وقال روح: عن شبل، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابن عباس رضي الله عنه،" إنما البدل على من نقض حجه بالتلذذ، فاما من حبسه عذر، او غير ذلك، فإنه يحل ولا يرجع، وإن كان معه هدي وهو محصر نحره، إن كان لا يستطيع ان يبعث به، وإن استطاع ان يبعث به لم يحل حتى يبلغ الهدي محله". وقال مالك، وغيره: ينحر هديه ويحلق في اي موضع كان، ولا قضاء عليه، لان النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه بالحديبية نحروا، وحلقوا، وحلوا من كل شيء قبل الطواف، وقبل ان يصل الهدي إلى البيت، ثم لم يذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم امر احدا ان يقضوا شيئا، ولا يعودوا له، والحديبية خارج من الحرم.وَقَالَ رَوْحٌ: عَنْ شِبْلٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" إِنَّمَا الْبَدَلُ عَلَى مَنْ نَقَضَ حَجَّهُ بِالتَّلَذُّذِ، فَأَمَّا مَنْ حَبَسَهُ عُذْرٌ، أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَحِلُّ وَلَا يَرْجِعُ، وَإِنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ وَهُوَ مُحْصَرٌ نَحَرَهُ، إِنْ كَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَبْعَثَ بِهِ، وَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَبْعَثَ بِهِ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ". وَقَالَ مَالِكٌ، وَغَيْرُهُ: يَنْحَرُ هَدْيَهُ وَيَحْلِقُ فِي أَيِّ مَوْضِعٍ كَانَ، وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ بِالْحُدَيْبِيَةِ نَحَرُوا، وَحَلَقُوا، وَحَلُّوا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ قَبْلَ الطَّوَافِ، وَقَبْلَ أَنْ يَصِلَ الْهَدْيُ إِلَى الْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يُذْكَرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَحَدًا أَنْ يَقْضُوا شَيْئًا، وَلَا يَعُودُوا لَهُ، وَالْحُدَيْبِيَةُ خَارِجٌ مِنْ الْحَرَمِ.
اور روح نے کہا، ان سے شبل بن عیاد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ قضاء اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب کوئی حج میں اپنی بیوی سے جماع کر کے نیت حج کو توڑ ڈالے لیکن کوئی اور عذر پیش آ گیا یا اس کے علاوہ کوئی بات ہوئی تو وہ حلال ہوتا ہے، قضاء اس پر ضروری نہیں اور اگر ساتھ قربانی کا جانور تھا اور وہ محصر ہوا اور حرم میں اسے نہ بھیج سکا تو اسے نحر کر دے، (جہاں پر بھی قیام ہو) یہ اس صورت میں جب قربانی کا جانور (قربانی کی جگہ) حرم شریف میں بھیجنے کی اسے طاقت نہ ہو لیکن اگر اس کی طاقت ہے تو جب تک قربانی وہاں ذبح نہ ہو جائے احرام نہیں کھول سکتا۔ امام مالک وغیرہ نے کہا کہ (محصر) خواہ کہیں بھی ہو اپنی قربانی وہیں نحر کر دے اور سر منڈا لے۔ اس پر قضاء بھی لازم نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے حدیبیہ میں بغیر طواف اور بغیر قربانی کے بیت اللہ تک پہنچے ہوئے نحر کیا اور سر منڈایا اور وہ ہر چیز سے حلال ہو گئے، پھر کسی نے ذکر نہیں کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی قضاء کا یا کسی بھی چیز کے دہرانے کا حکم دیا ہو اور حدیبیہ حد حرم سے باہر ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن نافع، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال:" حين خرج إلى مكة معتمرا في الفتنة، إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاهل بعمرة من اجل ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان اهل بعمرة عام الحديبية، ثم إن عبد الله بن عمر نظر في امره، فقال: ما امرهما إلا واحد، فالتفت إلى اصحابه، فقال: ما امرهما إلا واحد، اشهدكم اني قد اوجبت الحج مع العمرة، ثم طاف لهما طوافا واحدا، وراى ان ذلك مجزيا عنه واهدى".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" حِينَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ، إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ نَظَرَ فِي أَمْرِهِ، فَقَالَ: مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ، فَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا، وَرَأَى أَنَّ ذَلِكَ مُجْزِيًا عَنْهُ وَأَهْدَى".