صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
The Book About The Virtues Or Al-Madina.
10. بَابُ الْمَدِينَةُ تَنْفِي الْخَبَثَ:
10. باب: مدینہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔
(10) Chapter. Al-Madina expels Al-Khabath (all the evil and bad persons, etc.).
حدیث نمبر: 1884
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن عبد الله بن يزيد، قال: سمعت زيد بن ثابت رضي الله عنه، يقول:" لما خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى احد رجع ناس من اصحابه، فقالت فرقة: نقتلهم، وقالت فرقة: لا نقتلهم، فنزلت: فما لكم في المنافقين فئتين سورة النساء آية 88، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنها تنفي الرجال، كما تنفي النار خبث الحديد".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" لَمَّا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَتْ فِرْقَةٌ: نَقْتُلُهُمْ، وَقَالَتْ فِرْقَةٌ: لَا نَقْتُلُهُمْ، فَنَزَلَتْ: فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهَا تَنْفِي الرِّجَالَ، كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لیے نکلے تو جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ لوگ واپس آ گئے (یہ منافقین تھے) پھر بعض نے تو یہ کہا کہ ہم چل کر انہیں قتل کر دیں گے اور ایک جماعت نے کہا کہ قتل نہ کرنا چاہئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی «فما لكم في المنافقين فئتين‏» اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ (برے) لوگوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح آگ میل کچیل دور کر دیتی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Zaid bin Thabit: When the Prophet went out for (the battle of) Uhud, some of his companions (hypocrites) returned (home). A party of the believers remarked that they would kill those (hypocrites) who had returned, but another party said that they would not kill them. So, this Divine Inspiration was revealed: "Then what is the matter with you that you are divided into two parties concerning the hypocrites." (4.88) The Prophet said, "Medina expels the bad persons from it, as fire expels the impurities of iron."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 108


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4589زيد بن ثابتإنها طيبة تنفي الخبث كما تنف ي النار خبث الفضة
   صحيح البخاري1884زيد بن ثابتتنفي الرجال كما تنفي النار خبث الحديد
   صحيح مسلم3356زيد بن ثابتإنها طيبة يعني المدينة وإنها تنفي الخبث كما تنفي النار خبث الفضة
   جامع الترمذي3028زيد بن ثابتإنها طيبة وقال إنها تنفي الخبث كما تنفي النار خبث الحديد

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1884 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1884  
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ کا وصف مذکور ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام کی خواہش رکھتے ہوئے مسلمان ہوئے، پھر ان کے دل میں خرابی پیدا ہوئی۔
ایسے لوگوں کو مدینہ طیبہ اپنے اندر پناہ نہیں دیتا، بصورت دیگر مدینہ طیبہ میں منافقین رہتے تھے، وہیں مرے اور دفن ہوئے۔
مدینہ طیبہ نے انہیں اپنے سے دور نہیں کیا کیونکہ مدینہ طیبہ ان کی اصل قیام گاہ تھی۔
وہ اسلام کی حیثیت سے وہاں نہیں رہتے تھے نہ انہیں مدینہ طیبہ سے محبت ہی تھی۔
ان کا وہاں رہنا صرف اس لیے تھا کہ وہ ان کا اصلی وطن اور وہی ذریعۂ معاش تھا۔
(عمدةالقاري: 598/7) (2)
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ طیبہ کا یہ وصف رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے ساتھ خاص ہو کہ آپ کے دور میں مدینہ طیبہ سے نفرت کرتے ہوئے وہی نکلتا تھا جس کے دل میں ایمان کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق دجال اکبر کی آمد کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ اس کی آمد پر مدینہ طیبہ سے جھٹکوں کے ذریعے سے تمام ان لوگوں کو نکال دیا جائے گا جو دل کے روحانی مریض ہوں گے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1884   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3028  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن یزید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ آیت: «فما لكم في المنافقين فئتين» کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ (ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے) لوٹ آئے ۱؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے کہا: انہیں قتل کر دو، اور دوسرے فریق نے کہا: نہیں، قتل نہ کرو تو یہ آیت «فما لكم في المنافقين فئتين» ۱؎ نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا: مدینہ پاکیزہ شہر ہے، یہ ناپاکی و گندگی کو (إن شاء اللہ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی (میل و زنگ) کو دور کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3028]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جہاد میں شریک نہ ہوئے۔

2؎:
 تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو (النساء: 88)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3028   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4589  
4589. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو۔ کچھ منافقین جو بظاہر نبی ﷺ کے ساتھ تھے جنگ اُحد میں (آپ کو چھوڑ کر) مدینہ طیبہ واپس آ گئے تو ان کے متعلق مسلمانوں میں دو گروہ بن گئے: ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم ان سے بھی لڑائی کریں گے جبکہ دوسرا گروہ ان سے لڑنے پر آمادہ نہ تھا تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: (مسلمانو) تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: مدینہ، طیبہ ہے۔ یہ ناپاکی اور خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ، چاندی کو میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4589]
حدیث حاشیہ:

ان منافقین نے واپس جا کر اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کردیا ہے، اب اگر تم چاہو کہ ہمیں ان سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے شاید وہ راہ راست پر آجائیں تو یہ بات تمہارے بس میں نہیں۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے منافقین واجب القتل ہیں کیونکہ ان کے عزائم یہ ہیں کہ تمھیں بھی اپنے جیسا بنا کر چھوڑیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ منافقین کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو مدینے کے ارد گرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرورکرتے تھے مگر عملی طور پر وہ اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھےان کےلیے یہ میعار مقررکیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کرکے تمہارے پاس مدینہ آجائیں اور تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس صورت میں تم انھیں سچا بھی خیال کرو اور ان سے ہمدردی بھی کرو اور اگر وہ گھر بار چھوڑنے کی قربانی نہ دیں تو انھیں قتل کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو لیکن اس حکم قتل سے دو قسم کے منافق مستثنیٰ ہیں۔
۔
جو کسی ایسی قوم میں چلے جائیں جن سے معاہدہ امن ہوچکا ہے ان کا تعاقب نہ کیا جائے۔
۔
وہ منافقین جو غیر جانبدار رہناچاہتے ہوں تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے یا ان کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا نہ چاہتے ہوں۔
ان دو قسم کے لوگوں سے جنگ نہ کی جائے۔

امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے منافقین مدینہ ہی مراد ہیں۔
ایک تو آپ نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی حدیث پیش کی ہے، دوسرے مدینہ طیبہ کے متعلق صراحت کی ہے کہ وہ بھٹی کی طرح ہے جو چاندی کا میل کچیل دورکردیتی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4589   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.