صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
The Book About The Virtues Or Al-Madina.
1. بَابُ حَرَمِ الْمَدِينَةِ:
1. باب: مدینہ کے حرم کا بیان۔
(1) Chapter. Haram (sanctuary) of Al-Madina.
حدیث نمبر: 1870
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن علي رضي الله عنه، قال:" ما عندنا شيء إلا كتاب الله، وهذه الصحيفة، عن النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، حرم ما بين عائر إلى كذا من احدث فيها حدثا، او آوى محدثا فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف، ولا عدل، وقال:" ذمة المسلمين واحدة فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف، ولا عدل، ومن تولى قوما بغير إذن مواليه، فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل"، قال ابو عبد الله: عدل فداء.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ، حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ، وَقَالَ:" ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ، وَمَنْ تَوَلَّى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: عَدْلٌ فِدَاءٌ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ اس صحیفہ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل، اور جو کوئی اپنے مالک کو چھوڑ کر اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو مالک بنائے، اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Ali: We have nothing except the Book of Allah and this written paper from the Prophet (wherein is written:) Medina is a sanctuary from the 'Air Mountain to such and such a place, and whoever innovates in it an heresy or commits a sin, or gives shelter to such an innovator in it will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, none of his compulsory or optional good deeds of worship will be accepted. And the asylum (of protection) granted by any Muslim is to be secured (respected) by all the other Muslims; and whoever betrays a Muslim in this respect incurs the curse of Allah, the angels, and all the people, and none of his compulsory or optional good deeds of worship will be accepted, and whoever (freed slave) befriends (take as masters) other than his manumitters without their permission incurs the curse of Allah, the angels, and all the people, and none of his compulsory or optional good deeds of worship will be accepted.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 94


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1870علي بن أبي طالبذمة المسلمين واحدة من أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل من تولى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1870 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1870  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ نے مدینہ طیبہ کے حرم ہونے پر استدلال کیا ہے۔
اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کا شکار بھی نہ پکڑا جائے لیکن ائمۂ ثلاثہ اس کے ارتکاب پر کوئی فدیہ واجب نہیں کرتے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ مدینہ طیبہ کو حرم تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ مدینہ کے درخت کاٹنے اور اس کا شکار کرنے کو جائز کہتے ہیں۔
ان کے ہاں احادیث مذکورہ کا مطلب مدینہ کی زینت کو باقی رکھنا ہے تاکہ لوگ مدینہ طیبہ سے مانوس ہوں اور اس سے وحشت محسوس نہ کریں، لیکن احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا:
حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، میں مدینہ طیبہ قابل احترام ٹھہراتا ہوں (2)
اس حدیث سے ان روافض و شیعہ حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے پاس رسول اللہ ﷺ کا وصیت نامہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ نے راز کے طور پر حضرت علی ؓ کو کچھ باتیں تلقین کی تھیں اور وہ اسرار دین پر مشتمل ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے عدل کے معنی فدیہ بتائے ہیں۔
یہ معنی بھی قابل اعتبار ہیں
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1870   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.