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ فتنہ کے زمانہ میں جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ کے ارادے سے چلے تو فرمایا کہ اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو (حدیبیہ کے سال) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ آپ نے عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا۔ پھر آپ نے کچھ غور کر کے فرمایا کہ عمرہ اور حج تو ایک ہی ہے، اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے بھی یہی فرمایا کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ اب حج بھی اپنے لیے میں نے واجب قرار دیے لیا ہے پھر (مکہ پہنچ کر) آپ نے دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا۔ آپ کا خیال تھا کہ یہ کافی ہے اور آپ قربانی کا جانور بھی ساتھ لے گئے تھے۔
Narrated Nafi`: When `Abdullah bin `Umar set out for Mecca with the intentions performing `Umra in the period of afflictions, he said, "If I should be prevented from reaching the Ka`ba, then I would do the same as we did while in the company of Allah's Apostle ." So, he assumed the Ihram for `Umra since the Prophet had assumed the Ihram for `Umra in the year of Al-Hudaibiya. Then `Abdullah bin `Umar thought about it and said, "The conditions for both Hajj and `Umra are similar." He then turned towards his companions and said, "The conditions of both Hajj and `Umra are similar and I make you witnesses that I have made the performance of Hajj obligatory for myself along with `Umra." He then performed one Tawaf (between As-Safa and Al-Marwa) for both of them (i.e. Hajj and (`Umra) and considered that to be sufficient for him and offered a Hadi.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 28, Number 40
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1813
حدیث حاشیہ: جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی قول ہے کہ قارن کو ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1813
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1813
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ مقام حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کو کفار قریش نے عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ آپ نے وہیں احرام کھول دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے صحابۂ کرام ؓ کو اس عمرے کی قضا کا حکم نہ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محصر پر قضا ضروری نہیں۔ آئندہ سال جو عمرہ کیا تھا وہ بطور قضا نہیں بلکہ اسے عمرۃ القضاء اس لے کہا جاتا ہے کہ وہ کفار قریش سے طے شدہ فیصلے کے نتیجے میں کیا گیا تھا، چنانچہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ چھ ہجری کا عمرہ بطور قضا نہیں تھا بلکہ وہ قریش سے طے شدہ شرط کے مطابق تھا کہ مسلمان آئندہ سال اسی مہینے میں عمرہ کریں جس میں انہوں نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 219/5، وفتح الباري: 16/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1813
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2747
´جب عمرہ کا تلبیہ پکارے تو کیا اس کے ساتھ حج بھی کر سکتا ہے؟` نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ ان کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ آپ کو (حج سے) روک دیں گے تو انہوں نے کہا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیش آئی تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۱؎ میں تمہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2747]
اردو حاشہ: (1) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کی حکومت کے خلاف مکے میں پناہ لے رکھی تھی، پھر انھوں نے خلافت کا دعویٰ کر دیا۔ اہل اسلام کے بہت سے علاقوں نے ان کی بیعت کر لی۔ ادھر مروان کی وفات کے بعد ان کا بیٹا عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے آہستہ آہستہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا علاقہ حکومت کم کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ ان کا تسلط صرف مکے کی حد تک رہ گیا۔ 73ہجری میں عبدالملک نے حجاج کو ان کا قلع قمع کرنے کے لیے بھیجا۔ حجاج نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر کے لڑائی شروع کر دی۔ آخر کار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ رہے نام اللہ کا۔ اس سال خطرہ تھا کہ شاید حج کے دنوں سے پہلے لڑائی ختم نہ ہو اور حج نہ ہو سکے، مگر لڑائی پہلے ہی ختم ہوگئی اور باقاعدہ حج ہوا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ حج کا ارادہ رکھنے والے کو اگر راستے میں خطرہ ہو تو اس کے باوجود وہ حج کی نیت سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ اسے یقین نہ ہو بلکہ بچ جانے کی بھی امید ہو۔ یہ ”اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا“ نہیں ہے۔ (3)”بہترین نمونہ ہیں“ ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کو بھی عمرۂ حدیبیہ میں بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا گیا تھا، جیسے آپ نے کیا، ہم اسی طرح کریں گے۔ جہاں روک دیے گئے، وہاں قربانیاں ذبح کر دیں گے، حجامت بنوائیں گے اور حلال ہو جائیں گے۔ (4)”پہلے طواف کے ساتھ“ اس جملے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ انھوں نے بیت اللہ پہنچتے وقت جو طواف قدوم اور سعی کیے تھے، انھیں کافی سمجھا اور مزید طواف نہیں کیا۔ لیکن یہ مفہوم درست نہیں کیونکہ یوم نحر کو طواف کرنا قطعی بات ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، لہٰذا اس جملے کا مفہوم یا تو یہ ہوگا کہ انھوں نے حلال ہونے کے لیے پہلے طواف وسعی ہی کو کافی سمجھا۔ فرض طواف کا انتظار نہیں کیا بلکہ وہ بعد میں کیا۔ اور یہ بالکل صحیح ہے۔ یوم نحر میں تو قربانی کے بعد احرام ختم ہو جاتا ہے، طواف حلال ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ یا طواف سے سعی مراد لی جائے، یعنی انھوں نے پہلی سعی (جو طواف قدوم کے ساتھ کی تھی) ہی کو کافی سمجھا اور یوم نحر کے طواف کے بعد سعی نہیں کی۔ امام شافعی رحمہ اللہ قران (حج و عمرہ اکٹھا کرنا) کی صورت میں اسی کے قائل ہیں کہ اگر پہلے سعی کی ہو تو یوم نحر کو سعی کی ضرورت نہیں۔ اور صرف حج کی صورت میں احناف بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ یہ دو مفہوم مراد ہوں تو یہ جملہ صحیح ہے ورنہ یہ جملہ دیگر کثیر روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ (سعی کو بھی طواف کہہ لیا جاتا ہے۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2747
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2862
´جسے دشمن کے سبب حج سے روک دیا جائے۔` نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں نے انہیں خبر دی کہ ان دونوں نے جب حجاج بن یوسف کے لشکر نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی تو ان کے قتل کئے جانے سے پہلے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بات کی ان دونوں نے کہا: امسال آپ حج کے لیے نہ جائیں تو کوئی نقصان نہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کر دی جائے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو کفار قری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2862]
اردو حاشہ: (1) حجاج اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث 2747 کا فائدہ: 1۔ (2)”دونوں کا معاملہ ایک ہے“ یعنی اگر بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے اور رکاوٹ پڑ گئی تو پھر، خواہ احرام عمرے کا ہو یا حج کا یا دونوں کا، حلال ہونے کا طریقہ ایک ہی ہے۔ اگر رکاوٹ نہ پڑی تو جس طرح عمرہ ہو سکتا ہے، حج بھی ہو سکے گا، لہٰذا عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (3) احصار سے مراد ہے کہ محرم بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے، خواہ دشمن رکاوٹ ڈال دے جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا یا کوئی مرض وغیرہ انسان کو لاچار کر دے کہ وہ سفر جاری نہ رکھ سکے۔ ہر دو صورتوں میں اگر ساتھ قربانی کا جانور ہو تو اسے ذبح کر دیا جائے اور اگر اسے حرم بھیجا جا سکتا ہو تو بھیج دیا جائے۔ جانور کے ذبح کرنے کے بعد وہ حجامت وغیرہ کروائے اور حلال ہو جائے۔ اگر وہ حج فرض تھا تو آئندہ پھر کرے، بشرطیکہ استطاعت رکھتا ہو، ورنہ معاف ہے۔ یہی حکم عمرے کا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر وہ عمرے کا احرام تھا یا نفل حج کا تو دوبارہ قضا وغیرہ کی ضرورت نہیں جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا۔ نبیﷺ نے کسی کو پابند نہیں فرمایا کہ بعد میں اس کی قضا دیں۔ لیکن راجح موقف کے مطابق عمرے کی ادائیگی بھی واجب ہے، اس لیے اگر کسی کا واجب عمرہ رہ جائے یا اس کی تکمیل نہ ہو پائے تو آئندہ سال اسے استطاعت کی صورت میں اس کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ رہا یہ موقف کہ مطلقاً عمرے کی دوبارہ قضا ضروری نہیں اور دلیل میں عمرہ حدیبیہ سے استدلال کرنا، تو یہ محل نظر ہے۔ اولاً: اس لیے کہ آئندہ سال عمرہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا، لہٰذا مزید حکم کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ ثانیاً: راجح موقف کے مطابق حج کی فرضیت تو 9ہجری میں ہوئی تو اس سے قبل عمرے کے وجوب کے کیا معنیٰ؟ اس لیے رسول اللہﷺ نے حکماً کسی کو پابند نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2862
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2935
´قارن کے طواف کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے حج و عمرہ کو ایک ساتھ ملایا، اور (ان دونوں کے لیے) ایک ہی طواف کیا، اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2935]
اردو حاشہ: ”ایک طواف کیا۔“ اس سے فرض طواف مراد ہے ورنہ یہ بات قطعی ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ جاتے ہی ایک طواف کیا تھا، پھر دس ذوالحجہ کو بھی طواف کیا تھا۔ پہلا طواف، طوافِ قدوم بھی تھا اور طواف عمرہ بھی۔ دوسرا طواف فرض تھا۔ اسے طواف افاضہ بھی کہا جاتا ہے۔ امام شافعی اور محدثین اسی بات کے قائل ہیں۔ احناف قران والے کے لیے تین طواف اور دو سعی کے قائل ہیں۔ طواف عمرہ، سعی عمرہ، طواف قدوم، طواف زیارت، سعی حج۔ مگر رسول اللہﷺ سے صرف دو طواف اور ایک سعی ثابت ہے اور احناف کے نزدیک نبی اکرمﷺ کا حج قران تھا۔ بعض محققین نے حدیث مذکور میں ایک طواف سے سعی مراد لی ہے کیونکہ سعی آپ نے واقعتاً ایک ہی کی تھی۔ احناف اس طواف سے تحلل مراد لیتے ہیں، یعنی آپ حج اور عمرے سے طواف زیارت کے بعد ہی حلال ہوئے تھے، مگر اس تاویل کے باوجود احناف کا مسلک ثابت نہیں ہوتا کہ قارن تین طواف کرے۔ یہ بحث پیچھے بھی گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 2747)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2935
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2936
´قارن کے طواف کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ نکلے تو جب وہ ذوالحلیفہ آئے تو انہوں نے عمرے کا احرام باندھا، پھر تھوڑی دیر چلے، پھر وہ ڈرے کہ بیت اللہ تک پہنچنے سے پہلے ہی انہیں روک نہ دیا جائے تو انہوں نے کہا: اگر مجھے روک دیا گیا تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! حج کی راہ بھی وہی ہے جو عمرہ کی ہے، میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، پھر وہ چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2936]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث نمبر 2747۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2936
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2989
نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتنہ کے دور میں عمرہ کرنے کے لیے نکلے، اور فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا گیا، تو ہم اس طرح کریں گے، جیسا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا تھا، وہ (مدینہ) سے نکلے اور (میقات سے) عمرہ کا احرام باندھا اور چل دئیے، جب مقام بیداء پر پہنچے، اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، حج اور عمرہ کا معاملہ یکساں ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2989]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ احصار کے بارے میں اختلاف ہے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے نزدیک جو چیز بھی بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے، دشمن ہو یا مرض و زخم یا کسی قسم کا خوف وخطرہ وہ احصار ہے اور احناف کا موقف بھی یہی ہے، لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، کے نزدیک احصار کا تعلق صرف دشمن سے ہے اس کے سوا کسی صورت میں احرام کھولنا جائز نہیں ہے ہر صورت میں جب موقعہ ملے گا۔ بیت اللہ کا طواف کر کے احرام کھولے گا۔ 2۔ فتنہ سے مراد جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حجاج بن یوسف کے درمیان جنگ ہونے کا خطرہ ہے جس کا تعلق 72ھ سے ہے۔ 3۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج قران کیا تھا اور اس کے لیے صرف ایک سعی کی تھی جو طواف قدوم کے ساتھ کر لی تھی بعد میں طواف افاضہ کے ساتھ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی تھی اور حج قران کے لیے قربانی دی تھی جس پر امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے سوا تمام آئمہ کا اتفاق ہے، امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قربانی صرف متمتع پر لازم ہے قارن پر قربانی نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2989
