پاک نے اپنے حبیب پاک ﷺ کی دعا قبول فرمائی کہ مدینہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر لحاظ سے ایک جنت کا نمونہ شہر بن گیا اور اللہ نے اسے ہر قسم کی برکتوں سے نوازا اور سب سے بڑا شرف جو کائنات عالم میں اسے حاصل ہے وہ یہ کہ یہاں سرکار دو عالم رسول اکرم ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔ سچ ہے: اخترت بین أماکن الغبراء دار الکرامة بقعة الزوراء (صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1889
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1889
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں اقامت رکھنا ایک مومن کی پسندیدہ خواہش ہونی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے اچھا کر دے۔ “(2) وطن سے محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ نے اگرچہ اللہ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا لیکن شروع شروع میں وطن کی یاد بہت آیا کرتی تھی، نیز مدینہ طیبہ کا ماحول بھی اس وقت ناسازگار تھا، خاص طور پر اس کی آب و ہوا ان کے موافق نہ تھی، اس لیے انہیں بخار ہو جاتا۔ اس دوران میں حضرت بلال ؓ بڑے درد انگیز اشعار پڑھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے۔ مکہ کا ماحول، وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک کا اپنے اشعار میں ذکر کرتے مگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی۔ حضرت بلال ؓ کے اشعار میں جلیل اور اذخر کا ذکر آیا ہے۔ یہ گھاس کے نام ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ شامہ اور طفیل مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ مکے سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ طیبہ ایک سخت وبائی آب و ہوا کی لپیٹ میں تھا، چنانچہ مدینہ طیبہ میں آنے والے سخت بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے یہ وبا جحفه منتقل ہو گئی جو اس وقت مشرکین کی بستی تھی اور مدینہ طیبہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر اعتبار سے جنت کا نمونہ بن گیا۔ الغرض آج مدینہ طیبہ کی ہر بستی بابرکت ہے جس سے ساری دنیا کو فیض پہنچ رہا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1889
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:225
فائدہ: اچھے شعر پڑھنا درست ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موت کو بہت زیادہ یاد رکھتے تھے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی علاقے میں بیماری کی وباء عام ہو جائے تو اس خاص علاقے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ سے بڑی محبت تھی، جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لیے دعا کی تھی، وہی دعا اور اس سے بہتر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لیے کی۔ راجح بات یہ ہے کہ مکہ افضل ہے اور مدینہ کو بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ دعا جامع انداز میں کرنی چاہیے، اور اس حدیث میں نہایت جامع و مانع انداز سے دعا کی گئی ہے۔ اس موقع پر راقم فقیر ابن بشیر الحسینوی عفی عنہ بھی ایک دعا کرنا چاہتا ہے، ”یا رب العالمین! میں تجھ سے وہ مانگتا ہوں جو تیرے برگزیدہ بندوں نے مانگا، مثلاً محد ثین مفسرین، شارحین، ناشرین، اور ائمہ حرمین نے جو تجھ سے مانگا ہے، وہ ہمیں بھی دے دے، اور اس کی مثل اور بھی عطا فرما آمین۔“
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 225
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3342
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ہم مدینہ پہنچے، تو وہ وبائی علاقہ تھا، (جس میں پردیسی کثرت سے بیمار ہو رہے تھے) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیمار پڑ گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تو دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے، جیسے مکہ کی محبت رکھی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اور اس کو صحت بخش شہر بنا دے، اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3342]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: وَبِيْئَةٌ: وبائی علاقہ، جہاں لوگ جلد جلد موت کا شکار ہوتے ہیں۔ فوائد ومسائل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت حجفہ میں یہود آباد تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبا کے ادھر منتقل ہونے کی دعا فرمائی، جس سے ثابت ہوا کفار کے لیے بیماری اور ہلاکت وتباہی کی دعا کرنا جائز ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے لیے صحت وسلامتی کی اور مسلمانوں کے ملک کے لیے صحت افزا مقام ہونے کی دعا کرنا چاہیے۔ بعض متصوفین (تصوف زدہ) کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ دعا خلاف توکل ہے، کیونکہ دعا بھی اللہ کے حضورجاتی ہے۔ جو افتقا رواحتیاج کی علامت ہے اور بہت بڑی عبادت ہے، اس طرح معتزلہ کا اس کو خلاف تقدیر کہہ کر بے فائدہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ دعا بھی تقدیر کا حصہ ہے۔ اور آپ کی دعا ہی کا یہ اثر ہے کہ حجفہ کا پانی بخار کا سبب بنتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3342
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3926
3926. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آنے لگا۔ میں (تیمارداری کرنے کے لیے) دونوں کے پاس گئی اور کہا: ابا جان! کیا حال ہے؟ اے بلال! تم کیسے ہو؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو کہتے: ہر کوئی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔ اور حضرت بلال ؓ کا بخار جب اتر جاتا تو وہ بآواز بلند کہتے: کاش! مجھے پتہ چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا، جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو گی؟ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمیں مدینہ طیبہ محبوب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3926]
حدیث حاشیہ: جحفہ اب مصروالوں کی میقات ہے۔ اس وقت وہاں یہودی رہا کرتے تھے۔ امام قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلا کہ کافروں کے لئے جو اسلام اور مسلمانوں کے ہر وقت درپے آزار رہتے ہوں ان کی ہلا کت کے لئے بد دعا کرنا جائز ہے امن پسند کافروں کا یہاں ذکر نہیں ہے مقام جحفہ اپنی خراب آب وہوا کے لئے اب بھی مشہور ہے جو یقینا آنحضرت ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے ان شعروں کا منظوم ترجمہ یوں کیا ہے۔ خیر یت سے ا پنے گھر میں صبح کرتا ہے بشر موت اس کی جوتی کے تسمے سے ہے نزدیک تر کاش میں مکہ کی وادی میں رہوں پھر ایک رات سب طرف میرے اگے ہوں واں جلیل اذخر نبات کاش پھر دیکھوں میں شامہ کاش پھر دیکھوں طفیل اور پیوں پانی مجنہ کے جو ہیں آب حیات شامہ اور طفیل مکہ کی پہاڑیوں کے نام ہیں۔ رونے میں جو آوازنکلتی ہے اسے عقیرہ کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3926