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1807
1807. حضرت عبید اللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ان دنوں گفتگوکی جب (حجاج کا) لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خلاف مکہ پہنچ چکا تھا۔ ان دونوں نے عرض کیا: اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ مبادا آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو کفار قریش بیت اللہ کے سامنے رکاوٹ بن گئے۔ نبی ﷺ نے ایسے حالات میں اپنی قربانی ذبح کردی اور سر مبارک منڈوادیا۔ لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ واجب کرچکا ہوں۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں ضرور جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اس کے برعکس اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ آگئی تو میں وہی عمل کروں گا جو نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1807]
حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پر حجاج کی لشکر کشی اور اس سلسلہ میں بہت سے مسلمانوں کا خون ناحق حتی کہ کعبہ شریف کی بے حرمتی یہ اسلامی تاریخ کے وہ دردناک واقعات ہیں جن کے تصور سے آج بھی جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا خمیازہ پوری امت آج تک بھگت رہی ہے، اللہ اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اس دور تاریک میں اتحاد باہمی سے کام لے کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کریں، جن کی ریشہ دوانیوں نے آج بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکال لیا ہے۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ اللهم انصر الإسلام و المسلمین آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1807
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4185
4185. حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ایک بیٹے نے ابن عمر سے عرض کی: اگر آپ اس سال عمرے کے لیے نہ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ آپ بہت اللہ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نکلے تو کفار قریش نے ہمیں بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔ نبی ﷺ نے قربانی کے جانور وہیں ذبح کر دیے اور اپنے سر کے بال بھی منڈوا دیے۔ آپ کے صحابہ کرام ؓ نے بھی سروں کے بال کٹوائے۔ انہوں نے (مزید) فرمایا: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، اس لیے اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہوئی تو میں بیت اللہ کا طواف کروں گا اور اگر مجھے روک دیا گیا تو میں وہی کچھ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر تھوری دور گئے تو فرمایا کہ میں (حج اور عمرے) دونوں کا ایک ہی حال خیال کرتا ہوں، اس لیے میں تمہیں گواہ بناتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4185]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جب حج و عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت حجاج بن یوسف، مکہ مکرمہ کے آس پاس پڑاؤ کر چکا تھا تاکہ عبد اللہ بن زبیر ؓ سے اسے واگزار کر ایا جائے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1640) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس بیٹے نے آپ کو کہا تھا اس کا نام بھی عبد اللہ ہے۔ پھر آپ نے مقام قدید سے قربانی خریدی اور عازم مکہ ہوئے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1693) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے۔ اسے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ طواف اور سعی کی ضرورت نہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4185