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5654
5654. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے: ”ہر آدمی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔“ حضرت بلال ؓ کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے: کاش! میں ایسی وادی میں رات بسر کرتا کہ میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہوتی۔ کیا میں کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل پہاڑ آئیں گے؟ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ نے بایں الفاظ دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ طیبہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5654]
حدیث حاشیہ: حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مشہور بزرگ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ ہیں۔ اسلام قبول کرنے پر ان کو اہل مکہ نے بے حد دکھ دیا۔ امیہ بن خلف ان کا آقا بہت ہی زیادہ ستاتا تھا اللہ کی شان یہی امیہ ملعون جنگ بدر میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آخری زمانہ میں ملک شام میں مقیم ہو گئے تھے اور 63 سال کی عمر میں سنہ20 ھ میں دمشق یا حلب میں انتقال فرمایا، رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5654
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3926
3926. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آنے لگا۔ میں (تیمارداری کرنے کے لیے) دونوں کے پاس گئی اور کہا: ابا جان! کیا حال ہے؟ اے بلال! تم کیسے ہو؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو کہتے: ہر کوئی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔ اور حضرت بلال ؓ کا بخار جب اتر جاتا تو وہ بآواز بلند کہتے: کاش! مجھے پتہ چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا، جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو گی؟ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمیں مدینہ طیبہ محبوب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3926]
حدیث حاشیہ: 1۔ حجفہ میں اس وقت یہودی رہا کرتے تھے اور یہ مدینہ طیبہ سے سات مراحل پر واقع ہے۔ اس کے اور سمندر کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔ اب اہل مصر کا میقات ہے۔ آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے اب بھی مشہور ہے یقیناً رسول اللہ ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔ 2۔ حضرت بلال ؓ بخار اترنے کے بعد یہ بھی کہا کرتے تھے۔ ”اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، انھیں اپنی رحمت سے باہر نکال دے جیسے انھوں نے ہمیں اس وبائی سر زمین میں آنے پر مجبور کیا۔ “(صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1889) 3۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عامر بن فہرہ کے پاس بھی جاتی اور اس سے حال پوچھتی تو وہ بھی کہتے کہ موت آنے سے پہلے ہی مجھے اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ حضرات شدت بخار کی وجہ سے ہذیان کا شکار ہیں: خود حضرت عائشہ ؓ کو مدینے پہنچ کر اس قدر سخت بخار ہوا کہ آپ کے بال جھڑ گئے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی آب و ہوا کے خوشگوار ہونے کی دعا فرمائی۔ اس کی تفصیل کتاب فضائل المدینہ کے آخر میں حدیث 1889 کے تحت ملاحظہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3926
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5654
5654. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے: ”ہر آدمی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔“ حضرت بلال ؓ کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے: کاش! میں ایسی وادی میں رات بسر کرتا کہ میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہوتی۔ کیا میں کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل پہاڑ آئیں گے؟ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ نے بایں الفاظ دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ طیبہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5654]
حدیث حاشیہ: (1) ان دنوں مقام جحفہ میں یہودی آباد تھے جو مسلمانوں کے خلاف آئے دن منصوبے بناتے رہتے تھے، اس لیے آپ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! مدینہ طیبہ کے بخار کو وہاں بھیج دے۔ “ پھر آپ نے خواب میں دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے ایک عورت پراگندہ حالت میں نکل کر جحفہ چلی گئی ہے جس کی تعبیر وباؤں اور بخار وغیرہ کا وہاں منتقل ہونا تھا۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7038)(2) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ عورت، مردوں کی تیمارداری کر سکتی ہے لیکن اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ تو پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ آج بھی ستروحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کسی بھی اجنبی شخص کی تیمارداری کر سکتی ہے، بشرطیکہ وہاں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 146/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5654
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6372
6372. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے مدینہ طیبہ کی ایسی ہی محبت کر دے جیسے تو نے مکہ مکرمہ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور اس کے بخار کو مقام حجفہ میں منتقل کر دے۔ ”اے اللہ! ہمارے لیے مد اور ہمارے صاع میں برکت فرما۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6372]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں اس دعا کا پس منظر بیان ہوا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت یہ شہر سخت وبائی امراض کی لپیٹ میں تھا۔ یہاں پہنچ کر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت بلال رضی اللہ عنہا کو بخار ہو گیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تو جذبات سے بے قابو ہو کر سردارانِ قریش کو لعنت کرتے ہوئے کہنے لگے: اے اللہ! ان کا ستیاناس کر انہوں نے ہمیں ہماری سرزمین سے وبائی خطے کی طرف آنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ دعا مانگی۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کا پہلا جز ثابت کیا ہے کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ مدینہ ان دنوں وبائی امراض میں گھرا ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1889)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6372